گزشتہ اتوار کو مجھے اسلام آباد کے معروف تعلیمی ادارہ ”ادارہ علوم اسلامی“ بھارہ کہو کے سالانہ اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ ادارہ مولانا فیض الرحمٰن عثمانی کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اور اس میں درس نظامی کے مکمل نصاب کے ساتھ ساتھ عصری مضامین کی بھی معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی برس پہلے جب اس تعلیمی ادارے کا آغاز ہوا تو مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ پریشانی بھی ہوئی تھی۔ خوشی اس بات پر کہ دینی مدارس کے طلبہ اور علماء کے لیے ضروری عصری علوم کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر میں ایک عرصہ سے زور دے رہا ہوں اور یہ ادارہ اس کی طرف ایک اہم پیش رفت تھا، جبکہ پریشانی اس بات پر تھی کہ مولانا فیض الرحمٰن عثمانی اور ان کی ٹیم نے درس نظامی اور اسکول و کالج کے مروجہ دونوں نصاب کو مکمل طور پر اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا تھا اور میرے ذہن میں اشکال یہ تھا کہ دونوں نصاب اپنی اپنی جگہ مکمل نصاب ہیں جو استاذ اور شاگرد کی پوری توجہ چاہتے ہیں۔ ان دونوں کو جمع کر کے ایک مشترکہ نصاب شاید متوسط درجہ کے طلبہ کے لیے بھی ان کی طاقت و استعداد سے زیادہ بوجھ بن جائے گا، مگر مولانا فیض الرحمٰن عثمانی اور ان کے رفقاء کی شبانہ روز محنت اور توجہ نے اس مشکل کو آسان بنا دیا ہے اور اس ادارہ کے تعلیم یافتہ طلبہ جہاں درس نظامی کے علوم میں دوسرے مدارس کے طلبہ سے پیچھے نہیں ہیں، وہاں اسلام آباد کے انٹرمیڈیٹ بورڈ میں بھی مسلسل امتیازی پوزیشنیں حاصل کرتے آ رہے ہیں۔
سالانہ اجتماع کی صدارت پیر طریقت حضرت مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی نے فرمائی، جبکہ مقررین میں حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن، حضرت مولانا عزیز الرحمٰن سواتی، مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، مولانا مفتی عبد الحمید اور دیگر سرکردہ علماء کرام شامل تھے۔ مجھ سے پہلے مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور نے گفتگو کی اور بہت اچھے انداز میں ادارہ علوم اسلامی کے کام کی تحسین کرتے ہوئے اس کام کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ اس کے علمی، فکری، اخلاقی اور تربیتی تقاضوں کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے دو باتوں پر خوشی کا اظہار کیا
- ایک اس بات پر کہ ہمارے بہت سے اکابر نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ ضروری عصری علوم کی تعلیم کی جس ضرورت کی طرف متعدد بار توجہ دلائی ہے اس کی طرف پیش رفت کی کوئی عملی صورت سامنے آ گئی ہے۔
- اور دوسری اس بات پر کہ یہ پیش رفت قابلِ اعتماد علماء کرام کے ہاتھوں ہو رہی ہے، جو دینی صلابت، مسلکی حمیت اور اکابر علماء دیوبند کے ساتھ مکمل نسبت بھی رکھتے ہیں اور اس نسبت کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں نے اپنی گفتگو کا آغاز مفتی ابو لبابہ کی اس بات کی تائید سے کیا کہ ان دونوں امور پر خوشی کے اظہار میں ان کے ساتھ میں بھی شریک ہوں، مگر ایک اور بات پر بھی خوشی کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ادارہ میں درس نظامی کے علوم و فنون کی تدریس و تعلیم کے ساتھ ضروری عصری علوم و فنون کو محض رسمی طور پر ثانوی درجہ میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ ان پر بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جا رہی ہے۔
ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ مختلف حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے ہم نے دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اسکول و کالج کے ضروری مضامین کو شامل تو کر رکھا ہے، مگر ان کی حیثیت رسمی اور ثانوی ہے، بلکہ بعض مقامات پر تو صرف قسم پوری کرنے کے درجہ میں ہے، یہ صورتحال درست نہیں ہے اور مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اس لیے کہ اگر ان علوم و فنون کو ہم واقعتاً ضرورت سمجھ کر شامل کر رہے ہیں تو وہ ضرورت اس درجہ کے سلوک کے ساتھ پوری نہیں ہوتی اور طالب علم ادھورا رہ جاتا ہے، جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے اور اگر ہم یہ کام صرف دباؤ کے باعث کر رہے ہیں تو ایسا کرنا ہی سرے سے میرے نزدیک درست نہیں ہے، کیونکہ جو کام دباؤ کے تحت کیا جاتا ہے وہ صرف دباؤ کی حد تک رہتا ہے اور جو کام اپنی ضرورت سمجھ کر کیا جاتا ہے اس کے تمام ضروری تقاضوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ اس بنیاد پر اس حوالے سے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ہم ضروری عصری علوم و فنون کو دباؤ کے تحت لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے اپنے نصاب کے ساتھ شامل کر رہے ہیں تو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے، اور اگر ہم فی الواقع اسے اپنی ضرورت سمجھتے ہیں اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس کے طلبہ اور علماء کو ان علوم و فنون سے آراستہ کرنے کو دینی تقاضوں اور ملی ضرورت کے درجہ میں دیکھتے ہیں تو پھر یہ کام رسمی اور ثانوی درجہ میں کیف ما اتفق کے طور پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ترجیحات اور طریق کار کا تعین ہونا چاہیے اور اسی حوالہ سے میں ”ادارہ علوم اسلامی“ بھارہ کہو، اسلام آباد کی اس تعلیمی جدوجہد کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں اور اس پر مولانا فیض الرحمٰن عثمانی اور ان کے رفقاء کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اس گزارش کے علاوہ میں نے اس اجتماع میں اور بھی گزارشات پیش کیں، جن میں سے ایک کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ دینی مدارس کی تعلیم کے بارے میں عالمی حلقوں میں ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اس کا ہماری عملی ضروریات اور انسانی سوسائٹی کے روز مرہ معمولات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور اگر اس تعلیم کا ہماری زندگی کی روز مرہ عملی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر اس کے اہتمام اور اسے جاری رکھنے پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے؟
میں اس سوال کا صرف ایک پہلو سے جائزہ لینا چاہوں گا کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے ایک اہم علم کا تعلق انسانی جسم اور بدن سے ہے اور وہ میڈیکل سائنس ہے، میڈیکل سائنس انسان کے وجود اور اس کی باڈی سے بحث کرتی ہے کہ اس باڈی کے اندر جو مشینری کام کر رہی ہے اس کے پرزے کون کون سے ہیں اور اس کا میکنزم کیا ہے؟ انسانی جسم کے اعضاء اور ان کی باہمی ترتیب کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ ہزاروں سال سے میڈیکل سائنس اس پر ریسرچ کر رہی ہے اور ہزاروں لیبارٹریاں آج بھی اس کام کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ اس علم و فن کا ہمیں بہت فائدہ ہے اور ہم ہر لحاظ سے اس سے استفادہ کر رہے ہیں، لیکن تمام تر ترقی اور ریسرچ کے باوجود میڈیکل سائنس ہمارے بارے میں صرف دو سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے، ایک یہ کہ انسانی بدن کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ جبکہ اسی بدن اور باڈی کے بارے میں دو سوال اور بھی ہیں، جو ان سوالوں کی طرح ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ یہ انسانی بدن کس نے بنایا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟ کیونکہ کسی مشینری کے بارے میں صرف اتنا جان لینا کافی نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ بلکہ یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسے کس نے بنایا ہے اور کیوں بنایا ہے؟ تاکہ اس کا مقصدِ تخلیق اور ایجنڈا معلوم ہو اور اسے اس کے مطابق استعمال میں لایا جا سکے۔ مگر میڈیکل سائنس ان دونوں سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیتی، بلکہ سرے سے ان سے بحث ہی نہیں کرتی۔ میں اگر یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے کس نے بنایا ہے اور کس مقصد کے لیے بنایا ہے تو اس کا جواب میڈیکل سائنس نہیں دیتی اور ان دونوں سوالوں کا جواب میڈیکل کالجوں یا یونیورسٹیوں کے پاس نہیں، بلکہ وحی کے پاس ہے جو ان دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس لیے میں اگر یہ عرض کروں تو بے جا نہ ہو گا کہ انسانی وجود اور جسم کے بارے میں دو سوالوں کا جواب میڈیکل کالج میں پڑھایا جاتا ہے کہ وہ کیا ہے اور کیسے کام کر رہا ہے؟ جبکہ دو سوالوں کا جواب دینی مدرسہ پڑھاتا ہے کہ وہ کیوں ہے اور اسے کس نے کس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے؟
اسی طرح ایک اور بات کا بھی جائزہ لے لیا جائے کہ انسان کے جسم کا ایک عضو دل کہلاتا ہے، میڈیکل سائنس اسے انسانی جسم اور اس کی مشینری کا مرکز قرار دیتی ہے کہ دل اگر صحیح حرکت کرتا ہے تو باقی جسم کا نظام بھی ٹھیک ہے اور اگر دل کی حرکت میں گڑبڑ ہوگئی ہے تو باقی جسم کا نظام بھی گڑبڑ ہو جاتا ہے، جبکہ اس دل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی یہ ہے کہ اگر یہ صالح ہو تو سارا بدن صالح رہتا ہے اور اس دل میں فساد آ جائے تو اس کا فساد سارے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ارشاد گرامی میں دل کے باطنی نظام اور عمل کا ذکر فرما رہے ہیں، جبکہ میڈیکل سائنس دل کے ظاہری کام اور نظام کی بات کرتی ہے اور اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ دل کے باطنی نظام اور فنکشن کے بارے میں آگاہی حاصل کروں اور اسے صحیح رکھنے کی کوشش کروں تو اس کے بارے میں میڈیکل سائنس میری کوئی رہنمائی نہیں کرے گی، بلکہ اس کی تعلیم مجھے دینی مدارس اور خانقاہوں سے ملے گی اور اس کے بارے میں رہنمائی حضرت مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی اور ان جیسے روحانی بزرگ ہی کریں گے۔
اس لیے یہ کہنا کہ دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا ہماری زندگی کی عملی ضروریات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، زندگی کی ضروریات اور معروضی حقائق سے بے خبری کی دلیل ہے اور درست بات نہیں ہے۔
”ادارہ علوم اسلامی“ اسلام آباد کے اجتماع میں کی گئی ان گزارشات کے ساتھ ایک اور بات بھی قارئین کی خدمت میں اور ان کی وساطت سے متعلقہ احباب سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جامعۃ الرشید کراچی، ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد، جامعہ علوم اسلامیہ میر پور آزاد کشمیر، جامعہ خالد بن ولید وہاڑی، جامعہ حنفیہ بورے والا اور اسی طرز پر کام کرنے والے دیگر ادارے اگر باہمی مشاورت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کا کوئی نظم بھی قائم کر سکیں تو اس جدوجہد کی افادیت کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔