مغرب کے سامنے صرف سپر اندازی کا مشورہ کیوں؟

   
۱۵ فروری ۲۰۰۴ء

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے اعتراف ’’جرم‘‘ اور صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ان کے لیے ’’معافی‘‘ کے بعد ایٹمی پھیلاؤ کے حوالے سے قیاس آرائیوں نے جو نیا رخ اختیار کر لیا ہے، اس سے ان حضرات کے خدشات کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ جس انداز سے اس معاملہ کو ڈیل کیا گیا ہے، اس سے مسئلہ سمٹنے کے بجائے پھیلاؤ کا زیادہ شکار ہو گیا ہے اور اس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ ایٹمی پھیلاؤ کے معاملے میں پاکستان کے بعض سائنس دانوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا مسئلہ پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں سمجھا جائے گا اور اسے عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے متعلقہ حلقے اور ادارے انکوائری کے اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے یقیناً پیشرفت کریں گے۔

صدر محترم نے حالیہ پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں اخبار نویسوں پر جس غصے کا اظہار کیا ہے، وہ اس مسئلے کی سنگینی اور اس کی پشت پر کارفرما عوامل کی سطح اور وسعت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، کیونکہ صدر صاحب خود بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اخباری نمائندوں، کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کے قلم سے جو باتیں قومی پریس کے ذریعے سامنے آرہی ہیں، وہ ان تجزیوں اور قیاسات کے دائرے سے ہٹ کر نہیں ہیں جن کا اظہار بین الاقوامی پریس میں مسلسل ہو رہا ہے۔ اور آج کے دور میں، جبکہ عام آدمی تک عالمی پریس اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی خبریں اور تجزیے قومی پریس سے پہلے پہنچ جاتے ہیں، کسی ملکی اخبار نویس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ انہیں جھٹلا کر یا نظر انداز کر کے قوم کے سامنے کوئی ایسی بات کہہ سکے جو واقعات سے مطابقت نہ رکھتی ہو، یا معروضی حقائق ان کا ساتھ نہ دے رہے ہوں۔ اس لیے صدر محترم کا یہ کہنا کہ بالفرض اگر کوئی بات درست بھی ہو تو اخبار نویسوں کو قومی مفاد کے لیے اسے نظر انداز کر دینا چاہیے، کسی درست طرز فکر کی نمائندگی نہیں کرتا۔

کسی دور میں ایسا ہو جاتا تھا کہ قومی مفاد کے پیش نظر حکومتیں اور ان کے کہنے پر قومی پریس کے ذمہ دار حضرات بعض باتوں کو عام لوگوں سے اوجھل رکھ لیا کرتے تھے، لیکن آج کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس واقعہ یا حقیقت کو آپ چھپا رہے ہیں یا نظر انداز کر رہے ہیں، اسے منظر عام پر لانے کے لیے درجنوں ایسے ذرائع ہر وقت موجود رہتے ہیں جو قومی پریس سے زیادہ مؤثر اور اس سے کہیں زیادہ تیز رفتار بھی ہیں۔ اس لیے آج کے دور میں ’’قومی مفاد‘‘ کسی معاملے میں کسی واقعہ یا حقیقت کو چھپانے میں نہیں، بلکہ اسے اصل صورت میں منظر عام پر لا کر ملک کے عوام کو اعتماد میں لینے اور معروضی حقائق کا کھلی آنکھوں سے سامنا کرنے میں ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر عبد القدیر کے اعتراف اور صدر کی طرف سے ان کی معافی کا تعلق ہے، ہمیں اس بات سے اتفاق ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قربانی دی ہے اور ان کی اسی قربانی کی بنیاد پر صدر محترم نے مسئلے کو نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہماری دلی دعا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کا یہ ایثار ایٹمی پھیلاؤ کے اس ’’پنڈورا باکس‘‘ کو کھلنے سے روک لے جس کا بھارتی حکومت کی طرف سے تقاضا کیا گیا ہے اور جس کی طرف عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی کے اس بیان سے اشارہ ملتا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کا یہ اعتراف صرف برف پگھلنے کا آغاز ہے، وگرنہ خدانخواستہ یہ پنڈورا باکس کھل گیا تو اس حمام کا کوئی ننگا پس منظر میں نہیں رہ سکے گا اور پھر عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور صلاحیت کے خلاف جو دھماچوکڑی مچے گی، اس کا تصور ہی ایک محب وطن پاکستانی کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔

ہماری ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے سارے معاملات اور مسائل کو صرف پاکستان کی سطح پر فیس کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری تنہائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور عالم اسلام کے مسائل کو اجتماعی طور پر ڈیل کرنے کا رجحان کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، وگرنہ ایٹمی صلاحیت اور ہتھیاروں کو چند ممالک تک محدود رکھنے کے لیے بین الاقوامی قوانین اور سسٹم کے اصولی اور اخلاقی جواز کو عالم اسلام کے اجتماعی استحقاق کے حوالے سے چیلنج کیا جائے اور ان مبینہ قوانین کے بارے میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے تحفظات کا دوٹوک انداز میں اظہار کیا جائے تو اس دباؤ کا بہت حد تک سامنا کیا جا سکتا ہے جس کا ہمیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور دوسرے مسلم ممالک کی ایٹمی صلاحیت کے حصول کی خواہش اور کوشش کے حوالے سے سابقہ درپیش ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس جائز، اصولی اور اخلاقی موقف کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کے بجائے مسلمان حکومتوں نے صرف اپنے اپنے بچاؤ کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے ایٹمی صلاحیت پر اجارہ داری کی دعویدار قوتوں کے ہر فیصلے اور قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی روش اختیار کر لی ہے۔

چند سال قبل برطانیہ میں ایک کانفرنس کی رپورٹ بعض اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس میں اسکولوں اور کالجوں کی طالبات کے بعض مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا تھا اور نوعمر لڑکیوں کی جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک دانشور نے کہا تھا کہ ہماری طالبات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ’’NO‘‘ کہنے کی عادت نہیں ہے، اس لیے انہیں ’’نو‘‘ کہنا سکھایا جائے اور اس کی مشق کرائی جائے۔ کچھ اس قسم کا مسئلہ ہمارا بھی ہے۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کو ’’نو سر‘‘ کہنے کی عادت نہیں ہے اور ’’یس سر’’ کچھ اس طرح ان کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ وہ کہیں ’’نو‘‘ کہنا بھی چاہیں تو بے ساختہ ان کی زبان سے ’’یس سر‘‘ ہی نکل جاتا ہے۔

یہ صرف پاکستان کا نہیں، دنیا کے تمام مسلمان ممالک کا مسئلہ ہے۔ ہر ملک الگ الگ تحفظات کا شکار ہے اور جداگانہ طور پر آج کی عالمی قوتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ جب کسی برادری کا ہر فرد دوسروں سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے لیے تحفظات اور بچاؤ تلاش کرنے پر آجاتا ہے تو قانون فطرت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا، ایک دوسرے سے کٹ جانے والے لوگ اکیلے اکیلے فنا کے گھاٹ اتر جایا کرتے ہیں۔ آج عالم اسلام کا اصل المیہ یہی ہے اور اس مخمصے سے نکلنے کے لیے کہیں سے کوئی جاندار آواز نہیں اٹھ رہی۔ آج ہمارے اکثر و بیشتر اہل دانش کی طرف سے یہ بات کہی جا رہی ہے اور اصولی طور پر ہمیں بھی اس سے اختلاف نہیں ہے کہ محض جوش و جذبہ کے اظہار اور ردعمل پر مبنی طرز عمل ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور دشمن ہمارے غصے اور جذبات کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے جذبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی تحریکوں اور تشدد کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کرنے والے حلقوں کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور جدوجہد کے لیے پراَمن ذرائع کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پراَمن ذرائع کون سے ہیں اور ان کی طرف ہمارے دانشور کیا راہنمائی کر رہے ہیں؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ:

  1. ایک طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جبر اور استحصال کی کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں، ان کے اردگرد حصار کا دائرہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے، ہر شعبہ میں ان کی پیشرفت کی راہ میں ’’بریکر‘‘ کھڑے کر دیے گئے ہیں، مسلم اکثریت کی درجنوں آبادیوں پر غیر مسلم قوتوں کا قبضہ ہے، انہیں جبر و تشدد کے ذریعے مسلسل دبایا جا رہا ہے اور ان کی کردارکشی کی مہم دن بدن زور پکڑتی جا رہی ہے۔
  2. دوسری طرف اپنے جذبات اور جوش و خروش کے ساتھ ان کارروائیوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کرنے والے وہ نوجوان ہیں جو جانیں دے رہے ہیں، گھربار کی قربانی دے رہے ہیں اور اپنی جوانیاں نچھاور کر رہے ہیں۔
  3. جب کہ تیسری طرف ہمارے بہت سے محترم دانشور ہیں جو ان نوجوانوں کو کوسنے میں مصروف ہیں اور انہیں جذباتیت اور سطحیت کے طعنے دے کر ان کی حوصلہ شکنی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمارے محترم دانشور اگر تو ان جذباتی نوجوانوں کو کوئی متبادل راستہ بتا رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی استعمار کی موجودہ یلغار کا سامنا کرنے کا کوئی عملی فارمولا دے رہے ہیں، اور پراَمن جدوجہد کی کوئی ’’لائن آف ایکشن‘‘ ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں تو ان کی بات یقینا قابل توجہ اور سمجھ میں آتی ہے، لیکن کسی متبادل راستے کی طرف عملی راہنمائی کیے بغیر اور پراَمن جدوجہد کا کوئی خاکہ ان کے سامنے رکھے بغیر صرف جذباتیت اور جوش و خروش کے طعنے دے کر انہیں کوستے چلے جانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ انہیں عالمی استعمار کے سامنے سپر انداز ہو جانے اور ہتھیار ڈال دینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ہماری گزارش دونوں حوالوں سے ایک ہی ہے، یعنی عالم اسلام کی جذباتیت اور جہادی تحریکات کے حوالے سے بھی اور ایٹمی پھیلاؤ کے بارے میں پاکستان اور عالم اسلام کے اصولی استحقاق اور موقف کے حوالے سے بھی کہ:

  • یکطرفہ بات نہ کیجئے اور وَن وے ٹریفک نہ چلائیے۔ جہادی تحریکات کو تشدد کا راستہ ترک کرنے کا مشورہ ضرور دیجیے۔ ہم اس مشورے میں آپ کے ساتھ ہیں، لیکن انہیں اسلام اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد اور آزادی کے لیے جدوجہد کا متبادل راستہ بھی بتائیے اور پراَمن جدوجہد کی ’’لائن آف ایکشن‘‘ بھی ان کے سامنے رکھیے۔
  • اسی طرح ایٹمی پھیلاؤ کے بارے میں عالمی برادری کی تشویش کو دور کرنے کی کوشش ضرور کیجیے اور بین الاقوامی قوانین کو یکسر مسترد بھی بے شک نہ کیجیے، لیکن ایٹمی صلاحیت پر چند ممالک کی اجارہ داری اور عالم اسلام کی یکسر محرومی کی صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیجیے اور مغرب کے یکطرفہ اور جانبدارانہ طرز عمل کے خلاف عالم اسلام کا اجتماعی احتجاج بھی ریکارڈ کرائیے۔

ورنہ اس وقت ان دونوں حوالوں سے جو یکطرفہ باتیں کی جا رہی ہیں، وہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے مسلمانوں کو مغرب کے سامنے سپر انداز ہو جانے کا مشورہ ہے اور مغرب کی رضا پر راضی ہو جانے کی تلقین ہے جس کے لیے کوئی غیرت مند مسلمان تیار نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter