سنٹر فار اسلامک سٹڈیز: آکسفورڈ میں اسلامی ثقافت کی پہچان

   
۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء

برطانیہ کا سفر جتنے دن کا بھی ہو، آکسفورڈ میں ایک رات کی حاضری لازمی ہوتی ہے۔ مغربی دنیا کے اس عظیم تعلیمی و تہذیبی مرکز میں” آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز “ کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ سالہا سال سے کام کر رہا ہے، جسے سلطان آف برونائی اور برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس سمیت بہت سی عالمی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے، اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں اور برصغیر کے نامور مؤرخ اور محقق پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم کے فرزند ہیں۔ علمی دنیا میں پروفیسر خلیق احمد نظامی کو ان کی تصانیف بالخصوص ”تاریخ مشائخ چشت“ اور ”شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی مکتوبات“ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے خاص دوستوں اور رفقاء میں سے تھے۔ میں نے دونوں بزرگوں کی آکسفورڈ میں ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کی رہائش گاہ پر کئی بار زیارت کی ہے اور ان کی مجلس سے استفادہ کیا ہے۔ آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی رہنمائی میں قائم کیا گیا تھا اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر سال اس مرکز کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے آکسفورڈ تشریف لایا کرتے تھے۔ اس مرکز کا علمی و فکری تعلق ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ہے، اسی وجہ سے اس کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کا زیادہ تر موضوع اسلامی تاریخ ہے، جس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ اس مرکز میں ندوۃ العلماء لکھنؤ ہی کے ایک فاضل مولانا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے گزشتہ دس سال کے دوران امت مسلمہ کی محدثات پر کام کیا ہے، یعنی وہ خواتین جنہوں نے حدیث نبویؐ پڑھی اور پڑھائی ہے اور علمِ حدیث کی خدمت کو علمی مشغلے کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آٹھ ہزار محدثات کے حالات مرتب کر چکے ہیں اور یہ کتاب کم و بیش چالیس جلدوں پر مشتمل ہو گی، جو حدیث نبویؐ کے بارے میں خواتین کے علمی کام پر حوالے کی کتاب ثابت ہو گی۔

آکسفورڈ کی اپنی ایک علمی اور تہذیبی حیثیت ہے، جبکہ اس میں مذکورہ اسلامک سنٹر اور مولانا محمد اکرم ندوی کی علمی خدمات میرے لیے آکسفورڈ میں ہر سفر کے دوران حاضری کو ضروری بنا دیتی ہیں، چنانچہ اس بار بھی حاضری ہوئی اور ایک رات مولانا اکرم ندوی کے ہاں بسر کرنے کی روایت تازہ کی۔ آکسفورڈ میں سٹینلے روڈ پر ایک پرانی مسجد ”مدینہ مسجد“ کے نام سے ہے، جہاں ہمارے دوست مولانا محمد جمیل اور مولانا محمد نعیم دیگر احباب کی ٹیم کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس مسجد میں نماز عشاء کے بعد حسبِ سابق حالات حاضرہ کے تناظر میں کچھ گزارشات پیش کیں، جن کا تذکرہ چند سطور کے بعد کروں گا۔

اس سفر میں جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا ضیاء الحق سیاکھوی، لیسٹر کے نوجوان عالم دین محمد فاروق ملا اور نوٹنگھم کے ایک نوجوان محفوظ الرحمٰن جو کچھ عرصے سے شام کے دارالحکومت دمشق میں قیام پذیر ہیں، میرے ہمراہ تھے۔ مولانا محمد اکرم ندوی کی محدثات پر مذکورہ کتاب ہماری گفتگو میں زیادہ تر دلچسپی کا باعث رہی اور انہوں نے کمپیوٹر کے ذریعے ہمیں اس کتاب کی بعض تفصیلات سے آگاہ کیا۔

آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز اس وقت کرائے کی ایک بلڈنگ میں کام کر رہا ہے، جبکہ آکسفورڈ شہر کے وسط میں ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کر کے اس پر مستقل سنٹر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اس سنٹر کا نقشہ جب سامنے آیا تو اس پر خاصی لے دے ہوئی، کیونکہ نقشے کے مطابق اس سنٹر کی مسجد تعمیر ہو جانے کے بعد آکسفورڈ شہر کی سب سے نمایاں بلڈنگ ہو گی، جس پر مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس سے آکسفورڈ پر اسلامی ثقافت کی چھاپ نظر آئے گی اور اس شہر کی روایتی حیثیت مجروح ہو گی۔ لیکن سنٹر کے ذمہ دار حضرات کا کہنا ہے کہ وہ نقشے میں تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ اس کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہ مرکز اگر پروگرام کے مطابق تعمیر ہو گیا تو فی الواقع آکسفورڈ کی نمایاں اور خوبصورت عمارات میں اس کا شمار ہو گا۔

ڈاکٹر فرحان احمد نظامی سے ان کے دفتر میں مختصر ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر ان سے بات چیت ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کے حالات کے بارے میں چند سوالات کیے اور میں نے ان سے سنٹر کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ مدینہ مسجد میں نماز عشاء کے بعد مختصر گفتگو میں مغرب کا روشن خیالی کا تصور موضوع تھا۔ میں نے گزارش کی کہ مغرب نے تاریک ادوار سے نکل کر انقلاب فرانس کے ساتھ اب سے کم و بیش تین سو برس پہلے جس نئے علمی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی سفر کا آغاز کیا تھا، اسے تاریکی سے روشنی، ظلم سے انصاف اور جبر سے حقوق کی طرف سفر قرار دیا جا رہا ہے۔ مغرب نے اس عمل میں جن نئے افکار اور فکر و فلسفے کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، انہیں روشن خیالی کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور ہم مسلمانوں سے بھی دنیا بھر میں یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ ہم اس روشن خیالی کو قبول کریں اور مغرب کے اس سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں، مگر ہمارا روشن خیالی کا تصور مغرب کی روشن خیالی سے قطعی طور پر مختلف بلکہ متضاد ہے۔ ہماری روشن خیالی کا تاریخی پس منظر مغرب سے الگ ہے اور اس کی تاریخ بھی مغرب سے الگ ہے۔

مغرب نے تاریکی سے روشنی کی طرف سفر انقلاب فرانس سے شروع کیا اور مغرب کے ہاں تاریک دور اور روشن دور میں فاصل انقلاب فرانس ہے۔ اس سے پہلے کا دور تاریکی، جہالت اور ظلم و جبر کا دور کہلاتا ہے جبکہ اس کے بعد کے دور کو روشنی، علم اور انصاف و حقوق کا دور کہا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں دور جاہلیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو سمجھا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے زمانہ جاہلیت، ظلم و جبر اور تاریکی کا دور کہلاتا ہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے شروع ہونے والا دور علم، روشنی اور عدل کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہماری روشن خیالی کے تصور اور تاریخ کا مغرب کی روشنی خیالی کے تصور اور تاریخ سے کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ ہم نے مغرب سے گیارہ سو برس پہلے روشنی کے دور میں قدم رکھا تھا اور جاہلیت کو خیرباد کہہ کر علم اور عدل کے دور کی طرف پیشرفت کی تھی۔

یہ فرق تو تاریخی حوالے سے ہے، جبکہ ہماری روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں ایک اور جوہری فرق بھی ہے جس کو ملحوظ نہ رکھنے والے بہت سے دانشور خود بھی کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی کنفیوژن کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جوہری فرق یہ ہے کہ مغرب جس سفر کو تاریک دور سے روشن دور کی طرف سفر قرار دیتا ہے، وہ دراصل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی سے روگردانی کر کے انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو ہر چیز کا معیار قرار دینے کا سفر ہے۔ اس طرح مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات تاریکی کے دور کی علامات قرار پاتی ہیں، جبکہ انسانی سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی فکر و فلسفہ روشنی کا عنوان اختیار کر جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی سوسائٹی کی خواہشات کی بالاتری کو مسترد کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کا اعلان کر رہے تھے۔ گویا ہمارے نزدیک سوسائٹی کی خواہشات کی بالادستی، جہالت اور تاریکی کی علامت ہے جبکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی روشن خیالی اور علم کی جانب سفر تصور ہوتا ہے۔ مغرب آسمانی تعلیمات کی معاشرے پر بالادستی کو جہالت اور تاریکی قرار دیتا ہے، مگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کی خواہشات کی برتری کو جہالت اور تاریکی قرار دیتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف رجوع کو روشنی اور علم کی علامت بتایا ہے۔ اس لیے ہمارا روشن خیالی اور دورِ علم کا تصور مغرب کی روشن خیالی اور دورِ علم کے تصور سے قطعی مختلف اور متضاد ہے، اور ہمارے لیے اس سفر میں مغرب کا ساتھ دینا اسلامی عقیدے اور تعلیمات کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم آج بھی قرآن و سنت کی حقانیت پر بے لچک ایمان رکھتے ہیں اور نسل انسانی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس بلا رہے ہیں، جبکہ مغرب اسے جہالت اور تاریکی کے دور کی طرف واپسی سے تعبیر کر رہا ہے اور مسلم امہ کو اس عقیدے سے ہٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے۔

پھر روشن خیالی اور علم کی اس بحث کے حوالے سے ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ آج کی جدید معاشرت اور تمدن و ثقافت کی جتنی علامات ہیں اور جن اقدار و روایات کو جدید تہذیب کی اساس تصور کیا جاتا ہے، ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی ہو اور اس معاشرت و ثقافت کا حصہ نہ ہو جسے ہم چودہ سو سال قبل ’’دور جاہلیت‘‘ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اور جس جاہلی دور کی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے قدموں تلے روندنے کا تاریخی اعلان فرمایا تھا۔

مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط، ہم جنس پرستی، زنا، فحاشی، عریانی، شراب، جوا، سود، کہانت، حلال و حرام کا عدم امتیاز اور ناچ گانا وغیرہ، یہ سب کی سب اقدار وہ ہیں جو ابوجہل اور ابولہب کے دور جاہلیت کا خاصہ تھیں اور آج کی طرح اس دور میں بھی ترقی اور افتخار کی علامت تصور ہوتی تھیں، مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام جاہلی اقدار کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان اقدار کے خاتمے کو جاہلیت کے دور کے خاتمے سے تعبیر کیا، مگر آج مغرب انہی جاہلی اقدار کو پھر سے جھاڑ پھونک کر نئے میک اپ کے ساتھ دنیا کے سامنے جدید تہذیب و ثقافت کی ترقی یافتہ اقدار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور ہم مسلمانوں سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ انسانی معاشرت کی جن جاہلی اقدار کو ہم چودہ سو سال پہلے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھے تھے، انہی جاہلی روایات و اقدار کو جدید تہذیب و تمدن اور ثقافت کے نام پر دوبارہ اختیار کر لیں۔

مغرب کو آج سے تین صدیاں قبل جن وجوہ کی بنا پر آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی تھی، اس میں مغرب کا اپنا ایک مخصوص پس منظر ہے اور اس نے جو کئی صدیاں ظلم و جبر کے دور میں بسر کیں، وہ بھی اس کا اپنا علاقائی تناظر ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان اسباب و عوامل کی موجودگی میں مغرب کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا جو اس نے کیا، مگر ہمارا پس منظر یہ نہیں ہے اور ہمیں ان عوامل اور اسباب کا سامنا کبھی نہیں رہا جن کی وجہ سے مغرب کو انقلاب فرانس کے مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر مغرب تاریخی اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا مخصوص پس منظر اور علاقائی بیک گراؤنڈ ہم مسلمانوں پر بھی زبردستی مسلط کرنا چاہتا ہے اور ہمیں آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی سے روگردانی کے اس سفر میں ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے پر مصر ہے جو سراسر ناانصافی اور دھونس کے مترادف ہے، اس لیے مسلمان علمائے کرام اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فکری و تہذیبی دھونس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تاریخی حقائق کو ان کے اصل پس منظر میں سامنے لا کر مغرب پر واضح کریں کہ وہ اپنا پس منظر اور اس پس منظر میں تشکیل پانے والے فکر و فلسفہ کو مسلمانوں پر بزور طاقت مسلط کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے وہ زیادتی اور ناانصافی ہے، جسے مسلم امہ کبھی اور کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter