حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اس کے اسباب و عوامل پر بحث و مباحثہ جس حد تک آگے بڑھ گیا ہے اور اس نے جو رخ اختیار کر لیا ہے یہ اگر نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ حامد میر ملک کے معروف صحافی اور اربابِ دانش میں سے ہیں، جبکہ ملک و قوم کے ساتھ ان کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ملکی صحافت کو ایک نئی نہج دینے میں جن حضرات کا کردار نمایاں ہے ان میں ایک نام حامد میر کا بھی ہے۔ وہ معروف دانش ور پروفیسر وارث میر مرحوم کے فرزند ہونے کا تعارف رکھتے ہیں۔ وارث میر مرحوم کے ساتھ مختلف مسائل پر اخباری مکالموں میں ہم بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور پروفیسر وارث میر مرحوم کے ساتھ اسلام کی تعبیرِ نو کے حوالہ سے اخبارات میں ہمارا مکالمہ چلتا رہا ہے اور حامد میر کے ساتھ تو مختلف صحافتی معرکوں میں رفاقت بھی رہی ہے۔ بلکہ کالم نگاری کی دنیا میں میرے وارد ہونے کا بڑا ذریعہ وہی ہیں کہ جن دنوں وہ روزنامہ ”پاکستان“ اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے، مولانا اللہ وسایا قاسم شہیدؒ کے ساتھ میں ان سے ملاقات کے لیے گیا تو انہوں نے مجھے کالم لکھنے کی ترغیب دی اور میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ بطور کالم نویس میں جو کچھ بھی ہوں اس کا باعث حامد میر ہیں، اس لیے ان پر قاتلانہ حملے کا دکھ مجھے بہت سے لوگوں سے زیادہ ہوا ہے اور ان کی جان بچ جانے پر اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی جلد از جلد صحت یابی کے لیے دعاگو بھی ہوں، آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر فوج اور میڈیا کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے وہ بہرحال افسوسناک ہے اور اس کے اثرات ملک و قوم کے حق میں بہتر دکھائی نہیں دے رہے۔ میڈیا نے معاشرے کے ایک اہم ستون اور کردار کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور اس کا رخ جس طرف چاہے موڑ لینے میں وہ موجودہ حالات میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو پوری طرح ہمارے سامنے ہیں۔ معاشرے کی خرابیوں اور اداروں کے بگاڑ کو نمایاں کرنے اور عوام میں بیداری کا ماحول قائم کرنے میں اس کا کردار بہت اہم ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس اثر اندازی کا غلط استعمال بھی بہت ہو رہا ہے۔ بلکہ ہمارے خیال میں معاشرے کی بہت سی خرابیوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی خرابیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی میڈیا کی یہی روش ہے، بالخصوص نظریاتی اور ثقافتی محاذ پر میڈیا کی حد سے زیادہ آزادی نے ہماری بعض اخلاقی اور اسلامی اقدار و روایات پر سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں اور ہم اس کی مسلسل شکایت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میڈیا نے معاشرے کی گھٹن کو دور کرنے کے لیے جو محنت کی ہے وہ قابلِ قدر ہے۔ البتہ ہمیں خوشی ہے کہ آزادی اور آزاد روی میں فرق کے حوالہ سے میڈیا کے کردار پر گفتگو اب دینی حلقوں سے ہٹ کر بھی ہونے لگی ہے اور جو شکایت دینی، نظریاتی اور ثقافتی پہلوؤں سے ہم کیا کرتے تھے، اب دوسرے حلقے بھی اداروں کے حوالے سے ہی سہی، مگر کچھ نہ کچھ کرنے لگے ہیں۔ جس نے اس ضرورت کا احساس اور زیادہ کر دیا ہے کہ میڈیا کے مجموعی کردار پر نظر رکھنے اور آزادی کی حدود متعین کر کے ان کی پابندی کرانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے، اس میں کسی بھی درجہ میں گفتگو کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ہمارے ملک کا سب سے زیادہ منظم اور باوقار ادارہ ہے، ملکی سالمیت و استحکام کے تحفظ کی علامت ہے، اس کا عزت و احترام ہر شہری کا فرض ہے، اس کے وقار کے ساتھ ملک و قوم کا وقار وابستہ ہے، اور اس کے وقار و احترام میں جتنا بھی اضافہ ہو، وہ ملک و قوم کے لیے حوصلے و اعتماد کا باعث ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے ملک و قوم کے لیے کام کرتے ہیں، ان کے اہداف میں ملک کی سالمیت اور قوم کی وحدت کو اولین حیثیت حاصل ہے، ان کی خدمات اور قربانیاں شک و شبہ سے بالاتر ہیں، لیکن کیا کسی سطح پر کسی غلطی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں معصومیت کا یہ سرٹیفیکیٹ کسی درجے میں کسی بھی شخصیت یا ادارے کے لیے قرین انصاف نہیں ہے۔ اسلامی روایات میں معصومیت کا یہ درجہ خلفائے راشدینؓ کو بھی حاصل نہیں تھا، ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور اس اختلاف کا سرعام اظہار کیا جاتا تھا اور وہ اس کا برا منانے کی بجائے اس کا احترام کرتے تھے اور اعتراض و شکایت کو رفع کرتے تھے۔
ہم اس مبینہ مہم کی حمایت میں ہرگز نہیں ہیں کہ پاک فوج اور خفیہ اداروں کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جائے۔ ایسی کوئی بھی حرکت ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور اصولاً درست بھی نہیں ہے، لیکن جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس سے آنکھیں بند کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ گوجرانوالہ شہر کی بزرگ ترین علمی شخصیت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے داماد کو رات کے پچھلے پہر گھر کے دروازے توڑ کر اور چھتیں پھلانگ کر انتہائی تذلیل اور بے حرمتی کے ساتھ ان کے بیڈ روم سے اٹھا لیا گیا ہے اور پانچ روز گزر جانے کے باوجود کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ ملک و قوم کے لیے خفیہ اداروں کے کردار اور قربانیوں کا احترام لازم ہے، ہم نے یہ احترام ہمیشہ کیا ہے اور آئندہ بھی اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہو گی، لیکن ملک میں ان بے شمار لاپتہ لوگوں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کے ورثاء سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود بدستور مایوسی کا شکار ہیں اور ان میں اب مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کا داماد، بلکہ خاندان بھی شامل ہو گیا ہے؟
گزارش ہے کہ اداروں کے احترام اور ان کے وقار کو ملحوظ رکھنے کی تلقین ضرور کی جائے، ہم اس میں سب کے ساتھ شریک ہیں۔ لیکن کوئی بھی ادارہ فرشتوں پر مشتمل نہیں ہے، ان اداروں میں انسان ہی کام کرتے ہیں اور وہ بھی ہمارے معاشرے اور سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی عمومی خوبیوں اور خرابیوں سے وہ لاتعلق نہیں ہیں۔ اس لیے جو بات بھی کی جائے اعتدال اور توازن کے ساتھ کی جائے، طبقاتی اور ادارہ جاتی تعصب سے بالاتر ہو کر کی جائے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی ہم یہ درخواست کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ مذکورہ معاملات میں بات کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے اور باہمی گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس لیے کہ اگر ہتھیار اٹھانے والوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو میڈیا کے مبینہ طور پر غلط استعمال کرنے والوں سے مذاکرات میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔