اسلامی احکامات اور حکومت کی ذمہ داری

   
۱۹ اکتوبر ۲۰۰۷ء

محترم افضال ریحان صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ’’مسلم ریاست کیسی ہونی چاہیے؟‘‘ کی تمہید کے ساتھ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان (۱) کلمہ طیبہ (۲) نماز (۳) زکوٰۃ (۴) روزہ اور (۵) حج کا ذکر کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اسلام ان ہی پانچ ارکان کا نام ہے اور ان کے علاوہ باقی تمام امور ضمنی اور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ ان بنیادی ارکانِ اسلام کے بارے میں بھی ریاست اور حکومت کو دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے، اس لیے اسلام کے احکام کے نفاذ میں کسی قسم کے جبر سے کام لینا درست نہیں ہے۔

مذہب اور دین کے بارے میں مغرب کا موقف بھی یہی ہے کہ یہ فرد کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ اس کا سوسائٹی، ریاست اور حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی سوسائٹی کے اجتماعی اداروں، ریاست اور حکومت کو مذہبی احکام، معاملات اور اخلاقیات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی کا نام سیکولرازم ہے جسے مغرب پوری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر قرآن و سنت کے ساتھ دنیا بھر کے عام مسلمانوں کی بے لچک کمٹمنٹ کی وجہ سے مغرب کو اس میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

مسلم دنیا میں اسلام اور اسلامی فلسفۂ حیات کی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت اسی دشواری کو دور کرنے کے لیے محسوس کی جا رہی ہے۔ ہمارے بہت سے دانشور اس مقصد کے لیے پورے خلوص کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اگر محترم افضال ریحان اس بحث کو اپنے نقطۂ نظر تک محدود رکھتے تو یہ ان کا حق تھا اور ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کریں اور اس کی وضاحت کریں، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ

’’کیا کسی بھی مسلم ریاست کا کبھی یہ شرعی فریضہ رہا ہے کہ وہ ان پانچوں یا ان میں سے کسی ایک پر جبری عملدرآمد کرواتی رہی ہو، بالخصوص عہدِ نبویؐ اور دورِ خلافتِ راشدہ میں کہ ان جیسا تقدس کسی بھی دوسرے دور یا مملکت کو حاصل نہیں ہوا۔‘‘

اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِنبویؐ اور دورِ خلافتِ راشدہ کو سامنے رکھ کر اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ اس مقدس اور آئیڈیل دور میں ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا تھی؟ اور سوسائٹی میں مذہبی احکام کی عملداری اور مذہبی اخلاقیات کی نگرانی کے لیے ریاست و حکومت کا کردار کیا تھا؟

بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میرے بعد خلفاء ہوں گے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی واضح ہے کہ نبوت و حکومت دونوں کا باہمی جوڑ ہے۔ اسلام کا نظامِ خلافت نبوت ہی کی نیابت و نمائندگی کا نام ہے، اور مسلم حکمران کے لیے لازمی ہے کہ وہ نبوت کے احکام کا پابند اور نمائندہ ہو۔

قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں اللہ تعالیٰ نے مسلم حکمرانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

’’ان لوگوں کو جب ہم زمین میں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، معروف کا حکم کرتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں۔‘‘

تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کریمہ کی تشریح میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک خطبہ منقول ہے جس میں انہوں نے اس ارشادِ خداوندی کی روشنی میں مسلم حکمران کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

’’ہم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ تم سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں مواخذہ کریں، اور تمہارے باہمی حقوق کے بارے میں بھی تم سے مواخذہ کریں، اور سیدھے راستے کی طرف حتی الوسع تمہاری رہنمائی کریں۔ جبکہ تمہاری یعنی رعیت کی ذمہ داری ہے کہ تم خوشی کے ساتھ ہماری اطاعت کرو اور خفیہ یا کھلے بندوں مخالفت نہ کرو۔‘‘

گویا امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بتا رہے ہیں کہ ایک مسلم حکومت کا کام صرف سوسائٹی کے باہمی معاملات و حقوق کو صحیح طور پر چلانا ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں حقوق اللہ کی پاسداری بھی اس کا فرض ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں جہاں امت کو یہ تلقین کی کہ اگر تم پر کسی سیاہ ناک کٹے حبشی کو بھی امیر بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرو، وہاں ساتھ یہ شرط بھی عائد کر دی کہ جب تک وہ تم میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کو نافذ کرے۔ یعنی قرآن کریم کے احکام کو سوسائٹی میں نافذ کرنا اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا نہ صرف مسلم حکومت کا فریضہ ہے بلکہ اس حکومت کے جواز کی دلیل بھی ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے والے مختلف قبائل کو جو ہدایات جاری کرتے ان میں یہ شرط بھی ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسولِ خداؐ کی اطاعت کریں اور نماز اور زکوٰۃ وغیرہ فرائض کی پابندی کریں گے، بصورتِ دیگر ان کے لیے امان نہیں ہو گی۔ دسویں صدی ہجری کے معروف محقق امام ابن طولون دمشقی نے اپنی کتاب ’’اعلام السائلین‘‘ میں ایسے متعدد خطوط کو جمع کیا ہے، ان میں سے ایک مکتوب گرامی کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

یہ خط محمد نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے بنو معن کے نام جو طائیسین اور بعلیسین ہیں۔ بے شک ان کے لیے وہ علاقے ہیں جن شہروں اور چشموں کے ساتھ انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، اور اس کے ساتھ اتنا علاقہ مزید ان کا ہے جہاں تک ان کے ریوڑ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں ان پر کوئی دوسرا حق نہیں جتا سکے گا۔ جب کہ وہ (۱) نماز کی پابندی کریں گے (۲) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے (۳) اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کریں گے (۴) مشرکوں سے الگ رہیں گے (۵) اپنے اسلام کی گواہی دیں گے (۶) راستے کو پُر امن رکھیں گے۔‘‘

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مکتوبِ گرامی میں نماز کی پابندی، زکوٰۃ کے اہتمام، اور دیگر معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ اور رسولِ خداؐ کی اطاعت کو رعیت اور حکمران کے درمیان کمٹمنٹ کا حصہ قرار دے رہے ہیں، اور اس معاہدہ کی شرط بتا رہے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں مسلم ریاست میں شامل کیا گیا ہے۔

خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زمامِ خلافت سنبھالنے کے بعد پہلے خطبہ میں یہ بات واضح فرمائی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی پاسداری کریں گے۔ اور اپنی رعیت سے فرما دیا کہ اگر میں قرآن و سنت کے احکام پر عمل کروں تو تم پر میری اطاعت لازم ہے، اور اگر اس کے خلاف جاؤں تو میری اطاعت تم پر ضروری نہیں ہے۔ پھر ایک موقع پر حضرت صدیق اکبرؓ کو جب ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ (اے اللہ کے خلیفہ!) کہہ کر پکارا گیا تو فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی نمائندگی اور خلافت کے نام پر کسی قسم کے پاپائی اختیارات نہیں رکھتا، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور آپؐ کی سنت و ہدایات کا پابند ہوں۔ چنانچہ خلافت کی تشریح علماء امت نے یہی بتائی ہے کہ یہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا نام ہے۔

بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی بیعت کے وہ الفاظ بھی منقول ہیں جن کے ساتھ انہوں نے اموی خلیفہ عبد المالک بن مروانؓ کی تحریری بیعت کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں :

’’میں اور میرا خاندان امیر المؤمنین عبد المالک بن مروانؒ کے لیے سمع و طاعت کا اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جہاں تک ہمارے بس میں ہوا‘‘۔

گویا ایک مسلم ریاست میں حکمران اور رعیت کے درمیان تعلق اور کمٹمنٹ کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنت کے ساتھ وابستگی پر ہے، جس کے بغیر سوسائٹی اور حکمران کے درمیان تعلق مکمل نہیں ہو سکتا۔

جہاں تک معاشرے میں مذہبی احکام پر عملدرآمد کی نگرانی اور مذہبی اخلاقیات کی پاسداری کا تعلق ہے، حضرت عمرؓ کا کوڑا تو اس حوالے سے ضرب المثل ہے کہ وہ راہ چلتے لوگوں میں سے کسی کو کسی دینی حکم کی خلاف ورزی کرتا دیکھتے تو اس کی پشت پر کوڑا ٹکا دیا کرتے تھے، اور تاریخ میں اس کے بیسیوں حوالے مل جائیں گے۔ وہ نماز نہ پڑھنے پر کوڑے مارتے تھے، ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے پر کوڑے مارتے تھے، جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے پر کوڑے مارتے تھے، اور مرد کو عورت کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر کوڑے مارتے تھے۔

حضرت عمرؓ مذہبی احکام کے ساتھ ساتھ مذہبی اخلاقیات کی پاسداری کا بھی اس درجہ اہتمام کرتے تھے کہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’الاصابہ‘‘ میں واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار رات کو ایک محلہ میں گزرتے ہوئے ایک عورت کی آواز سنی جو اشعار پڑھ رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ کیا نصر بن حجاج تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے؟ نصر بن حجاج مدینہ منورہ کا ایک خوبصورت نوجوان تھا جسے دیکھتے ہی عورتیں دل تھام لیا کرتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے صبح ہوتے ہی نصر بن حجاج کو بلایا اور اس کے بال منڈوا دیے۔ اور جب دیکھا کہ بال منڈوانے سے اس کا حسن کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گیا ہے تو اسے شام کی طرف جلاوطن کر دیا۔ اس غریب کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن چونکہ وہ فتنہ کا باعث بن رہا تھا اس لیے اسے مدینہ منورہ سے جلا وطن کر دیا۔

طبریؒ نے حضرت عثمانؓ کے دور کا واقعہ لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک بار کبوتربازی اور غلیل بازی عام ہو گئی تھی، اس پر پابندی لگا دی اور اس کی روک تھام کے لیے مستقل محاسب کا تقرر کر دیا۔

جاحظؒ نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِ خلافت میں انہیں یہ رپورٹ ملی کہ دارالحکومت کوفہ میں کچھ لوگ سرعام خلافِ شرع حرکات کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے انہیں منع فرمایا اور سرکردہ حضرات کی طرف سے نیک چلنی کی ضمانت کے بعد انہیں چھوڑا۔

طبقات ابن سعد میں ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ لوگوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے، انہوں نے شراب کی دکانوں کو بند کرا دیا، حمام میں تصویر بنانے اور مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ نہانے پر پابندی عائد کر دی۔ لوگوں میں بھی لمبی زلفیں رکھنے کا فیشن عام ہو گیا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے مستقل عملے کا تقرر کیا جو ایسے لوگوں کی زلفوں کو کاٹ دیا کرتا تھا۔

یہ چند مثالیں اور حوالہ جات ہم نے دو باتوں کی وضاحت کے لیے پیش کیے ہیں:

  1. ایک یہ کہ اسلام میں مذہب و ریاست آپس میں لازم و ملزوم ہیں، اور مذہب سے ہٹ کر سوسائٹی اور ریاست کے تصور کو اسلام قبول نہیں کرتا۔
  2. اور دوسری یہ بات کہ حکومت کا کام صرف سوسائٹی کے باہمی معاملات کو نمٹانا اور درست رکھنا نہیں، بلکہ حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا، اور مذہبی احکام اور مذہبی اخلاقیات کی پاسداری کا اہتمام کرنا بھی ایک مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سوسائٹی میں یہی توازن قائم کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انسانی معاشرے میں دو انتہاپسندانہ رجحانات واضح تھے۔ ایک طرف رہبانیت تھی کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس قدر مگن ہو جائے کہ انسانوں کے حقوق و معاملات کی یکسر نفی ہو جائے، اور دوسری طرف انسانی حقوق یعنی باہمی معاملات اور کشمکش میں لوگ اس قدر محو ہو گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کی بندگی کو سرے سے بھول گئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو انتہاؤں کو مسترد کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن قائم کیا، اور ان دونوں کو ان کی صحیح جگہ دے کر اسلام کا فلسفۂ حیات اور نظامِ زندگی پیش فرمایا۔ یہ گاڑی کے دو پہیے ہیں، ان میں سے ایک بھی ڈھیلا پڑ جائے گا تو وہ لڑھک جائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter