آج دنیا میں خواتین کی معاشرتی حیثیت کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ خواتین کا معاشرتی مقام کیا ہے، ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں، انفرادی و اجتماعی معاملات میں ان کی رائے کی کیا حیثیت ہے اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات کا درجہ کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں یہ موضوع زیرِ بحث ہے، اس پر مقالات لکھے جا رہے ہیں، کتابیں چھپ رہی ہیں اور خواتین کی کانفرنسز منعقد ہو رہی ہیں جن کا موضوعِ گفتگو یہ ہے کہ مختلف معاشروں میں خواتین کے ساتھ نا انصافیاں ہو رہی ہیں اور انہیں اپنے معاشروں میں وہ حیثیت نہیں دی جا رہی جس کی وہ مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ہونے والی گفتگو میں بالخصوص اسلام کے احکام و قوانین پر سب سے زیادہ تنقید کی جا رہی ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ مقام نہیں دیا جو اسے ملنا چاہیے۔
انسانی زندگی ایک مشین کی مانند ہے جبکہ مرد و عورت اس کے دو کلیدی پرزے ہیں۔ دنیا میں اصول یہ ہے کہ جو کمپنی ایک مشینری بناتی ہے وہ اس کے استعمال کے لیے ہدایات بھی دیتی ہے اس لیے کہ جس کمپنی نے مشینری بنائی ہے وہی اس کی قوت اور کارکردگی کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ پھر جن لوگوں تک وہ مشینری پہنچتی ہے وہ ان ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے اُسے استعمال میں لاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کی اِس مشینری کا خالق ہے اور وہی اس کی کارکردگی اور نظم و ضبط کو سمجھتا ہے، اِس مشینری کی خوبیاں، اس کی کمزوریاں اور اِس کی دیکھ بھال کے تقاضے وہی جانتا ہے۔ چنانچہ ہمارا اِس بات پر بھی ایمان ہے کہ انسانی زندگی کو چلانے کے جو قواعد و ضوابط اللہ تعالیٰ نے آسمانی وحی کے ذریعے طے فرما دیے ہیں وہی فطری اور صحیح ہیں۔
دورِ جاہلیت میں خواتین کی معاشرتی حیثیت
جناب نبی کریمؐ نے معاشرے میں خواتین کو کیا مقام دیا اَور حضورؐ کی سیرتِ طیبہ سے معاشرے میں خواتین کی حیثیت میں کیا فرق آیا؟ اس کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آنحضرتؐ جب اللہ تعالیٰ کے نبی کے طور پر مبعوث ہوئے تو اس وقت معاشرے میں خواتین کی کیا حالت تھی۔ دورِ جاہلیت کے معاشرے میں عورت کی حالت یہ تھی کہ اس کی پیدائش پر شرمندگی محسوس کی جاتی تھی اور صدمے کا اظہار کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’واذا بشر احدھم بالانثٰی ظل وجھہ مسودًا وھو کظیم۔ یتوارٰی من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسکہ علٰی ھون ام یدسہ فی التراب الا سآء ما یحکمون‘‘ (سورۃ النحل: ۵۸۔ ۵۹) اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے، اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے (۵۸) اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، کہ آیا اسے ذلت کے ساتھ قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں (۵۹)۔
عرب معاشرے کی عام صورتحال یہ تھی کہ جب کسی کو یہ خبر دی جاتی تھی کہ تمہارے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ شرم کے مارے سیاہ ہو جاتا تھا، وہ اس کیفیت میں آجاتا تھا کہ کس طرح اپنے غصے اور بے عزتی کو چھپاؤں، اس خبر کی شرمندگی سے بچنے کے لیے وہ اپنا منہ چھپاتا پھرتا تھا اور پھر اِس سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ اس لڑکی کو ذلت کے ساتھ ساری زندگی برداشت کروں یا اسے ابھی سے دفن کردوں۔ اس وقت کی عورت کی معاشرتی حیثیت یہ تھی کہ اکثر و بیشتر لڑکیاں زندہ دفن کردی جاتی تھیں کہ ان کا گھر میں رہنا گھر کے سربراہ کے لیے باعثِ عار اَور ذلت کی بات سمجھا جاتا تھا۔
احادیث میں ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں کہ لوگوں نے دورِ جاہلیت میں اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا جناب نبی کریمؐ کے سامنے اعتراف کیا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں فی الواقع عورت کو حقیر جانتے تھے کہ یہ ایک استعمال اور غلامی کی چیز ہے اور یہ کہ اس کا معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں ہے۔ ہمیں تو رسول اللہؐ نے بتایا کہ مرد کی طرح عورت بھی معاشرے کا ایک قابل احترام فرد ہے، رسول اللہؐ کی تعلیمات سے ہمیں پتہ چلا کہ ایک عورت بھی انسان کی حیثیت سے اسی طرح حقوق رکھتی ہے جس طرح ایک مرد حقوق رکھتا ہے۔
مرد و عورت کے رشتے اور اسوۂ نبویؐ
عورت اور مرد کے چار بنیادی رشتے ہیں۔ ماں، بہن ، بیوی اور بیٹی کا رشتہ۔
حضورؐ کا ماں کے ساتھ رشتہ
رسول اللہؐ کی حقیقی والدہ تو آپ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں لیکن حضورؐ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ مسلمان اور صحابیہ ہوئی ہیں، ان کے خاوند حضرت ابوکبشہؓ حضورؐ کے رضاعی باپ تھے، وہ بھی مسلمان اور صحابیؓ ہوئے ہیں۔ جب نبی کریمؐ کی والدہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں تو آپؐ نے ان کے لیے اپنی چادر زمین پر بچھائی، اس پر اماں جان کو بٹھایا اور خود ان کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔حضورِ اکرمؐ نے اپنے طرزِ عمل سے بتایا کہ عورت کا جو بھی رشتہ ہو، اس کے ساتھ اس کے مطابق رویہّ رکھا جائے۔ بیٹی لاڈ اور شفقت کی مستحق ہے، بہن محبت و عزت کی مستحق ہے، بیوی پیار و حُسنِ سلوک کی مستحق ہے اور ماں خدمت و احترام کی مستحق ہے۔
حضورؐ کا بہن کے ساتھ رشتہ
جناب نبی کریمؐ کا نہ تو کوئی بھائی تھا اَور نہ کوئی بہن۔ محدثین بیان فرماتے ہیں کہ غزوۂ حنین میں گرفتار ہونے والوں کو پہلے تو قیدی بنایا لیکن جب بنو ھوازن کے وفد کے آنے پر حضورؐ نے سب کو رہا کر دیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک خاتون نبی کریمؐ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں آپ کی بہن ہوں، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تم میری بہن کیسے ہو، میری تو کوئی بہن نہیں ہے۔ خاتون کہنے لگی کہ جناب میں نے اور آپ نے حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا ہے، آپ کو شاید یاد نہیں ہے کہ آپؐ اور میں بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ پھر خاتون نے حضورؐ کو یاد دلانے کے لیے بتایا کہ ایک دفعہ آپؐ نے میری کمر پر دانت گاڑ دیے تھے جس کا نشان ابھی بھی موجود ہے، کیا میں آپ کو زخم کا وہ نشان دکھا دوں؟ رسول اللہؐ نے فرمایا، ہاں تم میری بہن ہو۔ حضورؐ نے فرمایا ہے ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘ کہ دودھ کا رشتہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نسب کا رشتہ ہے۔
جو چیزیں نسب سے حلال یا حرام ہوتی ہیں، وہی چیزیں رضاعت سے بھی حلال یا حرام ہو جاتی ہیں۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ وہ خاتون رسول اللہؐ کی رضاعی بہن ہے تو حضورؐ نے خاتون سے فرمایا کہ اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ جانا چاہو تو میرے ساتھ مدینہ منورہ چلو، تمہارا بھائی تمہاری کفالت کرے گا، لیکن اگر تم واپس جانا چاہو تو میں تمہیں خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجوں گا۔ خاتون نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے اس خاتون کو اپنی بہن ہونے کا اعزاز دیا اَور ایک دستہ کے ساتھ تحائف دے کر رخصت کیا کہ میری بہن کو اس کے گھر پہنچا کر آؤ۔
حضورؐ کا بیوی کے ساتھ رشتہ
جناب نبی کریمؐ کی کل ۱۱ جبکہ بیک وقت ۹ بیویاں تھیں۔ علمائے امت اِس میں ایک حکمت تو یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عرب قبائل کو سیاسی و معاشرتی طور پر اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ان قبائل کے ساتھ یہ ازدواجی رشتے قائم کرنا ایک مؤثر ذریعہ تھا۔ دوسری حکمت یہ بتاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے حضورؐ کے گھر میں مختلف عمروں اور مزاجوں کی عورتیں جمع کر کے خواتین کے متعلق احکام و قوانین کی تعلیم کے بارے میں آپؐ کے لیے سہولت پیدا فرمادی۔ ورنہ جناب نبی کریمؐ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پہلا نکا ح کیا تو اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ پچیس سال تک تنہا آپؐ کی زوجہ محترمہ رہیں اور آپؐ پچاس برس کے تھے جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ باقی ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، ام حبیبہؓ ، حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت میمونہؓ شامل ہیں۔
آپؐ کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ معاملہ کیسا تھا؟ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے سوائے میدان جنگ کے، اپنی ساری زندگی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، نہ کسی بیوی پر ، نہ کسی خادم پر اور نہ کسی غلام پر۔ ازواجِ مطہرات کے ساتھ اپنے طرزِ عمل کی شہادت دیتے ہوئے حضورؐ خود فرماتے ہیں ’’خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی‘‘ کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے تقریباً دس سال حضورؐ کی خدمت کی۔ حضرت انسؓ ۱۰ سال کی عمر میں حضورؐ کی خدمت میں آئے اور حضورؐ کے وصال کے وقت ان کی عمر ۲۱ برس تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ذاتی خادم کی حیثیت سے حضورؐ کی خدمت میں تقریباً دس سال گزارے لیکن کبھی رسول اللہؐ کو کسی پر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا۔
حضورؐ کا بیٹی کے ساتھ رشتہ
رسول اللہؐ نے اپنی تعلیمات سے بتایا کہ بیٹی شفقت کی مستحق ہے، رسول اللہؐ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب حضورؐ سے ملنے آتی تھیں تو آپؐ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، یہ حضرت فاطمۃ الزھراءؓ کے لیے آپؐ کی شفقت کا اظہار تھا۔ نبی کریمؐ نے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے عربوں کے اس معاشرے میں اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور دُنیا کو یہ دکھایا کہ بیٹیوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جاتا ہے۔
محدثین فرماتے ہیں کہ حضورؐ کا کوئی بیٹا جوان نہیں ہوا جبکہ چاروں بیٹیاں جوان ہوئیں اور ان چاروں کی شادیاں ہوئیں۔ حضورؐ کے کسی بیٹے کے جوان نہ ہونے کے بارے میں محدثین یہ حکمت بیان فرماتے ہیں کہ اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بادشاہت اور ولی عہد کے تصور کی نفی کرنا مقصود تھی۔ حضورؐ کا کوئی بیٹا جوان ہوتا تو حضورؐ کے وصال کے بعد لا محالہ ولی عہد کے طور پر چُن لیا جاتا اور یوں نسل در نسل بادشاہت کا یہ سلسلہ چل نکلتا۔ آپؐ کی چاروں بیٹیوں کے جوان ہونے اور پھر ان کی شادیاں ہونے کے بارے میں محدثین یہ حکمت بیان فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو یہ تعلیم دینا مقصود تھی کہ بیٹیاں باعثِ شرمندگی نہیں بلکہ قابلِ شفقت ہوتی ہیں۔
عورت کا اپنے حق میں آواز اٹھانا
قرآن کریم کی سورۃ المجادلہ اسی بارے میں نازل کی گئی کہ ایک عورت نے نبی کریمؐ کے سامنے آکر اپنے حق میں آواز اٹھائی۔ ’مجادلہ‘ کا لفظی معنٰی ہے ’جھگڑا‘۔ ایک عورت نے نبی کریمؐ سے آکر اپنے خاوند کے طلاق کے الفاظ کے متعلق بات کی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ’جھگڑے‘ کے نام سے ہی سورۃ نازل فرمادی، یہ عورت حضرت اوس بن ثابت انصاریؓ کی بیوی خولہ بنت ثعلبہؓ تھیں۔ میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، خاوند نے جاہلیت کے رواج کے مطابق کچھ الفاظ بول دیے کہ تم میرے لیے ماں کی طرح ہو۔ جاہلیت کے دور میں یہ طلاق کے الفاظ ہوا کرتے تھے، اس وقت تک ظہار کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور طریقہ یہ تھا کہ جب تک کسی معاملے میں کوئی نئی وحی نہ آتی تو پرانا رواج چلتا تھا، چنانچہ پرانے رواج کے مطابق اسے طلاق ہوگئی تھی۔ خولہؓ رسول اللہؐ کے پاس آئی کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند نے مجھ سے یہ بات کہہ دی ہے، حضورؐ نے فرمایا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ خولہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا، طلاق تو واقع ہوگئی ہے، اب میں اس بارے میں کیا کر سکتا ہوں؟ خولہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ میں بوڑھی کہاں جاؤں گی؟ حضورؐ نے فرمایا کہ جب تک اس معاملے میں وحی نہیں آتی، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ خولہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میری اِس خاوند سے بہت محبت ہے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتی۔ چنانچہ وہ اسی طرح حضورؐ سے جھگڑتی رہی کہ کبھی اپنے بچوں کی بات کرتی ہے اورکبھی اپنے بڑھاپے کی بات کرتی ہے جبکہ حضورؐ یہی بات فرماتے جا رہے ہیں کہ اس معاملے میں میرے پاس کوئی حکم ابھی تک نہیں آیا۔ اس پر خولہؓ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ یا اللہ! یہا ں تو میرا مسئلہ حل نہیں ہو رہا، تو ہی میرا مسئلہ حل کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آواز سن لی اور اِس جھگڑے کو قرآن کریم میں اِس طرح بیان فرمایا ’’قد سمع اللہ قول التی تجادل فی زوجھا وتشتکی الی اللہ واللہ یسمع تحاورکما ان اللہ سمیع بصیر‘‘ (سورۃ المجادلۃ ۱) کہ بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی اور اللہ کی جناب میں شکایت کرتی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ کا زمانہ تھا، حضرت عمرؓ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بازار میں جا رہے تھے، ایک بوڑھی خاتون لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے سامنے آگئی اور آواز دی، عمر ! بات سنو۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے۔ بڑھیا کہنے لگی، تم وہی عمر ہو جو بکریاں چرایا کرتے تھے ،پھر کہا ،اے عمر! اب تم امیر المؤمنین ہوگئے ہو لیکن اپنا وہ وقت یاد رکھنا اور لوگوں کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ حضرت عمرؓ کے ساتھیوں نے بڑھیا کے اِس لہجے اور بات کو محسوس کیا اور کہا کہ اے اللہ کی بندی تم کس سے مخاطب ہو اور کیا کہہ رہی ہو۔ ان کے سامنے تو وہ حضرت عمرؓ تھے جو چھتیس ہزار شہروں کے فاتح تھے اور جن کا نام سن کر قیصر اپنے تخت پر لرزتا تھا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خاتون تو وہ ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سنی اس لیے میں زمین پر اس کی بات کیوں نہ سنوں گا، بخدا یہ اگر شام تک مجھے یہاں کھڑا رکھے، میں یہیں کھڑا رہوں گا۔ یہ خاتون وہی خولہؓ بنت ثعلبہ تھیں جن کے بارے میں سورۃ المجادلہ نازل ہوئی تھی۔
خاوند اور بیوی کے جھگڑے میں حکم مقرر کرنا
رسول اللہؐ کے ازواج مطہرات کے ساتھ گھریلو معاملات میں مختلف کیفیات ہوتی تھیں جبکہ صحابہ کرامؓ کے گھروں میں جھگڑے ہوتے تھے اور پھر ان جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے حَکم بھی مقرر ہوتے تھے۔ رسول اللہؐ نے عورتوں کو معاشرے میں اپنے خاوندوں کے ساتھ جائز معاملات میں اختلاف کا حق بھی دیا اَور انہیں ان جھگڑوں میں انصاف حاصل کرنے کے لیے حَکم مقرر کرنے کا حق بھی دیا۔
بخاری شریف کی ایک روایت میں رسول اللہؐ نے مرد کو گھر کا سربراہ بتاتے ہوئے مرد اور عورت، دونوں کو گھر کا ذمہ دار بتایا ’’الرجل راعٍ فی بیتہ والمرء ۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‘‘ کہ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اور عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے جہاں مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا وہاں یہ تلقین بھی فرمائی ’’خیرکم خیرکم من اہلہ وانا خیر من اہلی‘‘ کہ تم میں سے بہتر آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔
گھریلو زندگی میں کسی تنازع یا جھگڑا کا ہو جانا فطری بات ہے، ایک دفعہ حضورؐ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کا کسی معاملے میں کوئی تنازع ہوگیا، دونوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بلایا جائے تاکہ وہ دونوں کے درمیان جھگڑے کا فیصلہ کریں۔ حضرت عائشہؓ اپنے موقف پر اڑی ہوئی تھیں جبکہ رسول اللہؐ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے اور درمیان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ حَکم مقرر ہوئے جو کہ حضرت عائشہؓ کے والد اور نبی کریمؐ کے دوست تھے۔ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے، بیٹھے اور پوچھا کہ بتائیں آپ لوگوں کا جھگڑا کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ سے پوچھیں کیا معاملہ ہے، حضرت عائشہؓ نے حضورؐ سے کہا کہ آپ بتائیں کہ جھگڑا کیا ہے، لیکن بات ٹھیک ٹھیک بتائیں۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ غصے میں آگئے اور حضرت عائشہؓ کو تھپڑ مار دیا، اِتنا زوردار کے ان کے منہ سے خون نکل آیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیٹی سے فرمایا کہ یہ جرأت کہ رسول اللہؐ سے سیدھی بات کہنے کا کہہ رہی ہو۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تو اس خیال میں تھے کہ حضرت عائشہؓ اللہ کے رسول کی طرف سے کسی غلط بات کا گمان کر رہی ہیں جبکہ حضرت عائشہؓ کے ذہن میں یہ تھا کہ یہ ہم میاں بیوی کا معاملہ ہے اور اسی تصور کے ساتھ وہ روایتی انداز میں اپنے خاوند کے متعلق بات کر رہی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے والد اِس قدر ناراض ہوگئے ہیں تو وہ اٹھیں اور پناہ کے لیے حضورؐ کے پیچھے جا کر چھپ گئیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوبکر! میں نے تو آپ کو جھگڑا نمٹانے کے لیے بلایا تھا، اِس بات کے لیے تو آپ کو نہیں بلایا تھا۔
عورت کا رائے کا حق
نبی کریمؐ کے زمانے میں مکہ اور مدینہ کے معاشروں میں کچھ فرق تھا، بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ مکہ میں کیفیت یہ تھی کہ ہم معاملات میں عورتوں سے مشورے نہیں کیا کرتے تھے اور عورتوں پر سختی کا ماحول رکھتے تھے، لیکن ہم جب مدینہ منورہ گئے تو وہاں کا معاشرہ کچھ مختلف تھا۔ انصار کی عورتیں گھر کے معاملات میں آزاد تھیں، وہ معاملات میں مشورہ بھی دیتی تھیں اور خاوند کی کوئی بات غلط ہوتی تو اسے ٹوک بھی دیتیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ کچھ دن گزرے تو انصار کی عورتوں کے دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی جواب دینا شروع کر دیا، ہمیں پریشانی ہوئی کہ یہ کیا معاملہ ہوگیا۔ ہم نے جناب نبی کریمؐ سے اس کا تذکرہ کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا تو کلچر خراب ہوگیا ہے، ہماری عورتیں تو بڑی پابند اور چپ رہنے والی تھیں، اب یہ بھی انصار کی عورتوں کی طرح بولنے لگ گئی ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا ’’نعم النساء نساء الانصار‘‘ کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں۔ یعنی نبی کریمؐ نے گھر کی عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان سے معاملات میں رائے لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جناب نبی کریمؐ نے عورت کو یہ مقام دیا کہ وہ معاملات میں اپنی رائے دے سکتی ہے اور اس کی رائے کی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔
نبی کریمؐ نے ایک عورت کی رائے کا کہاں تک احترام کیا؟ اِس بات کا اندازہ بریرہؓ کے واقعہ سے کر لیجیے۔ بریرہؓ حضرت عائشہؓ کی لونڈی تھی اور مغیثؓ کے نکاح میں تھی، ہوا یوں کہ حضرت عائشہؓ نے بریرہؓ کو آزاد کر دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک لونڈی کو آزاد ہونے کے بعد یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے نکاح میں رہے یا نہ رہے، اسے خیارِ عتق کہتے ہیں۔ بریرہؓ نے آزادی کے بعد اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مغیثؓ سے اپنا نکاح توڑ دیا۔ مغیثؓ کو بریرہؓ سے بے حد محبت تھی، اِس نکاح کے ختم ہونے سے مغیثؓ کو بہت صدمہ ہوا، روایات میں آتا ہے کہ مغیثؓ مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا کہ کوئی ہے جو بریرہؓ سے میری سفارش کرے۔ بالآخر جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہی بریرہؓ سے میری سفارش کر دیں، میرا تو گھر اجڑ گیا ہے۔
رسول اللہؐ نے بریرہؓ کو بلوایا اور پوچھا، بریرہ! تم نے مغیث کو چھوڑ دیا ہے۔ بریرہؓ نے جواب دیا، جی یارسول اللہ، چھوڑ دیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا، کیوں چھوڑ دیا ہے؟ بریرہ نے جواب دیا، یا رسول اللہ، یہ میرا شرعی حق ہے، آپؐ ہی نے تو یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ مجھے آزادی کے بعد یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے خاوند کی بیوی رہوں یا نہ رہوں۔ پھر حضورؐ نے مغیثؓ کی سفارش کرتے ہوئے بریرہؓ سے کہا کہ اگر تم اپنے فیصلہ سے رجوع کر لو اور مغیثؓ کے نکاح میں واپس چلی جاؤ تو اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس پر بریرہؓ نے ایک سوال کیا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کا حکم یا ہے مشورہ؟ سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضورؐ کا حکم ہے، پھر تو انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر مشورہ ہے تو پھر میرے پاس سوچنے کا موقع ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ میرا حکم نہیں ہے بلکہ مشورہ ہے۔ بریرہؓ نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی رسول اللہؐ کے ہاں اپنے حقوق کے معاملے میں عورت کی رائے کو یہ درجہ حاصل تھا کہ حضورؐ کی اپنی سفارش ایک آزاد کردہ لونڈی نے قبول نہیں کی۔ حضورؐ نے بریرہؓ کا یہ حق تسلیم کیا اَور کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ بریرہ تم نے میری سفارش رد کر دی تھی۔
خلفائے راشدینؓ تو عورتوں کے معاملات میں مشورہ ہی عورتوں سے کیا کرتے تھے، عورتیں اجتماعی معاملات میں ایک دائرے کے اندر رہ کر اپنی رائے دیتی تھیں۔ تاریخ میں حضرت عمر فاروقؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو شہر کی گلیوں میں گشت کرتے ہوئے ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو اندر سے ایک عورت کے اشعار پڑھنے کی آواز آئی، وہ عورت اپنے خاوند کی فرقت میں اشعار پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے پتہ کروایا کہ آخر قصہ کیا ہے، حضرت عمرؓ کو بتایا گیا کہ یہ ایک جوان خاتون ہے جس کا خاوند بڑے عرصے سے جہاد کے لیے میدان جنگ میں ہے۔ حضرت عمرؓ کو تشویش لاحق ہوگئی کہ یہ کیا معاملہ ہوا، آخر اِس عورت کی جوانی کے بھی کچھ تقاضے ہیں، اگلی صبح اپنی دختر حضرت حفصہؓ کے پاس گئے اور بتایا کہ رات کو یہ واقعہ ہوا ہے اور میں بہت فکرمند ہوگیا ہوں کہ بحیثیت امیر میں کتنے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہوں۔ پھر کہا کہ عورتوں سے مشورہ کر کے بتاؤ کہ ایک عورت اپنے خاوند سے زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ جدا رہ سکتی ہے، چنانچہ حضرت حفصہؓ نے مشورہ کر کے رائے دی کہ چار مہینے کے بعد مجاہد کو واپس گھر بھیجا جائے۔
ایک عورت کا جنگی مجرم کو پناہ دینا
فتحِ مکہ سے پہلے قریش کے ساتھ جنگوں کا زمانہ تھا، اِن جنگوں کے نتیجے میں قیدیوں کا پکڑا جانا معمول کی بات تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا ایک اصول یہ تھا کہ حالت جنگ میں جس طرح لشکر کا امیر کسی کافر کو پناہ دے سکتا ہے، اسی طرح ایک عام سپاہی یا ایک عام شہری بھی کسی کافر کو پناہ دے سکتا ہے۔ اگر کسی کافر کو اِس طرح پناہ مل جاتی تو پھر اسلامی لشکر کے لیے اسے قتل کرنا ممنوع ہو جاتا تھا۔ ام ہانیؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہن تھیں، ایسے ہی کسی جنگ کے دوران ان کا ایک مشرک رشتہ دار تھا جسے مباح الدم قرار دے دیا گیا تھا ، ام ہانی ؓ نے اسے پناہ دے دی۔ پھر وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنے ایک رشتہ دار کو پناہ دی ہے لیکن میرے بھائی حضرت علیؓ اسے مارنا چاہتے ہیں۔ حضورؐ نے ام ہانی ؓ کی پناہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرمایا ’’قد أجرنا من أجرت‘‘ کہ جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی۔
اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ محدثین نقل فرماتے ہیں، حضورؐ کے دامادوں میں ترتیب سے، سب سے بڑے داماد ابوالعاصؓ بن ربیع تھے، دوسرے نمبر پر حضرت عثمانؓ بن عفان تھے اور تیسرے نمبر پر حضرت علیؓ بن ابی طالب تھے۔ حضورؐ کی بڑی بیٹی حضرت زینبؓ حضرت ابوا لعاصؓ کے نکاح میں تھیں، جنگِ بدر میں ابوالعاص کافروں کے لشکر میں تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے جبکہ ان دونوں کا نکاح قائم تھاکہ نکاح کے احکامات ابھی نازل نہیں ہوئے تھے، یہ حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا کہ کافر مرد اور مسلمان عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ ابوالعاصؓ بدر کی جنگ میں مسلمان لشکر کے ہاتھوں قید ہوگئے، حضرت زینبؓ کو پتہ چلا کہ ابوالعاصؓ بدر کی جنگ میں گرفتار ہو کر حضورؐ کی قید میں ہیں اور یہ کہ فدیہ کے عوض قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہوا ہے۔ ابوالعاصؓ کے پاس فدیہ کے لیے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، حضرت زینبؓ نے اپنے گلے کا ہار اتار کر ابوالعاصؓ کو بھیجا کہ یہ ہار فدیہ میں دے کر رہائی حاصل کرو۔ بدر کے میدان میں وہ ہار حضرت ابوالعاصؓ کے پاس پہنچا اور انہوں نے وہ ہار حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا کہ میری رہائی کے لیے اسے فدیہ میں قبول فرمائیں۔یہ وہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی زینبؓ کے نکاح کے موقع پر انہیں تحفہ میں دیا تھا۔ جب یہ ہار دیکھا تو نبی کریمؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضورؐ کو حضرت خدیجہؓ کے ساتھ اپنی پچیس سالہ رفاقت کا وہ وقت یاد آگیا۔ حضورؐ نے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تم کہو تو یہ ہار میں اسے واپس کر دوں ، کہ یہ میری بیٹی کے پاس میری زوجہ حضرت خدیجہؓ کی نشانی ہے۔ چنانچہ صحابہؓ نے متفقہ طور پر وہ ہار واپس کر دیا اور ابوالعاصؓ کو بھی چھوڑ دیا۔
ابوالعاصؓ اس کے بعد کافی دیر مکہ میں کفر کی حالت میں رہے، ایک موقع پر مسلمانوں کے ساتھ کسی جھڑپ میں وہ ایک بار پھر پکڑے گئے، صحابہؓ انہیں ساتھ لے کر مدینہ منورہ آگئے۔ طریقہ یہ تھا کہ جو بھی قیدی پکڑا جاتا اسے لا کر مسجد نبوی میں ستون سے باندھ دیا جاتا تھا، رسول اللہؐ صبح نماز کے بعد مسجد میں کوئی قیدی دیکھتے تو لوگوں سے مشورہ کر کے اس کی قسمت کا فیصلہ سناتے۔ رات کو ابوالعاصؓ کو مسجد نبویؐ میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا، حضرت زینبؓ کو بھی پتہ چل گیا کہ ابوالعاصؓ پکڑے گئے ہیں اور انہیں مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھا گیا ہے اور یہ کہ صبح نماز کے بعد ان کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ حضرت زینبؓ نے چپکے سے چادر اوڑھی اور مسجد نبویؐ کے دروازے پر آکر کھڑی ہوگئیں۔ حضورؐ فجر کی نماز پڑھا کر جیسے ہی نمازیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو حضرت زینبؓ نے آواز لگا دی کہ یا رسول اللہ! اِس قیدی کو میں نے پناہ دے دی۔ حضورؐ نے یہاں بھی یہ ارشاد فرمایا ’’قد أجرنا من أجرت‘‘ کہ جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی۔ چنانچہ ابوالعاصؓ کو چھوڑ دیا گیا، پھر بعد میں ابوالعاصؓ بعد میں مسلمان ہوگئے، رسول اللہؐ کے صحابی بنے اور مجاہد بن کر انہوں نے بہت سی جنگوں میں حصہ لیا۔
عورت اور تعلیم و تعلّم
اسلام کی پہلی صدی میں تعلیم و تعلم کے حوالے سے عورتوں کی کیا خدمات تھیں؟ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک چھوٹی سی بچی سے نکاح کر لیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ آنحضرتؐ سے نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کم عمر تھیں، لیکن حضرت عائشہؓ کی زندگی اور جدوجہد کو دیکھیں تو اِس نکاح کا مقصد آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے اور پھر عرب معاشرے کے رواج کے مطابق ایسے نکاح میں کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا۔ تھوڑا غور فرمائیے کہ دین کا وہ حصہ جو گھر کی زندگی سے متعلق ہے، اس کی تعلیم کے لیے بھی ایک شاگرد کی ضرورت تھی، ایسا شاگرد جو ذہین ہو اور حضورؐ کے گھر کی زندگی کو سمجھ کر آگے روایت کر سکتا ہو۔ شاگرد کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ لائق ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ شاگردی کی عمر کا بھی ہو۔ حضرت عائشہؓ کی عمر شاگردی کے لیے بہترین تھی، پھر گھر کی زندگی کے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی تعلیم کے لیے میاں بیوی کے درجے کی بے تکلفی کا ماحول چاہیے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ حضورؐ کا یہ نکاح بعد میں آنے والے دور میں دینِ اسلام کی اشاعت و تعلیم میں کس قدر مفید ثابت ہوا۔ حضرت عائشہؓ نے یہ ذمہ داری کامیابی کے ساتھ نبھائی، انہوں نے اسلامی علوم میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ وہ اپنے وقت کے مجتہد صحابہؓ میں شمار ہوتی تھیں اور اپنے والد محترم حضرت صدیق اکبرؓ اور بعد کے خلفائے راشدین کے زمانے میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ تفسیر، حدیث اور فقہ میں حضرت عائشہؓ کے براہ راست شاگردوں کی تعداد تقریباً ۲۰۰ سے زائد ہے۔
حضرت عائشہؓ کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جو خود بڑے جلیل القدر فقیہ صحابی ہیں، فرماتے ہیں ’’ما اشکل علینا اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم قط إلا وجدنا فیہ عندہا علما‘‘ کہ کبھی کوئی ایسا مسئلہ ہم اصحابِ محمدؐ پر نہیں آیا کہ جس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ ملا ہو۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ جو تابعین میں بڑے محدث اور فقیہ ہوئے ہیں، حضرت عائشہؓ کے سب سے بڑے شاگرد تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں حدیث، فقہ، قرآن کریم کی تفسیر، اسرارِ دین، طب و وراثت کے احکام، ادب اور شعر، ان شعبوں میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد تقریباً نصف صدی تک آپؓ حیات رہیں۔ حضرت عائشہؓ کا ۵۸ھ میں انتقال ہوا اور ان کی وفات تک ان کی مسندِافتاء مدینہ منورہ میں قائم رہی۔
حضرت عائشہؓ کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ اپنے حجرے کے اندر دروازے سے کچھ فاصلے پر پردہ لٹکا کر بیٹھ جاتی تھیں، پردے اور اور دروازے کے درمیان اتنی جگہ ہوتی تھی کہ آنے والے بیٹھ کر بات وغیرہ کر سکیں۔ صحابہ کرامؓ کو معلوم ہوتا تھا کہ ام المؤمنین اشراق وغیرہ سے فارغ ہو کر، حجرے کا دروازہ کھول کر اپنی مسند پر بیٹھ جاتی ہیں۔ لوگ آ کر سلام عرض کرتے تھے کہ اور تعارف کراتے تھے کہ ام المؤمنین میں فلاں آدمی ہوں اور یہ مسئلہ عرض کرنا چاہتا ہوں، حضرت عائشہؓ اندر آنے کی اجازت دیتیں اور بات سن کر مسئلہ بیان فرما دیتی تھیں۔ لوگ اپنے جھگڑے لے کر بھی آتے تھے اور ام المؤمنین سے فیصلہ کرواتے تھے۔ ایک طرف یہ بات ہے کہ صحابہ کرامؓ فتویٰ لینے میں، مسئلہ پوچھنے میں اور راہنمائی لینے میں حضرت عائشہؓ سے رجوع کر رہے ہیں اور اس کے لیے مستقل ایک دربار لگا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بات کہ حضرت عائشہ کی طرف سے پردے کا اہتمام کسی طور بھی تعلیم و تعلم میں رکاوٹ نہیں بن رہا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب تک میرے حجرے میں رسول اللہؐ کی قبر مبارک تھی، میں گھر میں ننگے سر گھومتی پھرتی تھی کہ یہ میرے خاوند کی قبر تھی۔ رسول اللہؐ کے وصال کے اڑھائی سال بعد حضرت صدیق اکبرؓ کی قبر اُسی حجرے میں بنی، فرماتی ہیں کہ میں پھر بھی تسلی سے ننگے سر گھومتی پھرتی تھی کہ ایک قبر خاوند کی ہے جبکہ دوسری والد کی ہے۔ والد کے سامنے سر کا ننگا ہونا، بالوں کا ننگا ہونا جائز ہے۔ لیکن فرماتی ہیں کہ جب حضرت عمر فاروقؓ میرے حجرے میں دفن ہوئے تو اس کے بعد میں زندگی بھر اپنے کمرے میں ننگے سر نہیں رہی، اِس جھجھک سے کہ یہ ایک غیر محرم کی قبر ہے۔ اس سب کے باوجود حضرت عائشہؓ نے اپنے حجرے میں مسندِ تدریس قائم رکھی۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ پردہ رکاوٹ ہے، میں کہتا ہوں کہ حضرت عائشہؓ نے اس زمانے کی روز مرّہ زندگی کی سختیوں کے باوجود پردے کا اہتمام کرتے ہوئے نصف صدی تک درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ آپؓ اتنی بڑی مفتیہ تھیں کہ اکابر صحابہؓ اپنے مسئلوں کے لیے آپؓ سے رجوع کرتے تھے اور بڑے بڑے علماء راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ پردہ بھی قائم رہا اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
جناب نبی کریمؐ کی ازواج مطہرات اور صحابیات میں دوسرے نمبر پر حضرت ام سلمہؓ کا ذکر آتا ہے کہ وہ بھی اپنے وقت کی مفتیہ تھیں، فتاویٰ کی کتابوں میں ان کے فتوؤں کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ حضرت حفصہؓ بھی مسئلہ بیان کیا کرتی تھیں اور فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ آپؓ کی صحابیات میں شفاء بنت عبد اللہؓ کا ذکر آتا ہے،حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں بہت سے معاملات ان کے سپرد کر رکھے تھے۔
یہ وہ نقشہ ہے جو حضورؐ اور حضرات صحابہؓ کرام کے دور میں تھا کہ عورت مجتہد بھی ہے، عورت مفتیہ بھی ہے، عورت محدثہ بھی ہے، عورت معلمہ بھی ہے اور اجتماعی معاملات میں عورت کی رائے تسلیم کر کے اس کے مطابق فیصلے بھی ہو رہے ہیں۔
مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن
آج عورت کو فطرت کے حوالے سے معاشرے میں جو مقام حاصل ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہے۔ عورت کے ساتھ جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں، اس کی جو حق تلفی ہو رہی ہے، معاشرے میں اس کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، اس کے سد باب کے لیے قابلِ ذکر اقدامات نہیں ہو رہے۔ لیکن عورت کی معاشرتی حیثیت کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رکھنا اور اس کی طرف عورتوں کی توجہ مبذول کرانا بہت ضروری ہے کہ ایک عورت کے معاشرتی حقوق دراصل ہیں کونسے؟
آج لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغرب ہمارا معیار ہے؟ وہ مغرب جس نے فرائض کو حقوق کا نام دے کر عورتوں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں اور ترقی پذیر ممالک کو عورت کی آزادی کے نام پر اس بات پر مجبور کیاجا رہا ہے کہ ہم ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کریں۔ دوسروں کو آزادیٔ رائے کا درس دینے والوں کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگ مغربی طرزِ زندگی کے علاوہ کسی اور طرزِ زندگی پر عمل پیرا رہیں۔
گوربا چوف کا تجزیہ
مغربی دانشور خود بھی مغربی ثقافت کے نتائج سے پریشان ہیں، روس کے سابق وزیراعظم گوربا چوف نے اپنی کتاب ’پرسٹرائیکا‘ میں لکھا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں افراد قتل ہوئے جس کی وجہ سے ہمارے پاس کارخانوں اور دفتروں میں افرادی قوت کی کمی ہوگئی۔ اِس افرادی قوت کی کمی کو دور کرنے کا طریقہ ہم نے یہ سوچا کہ کسی طرح بہلا پھسلا کر عورت کو دفتروں اور کارخانوں میں لایا جائے۔ ہم عورت کو مردوں کے برابر حقوق کا، مساوات کا اور معاش کا لالچ دے کر کارخانوں اور دفتروں میں لے آئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہمارے کارخانوں اور دفتروں کا نظام تو چل گیا لیکن ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا۔ گوربا چوف نے کہا کہ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عورت کو اس کے اصل مقام، یعنی گھریلو زندگی میں کیسے واپس لے جائیں۔
ہیلری کلنٹن کا تجزیہ
امریکہ کی سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن نے ایک مرتبہ دورۂ پاکستان کے دوران مختلف سکولز اور کالجز کا دورہ کیا۔ اسلام آباد کے ایک سکول میں ہیلری کلنٹن نے طالبات سے پوچھا کہ تمہارا یہاں کا مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور حصولِ تعلیم کے جدید ذرائع کا فقدان ہے۔ وہیں ایک طالبہ نے ہیلری کلنٹن سے پوچھ لیا کہ آپ کے وہاں امریکہ کا مسئلہ کیا ہے؟ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان لڑکیاں بن بیاہی مائیں بن جاتی ہیں، جس کے بعد وہ زندگی کی بہت سی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بات تو ہیلری کلنٹن نے کہی، لیکن اگر کسی لڑکی کا بچہ نہ بھی ہو تو وہ جوانی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان گنت لوگوں کی ہوس کا نشانہ بن چکی ہوتی ہے جس میں بے احتیاطی کے نتیجے میں کئی لڑکیوں کو ابارشن کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک موقع پر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ مجھے مشرق کا خاندانی نظام دیکھ کر رشک آتا ہے کہ یہاں کی نوجوان لڑکی اپنے ماموں، چاچا، پھوپھی اور خالہ کے حصار میں ہوتی ہے۔
جان میجر کی مہم
سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر نے ’بیک ٹو دی بیسکس، کے نام سے ایک مہم چلائی کہ ہمیں ’’بنیادوں کی طرف واپس‘‘جانا چاہیے اور اپنے خاندانی نظام کو اس پرانی ڈگر پر لے جانا چاہیے جو عورت کو معاشرے میں اس کے اصل مقام پر لے جائے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل برطانوی اخبارات میں یہ خبر تھی کہ حکومت برطانیہ نے ایسی عورتوں کو اضافی سہولیات دینے کا وعدہ کیا ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں رہیں۔
اسلام کا خاندانی نظام
اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کرتے ہوئے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک بات یہ کہی ہے کہ عورت کو رائے دینے کا حق ضرور حاصل ہے لیکن گھر کے نظام کا سربراہ مرد ہے اس لیے کہ کنٹرول ایک ہاتھ میں ہو تو نظام صحیح چلتا ہے اور اگر اختیارات دو ہاتھوں میں برابر تقسیم کر دیے جائیں تو سسٹم تباہ ہو جاتا ہے جیسا کہ کائنات کے نظام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’لو کان فیھما اٰلھۃ الّا اللہ لفسدتا‘‘ (سورۃ الانبیاء ۲۲) کہ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی معبود ہوتا تو دونوں درہم برہم ہو جاتے، سو اللہ تعالیٰ اِن امور سے پاک ہے جو کچھ یہ لوگ بیان کر رہے ہیں۔
یعنی نظم کا تقاضا یہ ہے کہ سربراہی کسی ایک کی ہو۔ دوسری بات یہ کہی کہ عورت کے جتنے فرائض ہیں، ان سے ہٹ کر ان پر کوئی ذمہ داری نہ ڈالی جائے۔مجموعی انسانی معاشرے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ مرد اپنے گھر کے اخراجات کا کفیل ہے جبکہ عورت گھر کے اندرونی نظام کی ذمہ دار ہے۔ ہاں بوقت ضرورت بیوی اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے اور خاوند بھی گھر کے اندرونی معاملات میں بیوی کی مدد کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی یہ تقسیم ان کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی ہے۔ لیکن مغرب والوں نے عورتوں کو آزادی کے نام پر اِس بات پر اکسایا ہے کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کمانا ان کے حقوق میں شامل ہے، اس بات کو انہوں نے مرد و عورت کے درمیان مساوات کا نام دیا ہے۔ دفتر میں جا کر کام کرنا، فیکٹری میں مزدوری کرنا، یہ عورت پر اضافی ذمہ داری ہے جنہیں حقوق کا پُر فریب نام دے دیا گیا ہے۔ جبکہ عورت کی جو فطری ذمہ داریاں ہیں، یعنی بچہ جننا اور اس کی پرورش کرنا، ان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اسی طرح اسلام مطلقاً شادی برائے جنسی تسکین کا قائل نہیں ہے بلکہ قرآن کہتا ہے ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین‘‘ (سورۃ النساء ۲۴) بشرطیکہ انہیں اپنے مال کے بدلے میں طلب کرو ایسے حال میں کہ نکاح کرنے والے ہو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔ یعنی اسلام کہتا ہے کہ اگر کسی عورت کو ہاتھ لگانا ہے تو پہلے مہر اور نان نفقہ کی صورت میں اس کی مالی ذمہ داری قبول کرو، پھر گھر بسانے کی نیت سے نکاح کرو جس کا مقصد صرف شہوت نہ ہو بلکہ خاندان آباد کرنا مقصود ہے۔ یعنی عورت کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کرو، اس کی اور ہونے والے بچوں کی مالی ذمہ داری قبول کرو، اس کے بعد جنسی خواہش کی طرف آؤ۔
پھر قرآن نے کہا کہ ایسی لڑکیوں سے نکاح کرو جو ’’محصنات غیر مسافحات ولامتخذات اخدان‘‘ (سورۃ النساء ۲۵) نکاح میں آنے والیاں ہوں، آزاد شہوت رانیاں کرنے والیاں نہ ہوں اور نہ چھپی یاریاں کرنی والیاں ہوں۔
میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ عورت اور مرد کے معاشرتی تعلقات کے توازن میں، معاشرے میں عورت کی حیثیت کے بارے میں، گھریلو زندگی میں عورت کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے اور مرد و عورت کے اختیارات و حقوق کی تقسیم میں جو دائرہ کار جناب نبی کریمؐ نے قائم کیا ہے وہی نیچرل ہے وہی فطری ہے اور بالآخر اسی پر واپس آئیں گے تو معاشرے میں ایک توازن قائم ہوگا، اس کے بغیر معاشرے کو اصل اور فطری سکون حاصل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔