اقوام متحدہ نے ۱۰ نومبر ۲۰۱۲ء کو ’’ملالہ ڈے‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور دنیا بھر میں یہ ڈے منایا گیا۔ اس موقع پر ملالہ یوسف زئی کو تعلیم کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ مسلمانوں میں اور پاکستان میں تعلیم کے فروغ اور تعلیم کی آزادی کے لیے ملالہ یوسف زئی ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا مسلم سوسائٹی میں تعلیم کا آغاز اور تعلیمی شعور کی بیداری ملالہ یوسف زئی سے شروع ہو رہی ہے اور اس کی مظلومیت پاکستان میں عورتوں کی تعلیم کا نقطۂ آغاز بن رہی ہے۔
جہاں تک ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کا تعلق ہے وہ جس نے بھی کیا ہے ملک و قوم کے ہر باشعور شخص نے اس کی مذمت کی ہے۔ کسی انتہا پسند گروہ نے اسے اس حملہ کا نشانہ بنایا ہے یا اس پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کہیں اور کی گئی ہے، دونوں صورتوں میں یہ حملہ قابل مذمت ہے اور اس کی مذمت میں پوری قوم یک آواز ہے۔ لیکن ہر منصف مزاج اور حقیقت پسند شخص کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ اسی حملے میں زخمی ہونے والی دو اور بچیوں شازیہ اور کائنات کا معاملہ اس سے مختلف نہیں ہے کیونکہ وہ بھی سوات کی رہنے والی ہیں، اسی سکول کی طالبات ہیں، اسی حملے میں زخمی ہوئی ہیں، پاکستانی قومیت رکھتی ہیں اور ان کے خون کا رنگ بھی سرخ ہے۔ لیکن ایک ہی حملے میں زخمی ہونے والی تین بچیوں کے درمیان جو فرق و امتیاز ملک کے حکمرانوں، قومی و بین الاقوامی میڈیا، عالمی حکومتوں، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی حلقوں نے روا رکھا ہے اس نے اس سارے واقعہ کے پس منظر اور مقاصد کو بے نقاب کر دیا ہے اور اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ ایک اتفاقاً ہو جانے والے افسوسناک واقعہ یا منصوبہ بندی کے تحت کرائے جانے والے اس سانحہ سے فائدہ اٹھانے میں جس چابکدستی سے پیشرفت ہوئی ہے اس میں کون کون سے ہاتھ کارفرما ہیں۔
تفتیش کرنے والے پولیس ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے کسی واقعہ کی تفتیش کرتے ہوئے اور اس کے مجرموں کا کھوج لگاتے ہوئے ایک اہم بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ اس قتل کا فائدہ سب سے زیادہ کس کو ہوا ہے، یا اس قتل سے کون شخص سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ پولیس کا ہر تجربہ کار تفتیشی افسر اپنی تفتیش کا آغاز اس نکتہ سے کرتا ہے اور اکثر اوقات یہ نکتہ تفتیشی ماہرین کو قاتل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس پہلو سے ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے افسوسناک قاتلانہ حملہ کے منصوبہ سازوں کا سراغ لگایا جائے تو اس واقعہ سے اب تک جو فائدے حاصل کیے گئے ہیں اور مستقبل میں اس پر جن فوائد اور مقاصد کی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کرنا کچھ زیادہ دقت طلب کام نہیں رہا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر ہر باشعور شہری کو دکھائی دے رہا ہے۔
تفتیشی ماہرین عام طور پر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر قاتل کوئی نہ کوئی ایسی نشانی غیر شعوری طور پر موقع واردات پر چھوڑ جاتا ہے جو ماہرین کے لیے تفتیش کے راستے کھول دیتی ہے اور قاتل تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، یا قاتل سے کوئی نہ کوئی غیر شعوری حرکت ایسی ضرور ہو جاتی ہے جس سے تفتیش کا رخ صحیح سمت مڑ جاتا ہے۔ اس حوالے سے صورتحال پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے فورًا بعد اس کی جو فوٹو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سامنے آئی اس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حملہ آور کی فائرنگ سے ملالہ کا سر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس کا سر اور پیشانی دونوں پٹیوں کے حصار میں دکھائے گئے ہیں، لیکن برمنگھم کے ہسپتال میں ہوش میں آنے کے بعد اس کی جو تصویریں دکھائی گئی ہیں ان میں وہ سر پر کسی پٹی کا بوجھ اٹھائے بغیر صاف چہرے اور پیشانی کے ساتھ دوپٹے میں نظر آتی ہے اور تفتیش کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی تجربہ کار شخص کے لیے اس پر مسکرا دینے کے سوا کسی اور ردعمل کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔
خیر یہ اس واقعہ اور سانحہ کے تفتیشی پہلو ہیں جن پر غور کرنا اور ان سے نتائج اخذ کرنا تفتیشی ماہرین کا کام ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کا اس قسم کے حادثات میں ہمارے ہاں عام طور پر تکلف روا نہیں رکھا جاتا بلکہ ایسے ’’غیر ضروری کاموں‘‘ سے صرف نظر کر کے کیس کو داخل دفتر کر دینا ہی ’’قومی مفاد‘‘ قرار دیا جاتا ہے جس کی بیسیوں مثالوں میں سے صدر ضیاء الحق مرحوم کے طیارے کا حادثہ اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کا قتل دو سادہ سی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے جب ضیاء الحق مرحوم کے طیارے کے حادثے اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کے قتل کے کیس میں تفتیش کے ان فنی پہلوؤں اور تجربات و قرائن سے استفادہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تو ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تفتیش میں ان امور پر غور کی زحمت آخر کون کرے گا؟ یہاں تو سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ اس حملہ کو اور ملالہ یوسف زئی کی مبینہ مظلومیت کو، اور تعلیم کے فروغ کے اس عنوان کو پاکستان کے دینی حلقوں کے خلاف پراپیگنڈا کی عالمی مہم میں ان کی کردار کشی کے لیے کتنا زیادہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
مغربی حکومتوں اور اقوام متحدہ نے اسے ’’تعلیم‘‘ کا عنوان دے کر عالمی رائے عامہ کو بتانا چاہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر اس حملے کو وہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے علامت قرار دے رہے ہیں۔ ہم ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم اور خواتین کی تعلیم اس سے پہلے بھی ہوتی آرہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ خواتین میں ہماری تعلیمی روایت کی بیسیوں مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے آنے سے پہلے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء اپنے دور میں علم و فضل کی علامت سمجھی جاتی تھی، وہ قرآن کریم کی حافظہ تھی، عالمہ و فاضلہ تھی، فارسی زبان کی ممتاز شاعرہ تھی اور علم و فضل اور شعر و ادب کے میدان میں اس کے مقام و مرتبہ کو اس کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ بلکہ اگر ماضی میں اس سے پیچھے جائیں تو امت مسلمہ میں قرآن و سنت کا علم رکھنے والی خواتین اور اس کی تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دینے والی محدثات، فقیہات، مفتیات، شاعرات اور خطیبات کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے تذکرے سے تاریخ اور حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اس لیے برصغیر میں ہمارے لیے تعلیم کی علامت ملالہ یوسف زئی نہیں بلکہ زیب النساء ہے اور ہمارے لیے وہ قابل فخر خاتون ہے۔
امت مسلمہ میں اس دور میں بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین تعلیم و تدریس کی مسندوں کو رونق بخشے ہوئے تھیں جب مغرب میں عورت تو کجا مرد کو بھی بنیادی تعلیم کی سہولت میسر نہیں تھی اور صدیوں پر محیط مغرب کے اس دور کو آج بھی تاریکی اور جہالت کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے مغرب ہم پر تعلیم کے عنوان سے رعب جھاڑنے کی کوشش نہ کرے اور دجل و فریب کا تانا بانا بننے کی بجائے سیدھی بات کرے کہ وہ اس قسم سے واقعات سے فائدہ اٹھا کر یا اس طرح کی وارداتوں کا اہتمام کر کے میڈیا اور لابنگ کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی خواتین کو اس معاشرتی نظام اور خاندانی روایت بغاوت پر ابھار رہا ہے جس کو توڑنے میں مغرب گزشتہ دو صدیوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہے۔ اپنی روایات و اقدار اور خاندانی نظام کی مغربی میڈیا اور لابنگ کے ہاتھوں تمام تر تحقیر و تذلیل اور کردار کشی کے باوجود مسلمان آج بھی اپنی روایات و اقدار کے ساتھ وفاداری کا تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ’’ملالہ ڈے‘‘ کے موقع پر مغربی ثقافتوں کے علمبرداروں اور عالم اسلام میں ان کے ہمنواؤں کے نام ہمارا پیغام یہ ہے کہ:
اتنی طاقت تو ابھی گردش دوراں میں نہیں ہے