رشدی کی پذیرائی، توہینِ رسالت قوانین پر بحث کا بہانہ

   
۲۳ جون ۲۰۰۷ء

یہ بات حدود آرڈیننس کو سبوتاژ کرنے کی مہم کے ساتھ ہی سامنے آ گئی تھی کہ اس معاملے میں پیش رفت کے بعد تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی دستوری دفعات اور قانون کی باری ہے، کیونکہ امریکی وزارت خارجہ نے گزشتہ سال ستمبر کے دوران واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان پر جن قوانین کے خاتمہ کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں ان میں حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ تحفظ ناموس رسالت کا قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی دستوری و قانونی دفعات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد پاکستان کی حکمران مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین کی طرف سے مغرب کے لیے ایک یقین دہانی سامنے آئی، جو انہوں نے پیرس میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران پیش کی کہ توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون میں ترامیم کی تیاری جاری ہے اور حکومت ترمیمی مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے تیار ہے، البتہ اس سلسلے میں صرف اس قدر احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے کہ اسے الیکشن کے بعد نئی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ الیکشن مہم میں اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف کوئی نیا ایشو نہ آ جائے۔

ہم اس حوالے سے ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ جس طرح حدود آرڈیننس پر میڈیا میں ایک منظم بحث چھیڑ کر اسے متنازعہ بنایا گیا، حدود آرڈیننس کے خاتمہ یا اسے غیر مؤثر بنانے کے خواہش مند عناصر نے ”علم و دانش“ کے نام پر اس کے خلاف وہ طوفانِ بدتمیزی بپا کیا کہ شرعی حدود کے حوالے سے شکوک و شبہات کا پورے ملک میں بازار گرم ہو گیا، جبکہ دوسری طرف حدود شرعیہ پر سنجیدہ اور علمی گفتگو کرنے والے حلقے اس بحث میں الجھے رہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر آنا اور شرعی ضروریات کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال جائز بھی ہے یا نہیں اور جب وہ بالآخر میڈیا پر آئے بھی تو اس وقت جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں اور حدود شرعیہ کے خلاف مغرب نواز دانشوروں کا شور و غوغا اپنا کام دکھا چکا تھا۔

بالکل اسی طرز کی ”میڈیا وار“ اب تحفظ ناموسِ رسالت کے قانون کے حوالے سے شروع ہونے والی ہے اور ہمارے خیال میں اس بحث کے آغاز کا بہانہ ملکہ برطانیہ نے سلمان رشدی کو نائڈ ہڈ (سر) کا خطاب دے کر فراہم کر دیا ہے۔ جہاں تک سلمان رشدی کا تعلق ہے، ملکہ برطانیہ اور برطانوی حکومت سے یہ بات قطعی طور پر مخفی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس شخص سے شدید نفرت رکھتے ہیں، اس لیے کہ اس نے اپنی بے ہودہ کتاب ”شیطانی آیات“ میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں جو شرمناک گستاخیاں کی ہیں وہ دنیا کے کسی بھی مسلمان کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ برداشت ہیں اور آج کے گئے گزرے دور میں بھی مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، مگر قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی جان کا نذرانہ بخوشی دے دے گا، لیکن ایسی کسی بے ہودگی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرے گا۔

سلمان رشدی کی تصنیف ”شیطانی آیات“ منظر عام پر آئی تو مسلمانانِ عالم اور خاص طور پر اسلامیانِ برطانیہ نے جس جوش و خروش کے ساتھ اپنے ایمانی جذبات اور حمیت و غیرت کا مظاہرہ کیا وہ برطانوی حکومت اور ملکہ برطانیہ سے مخفی نہیں ہے اور گزشتہ سال ڈنمارک اور ناروے وغیرہ کے اخبارات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ کارٹون شائع ہونے پر عالمِ اسلام نے جس اجتماعی اور غیرت مندانہ رد عمل کا اظہار کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد بھی اگر برطانوی حکومت یہ کہتی ہے کہ سلمان رشدی کو ”سر“ کا خطاب اس کی ادبی خدمات کے صلے میں دیا گیا ہے تو اسے مسلمانوں کے دینی جذبات پر طنز کی ایک نئی اور مکروہ صورت کے سوا اور کچھ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چنانچہ سلمان رشدی کو سر کا خطاب ملنے کے بعد پاکستان کے قومی میڈیا میں اس سلسلے میں بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور جہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور دینی و سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کیا ہے، وہاں ایک اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمہ دار رہنما شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر ناموس رسالت کے حوالے سے مسلمانوں کے دینی جذبات اور ان کے عقیدہ و ایمان کے خلاف مورچہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”یہ برطانیہ کا داخلی معاملہ ہے۔“ اگرچہ برطانوی وزیر خارجہ نے سلمان رشدی کو سر کا خطاب دینے کے فیصلے پر قائم رہتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر ان سے معذرت کر کے پنجابی محاورہ کے مطابق ”گونگلوؤں توں مٹی جھاڑنا“ (شلجم سے مٹی جھاڑنے) کی کوشش کی ہے، لیکن اس سے جس بحث کا آغاز ہو گیا ہے وہ اب ہمارے خیال کے مطابق چلتی رہے گی اور اسی سے ”تحفظ ناموس رسالت کے قانون“ میں ان ترامیم کی راہ ہموار کی جائے گی جس کے لیے ایک عرصہ سے تیاری جاری ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور خبر بھی شامل کر لیں جو روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۸ جون ۲۰۰۷ء کو شائع کی ہے کہ امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے پاکستان میں توہینِ مذہب سے متعلق قانون کے بے جا استعمال پر افسوس کرتے ہوئے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرے، کمیشن نے بش انتظامیہ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنگین مذہبی تشویشناک امور کے بارے میں اسلام آباد کے ساتھ سرگرمی کے ساتھ رجوع کرے، کمیشن نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ قرار دے۔

گویا امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کے نزدیک مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین سرے سے جرائم میں ہی شامل نہیں ہے اور اسے اس بات پر تکلیف ہے کہ جو بات ان کے نزدیک جرم ہی نہیں ہے پاکستان نے اس کے لیے دفعہ ۲۹۵ کے تحت موت تک کی سزائیں مقرر کر رکھی ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ حدود آرڈیننس کے بارے میں بھی امریکا اور مغرب کا موقف یہی تھا کہ ان قوانین کا بے جا استعمال ہو رہا ہے اور مغرب کا یہ موقف بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ رضا مندی کا زنا سرے سے جرم نہیں ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں حدود و قوانین کے غلط استعمال کے پروپیگنڈہ سے بات شروع ہوئی اور اس سے نام نہاد ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ“ کی صورت میں جو نتائج حاصل کیے گئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور اب یہی کھیل تحفظ ناموسِ رسالت کے قانون کے ساتھ کھیلا جانے والا ہے۔

دوسری طرف ہماری صورتحال یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے تحفظ میں واضح ناکامی کے بعد بھی ہم اسی پرانی ڈگر پر قائم ہیں اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک حدود آرڈیننس کے حوالے سے دینی حلقوں کی پسپائی کے دو واضح اسباب ہیں:

(۱) ایک یہ کہ ہم نے ”میڈیا وار“ کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اس معرکہ میں صرف ”منبر و محراب“ پر قناعت کر لی۔ ہم اس فرق کو محسوس نہیں کر سکے کہ منبر و محراب کے ماحول میں کی جانے والی بات صرف ان لوگوں تک پہنچتی ہے جو خود وہاں تک چل کر آتے ہیں اور مجموعی آبادی میں ان کا تناسب معلوم کرنا مشکل نہیں ہے، جبکہ الیکٹرانک میڈیا کی رسائی کم و بیش ہر پاکستانی کے ”بیڈ روم“ تک ہے۔ ہم نے یہ جنگ، جو دراصل ”میڈیا وار“ تھی، کلاشنکوف کے مقابلہ میں تلوار کے ساتھ لڑنے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہی ہونا تھا جو ہمارے سامنے ہے۔

(۲) دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد کے لیے ”کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت“ کی طرز کا کوئی ایسا دینی محاذ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو اقتدار اور اپوزیشن کی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ایک دینی اور ملی مسئلہ کے طور پر قوم کے اجتماعی جذبات کی ترجمانی اور اس کی قیادت کر سکے۔ ہماری معلومات کے مطابق ایک الگ دینی محاذ کی تشکیل میں متحدہ مجلس عمل کے تحفظات آڑے آئے، لیکن متحدہ مجلس عمل کی قیادت نہ خود اس مسئلہ کو صحیح طور پر ڈیل کر سکی اور نہ ہی اس نے اس کے لیے الگ دینی محاذ کے قیام کا راستہ دیا اور ایم ایم اے کے تحفظ کی دھند میں حدود آرڈیننس کا تیاپانچہ ہو گیا۔

ہمارے نزدیک ”لال مسجد“ کا قضیہ بھی اسی صورتحال کا ردعمل ہے۔ لال مسجد کے طریق کار سے ہمیں بھی اختلاف ہے اور ہم ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ جو کچھ لال مسجد کر رہی ہے بروقت مشاورت کی صورت میں وہ سب کچھ اس سے کہیں بہتر صورت میں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے لال مسجد کے طریق کار کو کھلے بندوں غیر دانش مندانہ اور دینی جدوجہد کے لیے نقصان دہ قرار دیا اور سمجھتے ہیں، لیکن یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ بھی دراصل اس طرز عمل کا نتیجہ اور ردعمل ہے کہ ہماری دینی سیاسی قیادت خالصتاً دینی معاملات میں نہ خود دینی حلقوں کے جذبات اور دینی جدوجہد کے تقاضوں کی صحیح طور نمائندگی اور ترجمانی کر پاتی ہے اور نہ ہی ان تقاضوں اور جذبات کے الگ طور پر اظہار کی کوئی الگ صورت اس کے لیے قابلِ قبول ہوتی ہے، جو ہماری ماضی کی روایات کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے ہمیشہ ایسے دینی محاذوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی فرمائی ہے۔

ہمارے نزدیک سلمان رشدی کو ”سر“ کا خطاب دینے کی بات بھی بہت اہم ہے اور مسلمانوں کے دینی جذبات کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن امریکا کے مذہبی آزادی کمیشن کی طرف سے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو جرائم کی فہرست سے نکال دینے کی ”وارننگ“ اس سے کہیں زیادہ سنگینی کی حامل ہے اور اگر اب بھی ہم اپنی حکمت عملی اور ترجیحات پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں ہیں تو خاکم بدہن اس محاذ پر بھی پسپائی کے سوا کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter