ملکی مسائل اور نفاذ شریعت کی جدوجہد ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
تاریخ : 
۱۱ اکتوبر ۲۰۱۱ء

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے ملک کی موجودہ صورتحال اور دینی جدوجہد کے حوالے سے اہم امور پر مشاورت کے لیے ۶ اکتوبر کو کونسل کے اہم راہنماؤں کو ’’مرکز حافظ الحدیثؒ‘‘ حسن ابدال میں طلب کیا اور مشاورت کم و بیش دو گھنٹے جاری رہی۔ اجلاس مولانا درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا حافظ مہر محمد، مولانا عبد الرزاق، مولانا قاری عبید اللہ عامر، مولانا صلاح الدین فاروقی، مولانا رشید احمد درخواستی، مولانا مفتی سیف الدین گلگتی، مولانا محمد عمر عثمانی، حاجی محمد شریف قریشی، مولانا صفی اللہ مشوانی، حاجی محمد سلیمان اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔

مرکز حافظ الحدیثؒ حسن ابدال جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی کی شاخ کے طور پر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالٰی کی یاد میں ایک دینی درسگاہ کے طور پر کام کر رہا ہے جس میں سینکڑوں طلبہ قرآن کریم حفظ و ناظرہ اور درس نظامی کے مختلف درجات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کا قیام، لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنا اور مدارس کی سرپرستی کرنا حضرت درخواستیؒ کا خصوصی ذوق تھا اور ملک کے مختلف حصوں میں سینکڑوں مدارس ایسے ہیں جو حضرت درخواستی کی تحریک اور توجہ دلانے سے قائم ہوئے اور حضرت رحمہ اللہ تعالٰی زندگی بھر ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ مولانا فداء الرحمان درخواستی کو بھی یہ ذوق ورثے میں ملا ہے اور ان کی توجہ اور تحریک سے قائم ہونے والے دینی مدارس کی تعداد بیسیوں میں بیان کی جا سکتی ہے۔

اجلاس کے دوران طلبہ سے خطاب کی ایک نشست ہوئی جس میں مولانا فداء الرحمان درخواستی، مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا عبد الحق خان بشیر اور راقم الحروف نے مختصر خطابات کیے جبکہ مشاورتی اجلاس میں مختلف امور زیر بحث آئے جن میں سب سے اہم مسئلہ ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے تحفظ کا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی دھمکیوں کے تناظر میں وزیراعظم پاکستان کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں اور اعلانات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا اور ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے دو باتوں پر بطور خاص زور دیا گیا۔

  1. ایک یہ کہ اس کانفرنس کی ’’متفقہ قرارداد‘‘ پر عملدرآمد کے لیے عوامی دباؤ کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس قرارداد کا حشر بھی پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی طرح نہ ہو۔
  2. اور دوسری بات یہ کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو عندیہ متفقہ قرارداد میں دیا گیا ہے اور پاکستانی طالبان کی طرف سے مثبت ردعمل بھی سامنے آچکا ہے اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیکولر لابیاں اسے ناکام بنانے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں۔ مولانا عبد الحق خان بشیر کی تجویز پر اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو دینی قائدین اس حوالہ سے مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں ان سے رابطہ کر کے اس بات کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جائے کہ حکومت پاکستان اور پاکستانی طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو تاکہ ملک کو مزید بداَمنی سے بچانے کے لیے مسئلہ کے پراَمن حل کے امکانات تلاش کیے جا سکیں۔

دوسرا مسئلہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تھا جس پر طے ہوا کہ اس سلسلہ میں کوئی الگ راہ اختیار کرنے کی بجائے جمعیۃ علماء پاکستان (نورانی گروپ) کی گزشتہ روز لاہور میں منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ کے فیصلوں اور پروگراموں کی حمایت کی جائے اور ملک کے تمام دینی حلقوں سے اپیل کی جائے کہ وہ اسی متفقہ فورم پر اس سلسلہ میں جدوجہد کو منظم کریں تاکہ مطلوبہ مقاصد حسبِ سابق اتحاد و اتفاق کے ذریعے حاصل کیے جا سکیں۔ چنانچہ ایک قرارداد کے ذریعے مذکورہ آل پارٹیز ناموس رسالت کانفرنس کے فیصلوں اور اعلانات کی تائید کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کانفرنس کے مطالبات کو منظور کرتے ہوئے ممتاز قادری کی فوری رہائی کے لیے اقدامات کرے۔

تیسرا مسئلہ نفاذ شریعت کے حوالہ سے زیرغور آیا اور مولانا عبد القیوم حقانی نے اپنے خطاب میں اس طرف توجہ دلائی کہ دینی جماعتوں کی سیاسی جدوجہد میں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ اور اس کے لیے عملی تحریک کے معاملات ثانوی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک بات ہے اور اس طرف تمام دینی حلقوں کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کی طرف سے ۲۴ ستمبر کو لاہور میں منعقد ہونے والی ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کے فیصلوں اور اعلانات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا اور خاص طور پر اس امر پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے ملک میں نفاذ شریعت کے لیے جن متفقہ ۲۲ دستوری نکات کا اعلان کیا تھا، ۲۴ ستمبر کی ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ میں شریک تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے ان کی ایک بار پھر توثیق و تجدید کر دی ہے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنی تجاویز کو مزید ۱۵ متفقہ نکات کی صورت میں ان کے ساتھ شامل کیا ہے۔

قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ نفاذ شریعت کے مطالبے اور جدوجہد کو ترجیحی بنیادوں پر ازسرنو متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام حلقوں اور مکاتب فکر کو توجہ دلانے کی مربوط محنت کی جانی چاہیے۔ مولانا مفتی سیف الدین گلگتی نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ علماء کرام، مدرسین اور خطباء کو توجہ دلائی جائے کہ وہ اپنے خطبات، بیانات اور دروس میں نفاذ شریعت کی اہمیت و ضرورت کا تذکرہ کریں اور دینی مدارس کے اساتذہ اس کے لیے طلبہ کی ذہن سازی کریں۔

اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کرپشن، مختلف وبائی بیماریوں اور دیگر عوامی مشکلات و مسائل پر بھی غور ہوا اور ایک قرارداد کے ذریعے اس موقف کا اظہار کیا گیا کہ ہمارا اصل مسئلہ قومی سطح پر اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین و احکام سے روگردانی کا ہے جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشی نظام کی بنیاد سود اور سرمایہ دارانہ معیشت کے اصولوں پر استوار ہے جس کا تلخ نتیجہ یہ ہے کہ عوام ملک میں بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کی ۹۷ ارب ڈالر کی رقوم بیکار اور بے مصرف پڑی ہیں، اگر اس رقم کو ملک میں واپس لانے کا اہتمام کیا جائے اور ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر ازسرنو استوار کر کے خلفاء راشدینؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہریوں کی کفالت کے لیے بیت المال کا نظام نافذ کیا جائے تو بھوک، مہنگائی، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور بداَمنی کے سنگین مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان شریعت کونسل ملک میں اقتدار اور ووٹ کی سیاست کا حصہ بنے بغیر نفاذ شریعت، قومی وحدت اور ملکی سالمیت کے لیے علمی و فکری محاذ پر اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ جبکہ امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمان درخواستی نے ملک بھر کے ارباب علم و دانش سے اپیل کی کہ وہ اس علمی و فکری جدوجہد میں پاکستان شریعت کونسل کا ساتھ دیں اور باہمی رابطہ و مشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے اپنے اپنے حلقوں میں محنت کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter