۲۸ مارچ ۲۰۰۲ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں روزنامہ پاکستان/یلغار کے زیر اہتمام ’’خلافتِ راشدہ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور دانشوروں نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں موجودہ دور میں خلافت کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے مقررین نے خیالات کا اظہار کیا اور کانفرنس کے اختتام پر موجودہ معروضی صورتحال میں پاکستان کے دینی حلقوں کے اصولی موقف کے طور پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس کی تفصیلات قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔
خلافت راشدہ کانفرنس میں راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی، بلکہ مہمانان خصوصی میں جگہ دے کر اعزاز بخشا گیا۔ میرے ذہن میں کانفرنس میں اظہار خیال کے حوالے سے جو تانے بانے بنے جاتے رہے، انہیں میں نے مرتب نکات کی شکل دے دی تھی، لیکن جب کانفرنس میں گفتگو کا موقع آیا تو ان نکات پر اظہار خیال کے لیے وقت کا دامن بہت تنگ تھا، اس لیے وہ باتیں ذہن میں ہی رہیں اور موقع محل کی مناسبت سے دو چار مختصراً گزارشات پیش کر کے اپنی باری بھگتا لی۔ اب خیال ہے کہ ان معروضات و گزارشات کو ’’پاکستان‘‘ ہی کے ذریعے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔
خلافت راشدہ پر گفتگو کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سے بعض پہلوؤں پر آپ علمائے کرام اور اہل دانش سے ان کے خیالات سماعت کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک آج کے عالمی حالات اور دنیائے اسلام کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے خلافت راشدہ پر گفتگو دو پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی ضروری ہے اور علمائے کرام اور اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور ذہنی توانائیوں کو استعمال میں لائیں۔
ایک پہلو یہ ہے کہ خلافت کے ادارے کی ملت اسلامیہ کے لیے اہمیت کیا ہے اور آج کے حالات میں اس کی اہمیت میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے؟ اس کا اندازہ آپ صرف ایک بات سے لگا سکتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء تک ترکی میں خلافت کا ادارہ جیسا کیسا بھی موجود تھا، اگرچہ اس پر اسلامی خلافت کی شرائط اور اصولوں کا پوری طرح اطلاق بھی بہت سے اہل علم کے نزدیک محل نظر رہا ہے، اور اس کی عسکری قوت اور سیاسی وزن بھی معاصر قوتوں کے تناظر میں اپنا مقام کھو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ کمزور ترین اور ڈھیلی ڈھالی خلافت بھی عالم اسلام کے مفادات کی اس حد تک نگہبان ضرور تھی کہ اس کی موجودگی میں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے اور اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کا کوئی منصوبہ کامیابی کی راہ نہیں پا رہا تھا۔ خلافت عثمانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دینے سے قطعی انکار کر رکھا تھا اور خلافت عثمانیہ کے ایک صوبے کی حیثیت سے فلسطین میں یہودیوں کو زمین کی خرید و فروخت کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کے تیل کے وسیع ذخائر پر مغربی کمپنیوں اور ممالک کا کنٹرول اور بالادستی بھی خلافت کی موجودگی میں موجودہ صورت میں ممکن نہیں تھی۔ ان دونوں مقاصد کے لیے خلافت کے رہے سہے ادارے کو سبوتاژ کرنا ضروری سمجھا گیا، اور اس کے لیے ترکی اور عرب دونوں خطوں میں نیشنلزم کی عصبیتوں کو ابھار کر خود مسلمانوں کے ہاتھوں خلافت کا تیاپانچہ کر دیا گیا۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا دعویٰ ہے کہ اگر خلافت کا ادارہ کسی درجہ میں بھی موجود رہتا اور ۱۹۲۴ء میں اسے ختم نہ کر دیا گیا ہوتا تو نہ اسرائیل وجود میں آتا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ کے تیل کے وسائل اس شکل میں مغرب کے کنٹرول میں چلے جاتے، جو شکل آج اس معاملہ میں عرب ملکوں کی بے بسی اور لاچاری کی صورت میں سب کو نظر آ رہی ہے۔
یہ خلافت کے ادارے کے خاتمے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج افغانستان، کشمیر، فلسطین، چیچنیا یا عالم اسلام کے کسی بھی مسئلہ پر عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں، جو آزادی کے ساتھ بات کر سکے اور مغرب کے مسلط کردہ بین الاقوامی نیٹ ورک کے شکنجے سے باہر رہ کر عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفادات کے لیے آواز اٹھا سکے۔ اس لیے خلافت کا قیام اور اس ادارے کی بحالی ہماری صرف دینی ذمہ داری نہیں، بلکہ ملی ضرورت اور اجتماعی تقاضا بھی ہے، جس کی طرف سنجیدہ توجہ دیے بغیر ہم عالم اسلام کے اتحاد اور ملت اسلامیہ کی مرکزیت کی طرف کوئی عملی قدم نہیں بڑھا سکتے۔
خلافت عثمانیہ کے حوالے سے بات کرنے کا مطلب عثمانی خلفاء کا دفاع نہیں ہے، کیونکہ عثمانی خلفاء نے جو خاندانی بادشاہت کا نظام قائم کر رکھا تھا، میں اسے اسلام کا سیاسی نظام نہیں سمجھتا اور سلطان عبد الحمید ثانی مرحوم اور ان جیسے دو تین اور باغیرت عثمانی خلفاء کو چھوڑ کر آخری دور کے باقی عثمانی خلفاء نے مغرب کے ساتھ تعلقات اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے، وہ بھی اسلامی حمیت و غیرت کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ’’یورپ کا یہ مرد بیمار‘‘ بستر مرگ پر بھی عالم اسلام کے خلاف بہت سی سازشوں کی راہ میں رکاوٹ تھا اور اسی لیے اسے بستر مرگ پر نیشنلزم کے زہر کا ٹیکا لگانے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔
میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حالت میں بھی خلافت کا ادارہ عالم اسلام کی مرکزیت کا بھرم کسی حد تک قائم رکھتے ہوئے صہیونی سازشوں کا راستہ رو کے ہوئے تھا۔ اگر آج خلافت کو اس کے صحیح مفہوم میں دوبارہ قائم کر دیا جائے تو اس کی سیاسی قوت و اہمیت کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔
خلافت راشدہ کے حوالے سے گفتگو کا دوسرا اہم پہلو میرے نزدیک یہ ہے کہ نظام خلافت کے سیاسی ڈھانچے کے خطوط کو واضح کیا جائے، اور اس کے بارے میں ہر سطح پر اور دنیا بھر میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا دلیل و منطق کے ساتھ ازالہ کیا جائے، کیونکہ اس کے بارے میں خود اہل فکر و دانش میں اس قدر کنفیوژن پایا جاتا ہے کہ اسے دور کیے بغیر خلافت کی بات کرنے کو علمی و سیاسی حلقوں میں ’’بے وقت کی راگنی‘‘ سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے اسلام کے سیاسی نظام کی بات کرتے ہوئے اس کا قریب ترین عملی نقشہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کے سیاسی ڈھانچے کی صورت میں ذہنوں میں ابھرتا ہے، یا پھر سعودی عرب کے حکومتی ڈھانچے کو بطور مثال پیش کر دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ دونوں خاندانی بادشاہتیں ہیں جن کا اسلام کسی صورت میں روادار نہیں ہے۔ لیکن اسلام کے نام پر جب یہ دو ماڈل سامنے آتے ہیں تو ایک سیاسی کارکن کے ذہن میں خلافت کا عملی نقشہ یہی بنتا ہے کہ یہ ایک آمرانہ نظام ہے، جس میں حکومت کی تشکیل ایک خاندان کے فیصلوں کی رہین منت ہوتی ہے، اور جس میں عوام کو رائے، ووٹ یا حکومت کے کسی فیصلے پر کھلے عام تنقید کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ یہ نقشہ سامنے آتے ہی ایک باشعور سیاسی کارکن کے ذہن کو بریک لگ جاتی ہے اور وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے تمام تر عقیدت و محبت رکھتے ہوئے بھی خلافت کا لفظ زبان پر لانے کا آج کے دور میں حوصلہ نہیں پاتا۔ یہ معاملہ ہمیں صاف کرنا ہو گا اور اس کو پوری طرف صاف کیے بغیر ہم خلافت کے نظام کی طرف فکری و علمی سفر میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جہاد افغانستان کے بعد طالبان کی حکومت نے اخلاق و دیانت، ایثار و قناعت، حمیت دینی اور خدمت خلق کے حوالے سے اسلامی حکومت کا ایک صحیح نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، لیکن ابھی وہ داخلی خلفشار کی وجہ سے کسی سیاسی نظام کی باضابطہ تشکیل کے مرحلہ تک نہیں پہنچے تھے کہ ان کی حکومت کو طاقت کے زور سے ختم کر دیا گیا، جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی یہ بڑھتی ہوئی امید دم توڑ گئی کہ شاید یہیں سے اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت کے آغاز کی کوئی عملی صورتحال پیدا ہو جائے۔
خلافت کے سیاسی ڈھانچے کے بارے میں کنفیوژن اور ابہام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بیشتر علمائے کرام اور روایتی حلقے مغربی جمہوریت کی نفی کرتے ہوئے حکومتی معاملات میں عوامی رائے کی اہمیت و ضرورت کو مطلقاً مسترد کر دیتے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ خلافت کی بنیاد شخصی آمریت یا زیادہ سے زیادہ کسی خاندان کی موروثی حکمرانی پر ہی قائم ہو سکتی ہے، اور اس کی تشکیل و بقا میں عوام کی رائے اور ووٹ کا کسی درجہ میں کوئی دخل نہیں ہے۔
اس لیے آج سب سے بڑی اور سب سے پہلی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاثر کو ذہنوں سے دور کیا جائے کہ خلافت شخصی آمریت کا نام ہے، صرف طاقت کے بل پر قائم ہونے والی حکومت کا نام ہے، یا موروثی طور پر منتقل ہونے والی خاندانی حکومت کا نام ہے۔ کیونکہ خلافت کو اگر اس کے اصل سرچشمہ یعنی خلافت راشدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کے دائرے میں ان میں سے کسی طرز کی حکومت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ خود خلافت راشدہ کا قیام عوامی رائے کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں عمومی مباحثہ کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفۃ المسلمین چنا گیا تھا اور مسجد نبویؐ کے کھلے اجتماع میں عمومی بیعت کی صورت میں انہیں عوامی اعتماد کی سند حاصل ہوئی تھی، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ اس کے باوجود صرف اتنی عوامی مشاورت کو کافی نہیں سمجھتے تھے، اور اسے مخصوص حالات کے حوالے سے دیکھتے ہوئے امیر المؤمنین کے انتخاب کے لیے اس سے زیادہ وسیع دائرہ میں عوامی مشاورت کو ضروری قرار دیتے تھے۔
جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تفصیلی روایت میں موجود ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کو کچھ حضرات کے بارے میں یہ علم ہوا کہ وہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد کسی بزرگ کی بیعت کرنے اور اس کا اعلان کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو حضرت عمرؓ نے مسجد نبویؐ میں خطبہ جمعہ کے دوران اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اعلان کیا کہ جس نے عام مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر کسی کو خلیفہ بنانے کی بات کی، اس کی بات ہرگز تسلیم نہ کی جائے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت اچانک ہو جانے پر اس معاملہ کو قیاس نہ کیا جائے، کیونکہ وہ مخصوص حالات تھے اور خلیفہ کا جلد از جلد چناؤ ضروری تھا، اس لیے جلدی میں سب کچھ ہو گیا تھا۔
اس پس منظر میں خلافت کے قیام اور اسلامی نظام کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کا واحد ذریعہ رائے عامہ ہے، اور اس کی صرف اس لیے نفی کر دینا درست نہیں کہ مغرب کے جمہوری نظام میں بھی حکومت کی تشکیل کے لیے عوامی رائے کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ عوامی اعتماد کے ذریعے حکومت کی تشکیل اور حکومت کے لیے رائے عامہ کے اعتماد کا حاصل ہونا اصل میں اسلام کا اصول ہے، جسے مغرب نے صدیوں بعد اختیار کیا ہے اور وہ اس معاملے میں اسلام کا نقال ہے۔ البتہ جمہوریت کا یہ پہلو اسلامی نقطۂ نظر سے قابل قبول نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں اور حکومت کو ہر قسم کے فیصلے کرنے کا مطلق اختیار حاصل ہے، کیونکہ اسلام میں حکومت، پارلیمنٹ یا عوام میں سے کسی کو قرآن و سنت کے احکام میں رد و بدل کا حق حاصل نہیں ہے، اور عوام اور حکومت دونوں قرآن و سنت کے مقرر کردہ اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے معاملات سرانجام دینے کے مجاز ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے بہترین اسوہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ہے، جنہیں ان کے پیشرو خلیفہ نے اپنا جانشین نامزد کیا اور وصیت میں اپنے خاندان اور عوام کو ان کی بیعت کر لینے کی تلقین کی تو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دمشق کی جامع مسجد میں کھلے بندوں اعلان کیا کہ وہ نامزدگی کے ذریعے خلافت کو قبول نہیں کرتے اور عوام کو ان کا یہ حق واپس کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں، اپنا حکمران چن لیں۔ چنانچہ اس اعلان کے بعد عوام کے اصرار اور تقاضے پر انہوں نے خلافت کا منصب قبول کیا اور پھر جس طریقے سے اسے نبھایا، وہ اسلامی تاریخ کے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
خلافت راشدہ کا پہلا اصول عوامی رائے اور اعتماد کے ذریعے حکومت کی تشکیل ہے اور دوسرا اصول عوام کو حکمرانوں کے احتساب کا حق دینا اور ان کی آزادانہ رائے کے حق کو تسلیم کرنا ہے، جس کا اظہار خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں ان الفاظ میں کیا کہ میں تم پر حکمران بنا دیا گیا ہوں، اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو۔
اور حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوران ایک عوامی خطاب میں لوگوں سے دریافت کیا کہ اگر میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو تم کیا کرو گے؟ ایک شخص نے مجمع میں کھڑے ہو کر تلوار لہرا کر کہا کہ اگر تم ٹیڑھے چلو گے تو ہم اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ اس پر حضرت عمرؓ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کہ رعیت میں ایسے حوصلہ مند حضرات موجود ہیں جو مجھے سیدھا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
جبکہ حضرت عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اپنے گورنروں اور خود اپنے خلاف مختلف اطراف سے اٹھنے والی آوازوں پر خود کو حج کے عوامی اجتماع میں احتساب کے لیے پیش کیا، بلکہ پیشگی اعلان کرایا کہ جس شخص کو کوئی شکایت ہو وہ حج کے موقع پر منیٰ میں آجائے، اور اس کے ساتھ ہی سب گورنروں کو بھی بلا لیا جن کے خلاف منیٰ کے میدان میں عوامی احتساب کی عدالت لگی، جہاں کسی بھی شخص کو امیر المؤمنین یا ان کے کسی بھی افسر کے خلاف شکایت پیش کرنے کی کھلی آزادی تھی۔ لوگوں نے شکایات پیش کیں، اعتراضات سامنے آئے اور جن کے خلاف الزام تھے، انہیں خود عوام کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا پڑی۔
اس لیے حکمرانوں پر آزادانہ تنقید اور ان کا احتساب عوام کا بنیادی حق ہے، جسے خلافت راشدہ نے نہ صرف تسلیم کیا اور عملاً لوگوں کو یہ حق دیا، بلکہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے خود عوام کو دعوت دی کہ اگر وہ کسی موقع پر ٹیڑھا چلنے لگیں تو لوگ انہیں پکڑ کر سیدھا کر دیں۔
خلافت راشدہ کا تیسرا اصول حکمرانوں اور رعیت کے درمیان معیار زندگی کی یکسانیت اور معاشی لحاظ سے طبقاتی معاشرہ کی نفی ہے، جس کا پہلا عملی اظہار اس وقت ہوا جب خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ کو منصب خلافت سنبھالنے کے بعد ذاتی کاروبار سے روک دیا گیا اور ان کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا گیا۔ اس موقع پر حضرت علیؓ کی تجویز پر اصحاب شوریٰ نے طے کیا کہ خلیفۂ وقت کو ایک عام شہری کے معیار پر ضروریات زندگی کے لیے بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے گورنروں کو پہلا آرڈر یہ جاری کیا کہ وہ باریک لباس نہیں پہنیں گے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائیں گے، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے اور دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائیں گے۔
یہ چیزیں اس دور میں تعیش، معاشرتی امتیاز، پروٹوکول اور پرسٹیج کی علامتیں تھیں اور حضرت عمرؓ کے آرڈر کا مقصد یہ تھا کہ حکمران طبقہ اور عوام کے معیار زندگی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، ان کے درمیان پرسٹیج اور پروٹوکول کی کوئی دیوار حائل نہیں ہونی چاہیے اور حکمرانوں کے دلوں میں عوام پر برتری کا کسی بھی درجہ میں احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
خلافت راشدہ کا چوتھا اصول قانون کی بالادستی اور عدلیہ کا احترام ہے، جس کا اظہار حضرت عمرؓ نے ایک مقدمہ میں اس طرح کیا کہ قاضی نے حضرت عمرؓ کو مقدمہ کے ایک فریق کے طور پر طلب کیا اور ان کی تشریف آوری پر انہیں بیٹھنے کے لیے کہا، جبکہ دوسرا فریق کھڑا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ قاضی صاحب! آپ نے یہیں سے ناانصافی کا آغاز کر دیا ہے، آپ کو دونوں فریقوں کے ساتھ یکساں سلوک اختیار کرنا چاہیے۔
اور امیر المومنین حضرت علیؓ کے مقدمہ میں جب قاضی شریحؒ نے حضرت علیؓ کے حق میں ان کے بیٹے کی گواہی کو مسترد کر دیا تو حضرت علیؓ اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور تشکر بجا لائے کہ ان کے دور خلافت میں انصاف اور عدل اپنے اصل معیار پر قائم ہیں۔
خلافت راشدہ کا پانچواں اصول عام لوگوں کی معاشی کفالت اور انہیں روزگار یا ضروریات زندگی کے لیے وظیفہ کی فراہمی ہے، جس کے لیے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے باقاعدہ نظام قائم کیا، بے روزگاروں کے وظیفے مقرر کیے، معاشرے کے نادار اور ضرورت مند افراد کی فہرستیں مرتب کی گئیں اور بیت المال کو ان کی کفالت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
صحیح بات یہ ہے کہ آج مغرب جس ویلفیئر ٹرسٹ کی بات کرتا ہے، اس کا عملی نقشہ سب سے پہلے منظم طور پر حضرت عمرؓ نے پیش فرمایا تھا اور یہ وظیفے اور معاشی کفالت حکومت کی طرف سے احسان کے طور پر نہیں، بلکہ سٹیٹ کی ذمہ داری کے اصول پر دیے گئے تھے، جس کے بارے میں حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد سنہری اصول کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کے بارے میں عمر قیامت کے دن جواب دہ ہو گا۔
اور یہ سب کچھ صرف اسلامی ریاست کی مسلمان رعایا کے لیے نہیں تھا، بلکہ غیر مسلم رعایا کے لیے بھی معاشی طور پر وہی حقوق تھے، جو ان کے ہم وطن مسلمانوں کو حاصل تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک روز ایک یہودی بوڑھے کو مانگتے دیکھا تو تعجب ہوا اور بلا کر کہا کہ تم مانگ کیوں رہے ہو، کیا تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اس نے کہا ملتا ہے، لیکن مجھے جو سالانہ جزیہ دینا پڑتا ہے، اس کے لیے میرے پاس گنجائش نہیں ہے، اس لیے مانگ رہا ہوں۔ جزیہ اس ٹیکس کو کہتے ہیں جو ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم رعایا پر فوجی اقدامات سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے عوض عائد کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ ان لوگوں کی جوانی کی کمائی سے ہم ٹیکس حاصل کریں اور بڑھاپے میں انہیں لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے یہ حکم جاری کیا کہ جو غیر مسلم بوڑھا ہو جائے اور کمانے کے قابل نہ رہے اسے جزیہ سے مستثنیٰ کر دیا جائے اور بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہم جب آج خلافت راشدہ کی بات کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں، تو اس کا صحیح نقشہ بھی لوگوں کے سامنے پیش کریں، اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کریں اور ان کانٹوں کو بھی صاف کریں۔ آج خلافت راشدہ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ اس کا صحیح تعارف دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو خلافت کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کا احساس دلایا جائے۔ اس کے بغیر خالی خلافت کا نعرہ لگا کر ہم اسلام کے اس عادلانہ سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ دونوں کے ساتھ ناانصافی کے مرتکب ہوں گے۔