اقوامِ عالم کا ہائیڈ پارک

   
۲۸ ستمبر ۲۰۰۴ء

جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ ہے، جہاں دنیا بھر کی حکومتوں کے سربراہوں اور نمائندوں کو سال میں ایک بار دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کھل کر دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک فیصلوں اور اختیارات کا تعلق ہے، وہ صرف سلامتی کونسل کے پاس ہیں، اس میں بھی ویٹو پاور رکھنے والے پانچ مستقل ارکان ہی حقیقی اختیارات کا سرچشمہ ہیں۔ اس طرح دنیا کے پانچ طاقتور ملک اقوام متحدہ کی وساطت سے دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں اقوام متحدہ کے نظام اور قوانین کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ دنیا میں ہونے والے کسی کام کو جواز یا عدمِ جواز سے قطع نظر صرف اپنے مفاد یا وقار کی وجہ سے روکنا چاہیں، تو اسے سلامتی کونسل کے تختے پر کھڑا کر کے ویٹو کا ’’لیور‘‘ کھینچ دیں۔

کچھ عرصہ قبل تک فیصلوں کی طاقت اور اختیارات کا ارتکاز ان میں سے دو بڑی قوتوں کے ہاتھوں میں تھا، جب روس ایک سپر پاور کے طور پر عالمی سیاست میں امریکہ کے مد مقابل تھا، دنیا کے زیادہ سے زیادہ ملکوں کو زیر اثر لانے کے لیے ان دونوں کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ جاری تھی۔ جبکہ کمزور اور غریب ملکوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ ایک بڑے چودھری یا اس کے کسی حواری کے ظلم سے بچنے کے لیے دوسرے بڑے چودھری کی پناہ میں چلے جائیں اور بہت سے ملکوں کو یہ پناہ مل بھی جایا کرتی تھی۔ مگر جہادِ افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کو عالمی قیادت کے منظر سے ہٹنا پڑا تو اب ’’یک قطبی عالمی نظام‘‘ نے فیصلوں کی قوت اور اختیارات کی چابی واحد سپر پاور امریکہ کے ہاتھ میں تھما دی ہے، اور عالمی سیاست کی چکی بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کا نظام بھی اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔

یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عالمی سیاست میں عدم توازن کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے کوئی اور طاقت امریکہ کے مد مقابل نہیں آ جاتی۔ بظاہر اس کے حالات نظر نہیں آ رہے، لیکن فطرت کا قانون یہ ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں سے لے کر عالمی سیاست تک یک طاقتی نظام کو اس نے کبھی زیادہ دیر تک چلنے نہیں دیا اور چودھری کے سامنے کوئی نہ کوئی چودھری ضرور آیا ہے۔ اگر کوئی چودھری مد مقابل نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ظلم میں حد سے بڑھ جانے والے چودھری کے ماتحت کمزوروں اور ضعیفوں کو سامنے آنے کا حوصلہ دے کر اس کی چودھراہٹ کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔

یک طاقتی سسٹم صرف کائنات کے خالق و مالک کو ہی زیبا ہے، اکیلا صرف وہی ہے، باقی سب میں اس نے ’’دوئی‘‘ رکھی ہے، اس کے سوا کوئی اور ’’اکیلا‘‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس کسی نے بھی یہ دعویٰ کیا، اس نے منہ کی کھائی ہے اور تمام تر طاقت و حشمت کے باوجود عبرت کا نشان بن کر رہ گیا ہے۔ اب امریکہ کے مقدر میں دنیا کی معاصر قوتوں میں سے کسی کے مد مقابل آنے کی صورت ہے؟ یا ماتحت کمزوروں اور ناداروں کے بپھر کر سامنے آ جانے کا منظر ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور اس کے واضح ہونے میں چند سالوں سے زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا۔ اس وقت دنیا پر بہرحال امریکہ کی حکومت ہے اور سردست اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو کام کرنا چاہے، اس کے لیے کسی نہ کسی طرح راہ ہموار کر لے، اور جسے روکنا چاہے اسے قوت کے بل پر روک دے۔ البتہ جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک انقلابی مفکر حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یہ پیشگوئی ہماری نظر سے گزر چکی ہے، جو انہوں نے طویل جلا وطنی سے واپسی پر دہلی میں کسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی کہ تیسری عالمی جنگ امریکہ اور چین کے درمیان ہو گی، جس میں امریکہ بکھر جائے گا اور اس کے بعد عالم اسلام کی بیداری، اتحاد اور اپنی قوت کو مجتمع کرنے کا دور شروع ہو گا۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کی جانے والی دھواں دار تقریروں کو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کے سوا اور کس منظر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جہاں روزانہ شام کو بہت سے دل جلے جمع ہوتے ہیں اور مختلف ٹولیوں کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد مطمئن ہو کر واپس چلے جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے دل کی بات کہہ دی ہے اور دنیا تک اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ تاہم ایک حد تک یہ بھی غنیمت ہے کہ دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور سینے کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔

جنرل اسمبلی کا یہ سٹیج حسب معمول اس بار بھی سجا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں کے حکمرانوں نے اس سٹیج پر اپنے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار بھی کیا ہے، جبکہ ہمارے صدر محترم جنرل پرویز مشرف بھی نیویارک تشریف لے گئے اور جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دل کی باتیں کہی ہیں۔ ان کے خطاب کے مختلف پہلوؤں پر قومی پریس میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ باتوں کی تحسین کی جا رہی ہے اور کچھ باتوں سے حسبِ معمول اختلاف کیا جا رہا ہے۔ ان کی تقریر کا مکمل متن ہمارے سامنے نہیں ہے، البتہ لندن کے اردو اخبارات میں شائع ہونے والے کچھ نکات ہماری نظر سے گزرے ہیں، جن میں سے چند اہم امور یہ ہیں۔

  • وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر ممکن نہیں ہے۔
  • ناانصافیوں کے سبب مسلم دنیا میں احساسِ محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔ اب مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا، اسلامی دنیا کے متعلق شکوک و شبہات کو دور کیا جانا چاہیے۔
  • صنعتی ممالک اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں تعاون کریں اور عالمی برادری مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان آہنی دیوار قائم ہونے سے پہلے مسلم ممالک کو درپیش سیاسی مسائل حل کرائے۔
  • اسرائیل فلسطینی علاقے میں دیوار کی تعمیر سے دستبردار ہو کر ۱۹۶۷ء کی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔ اسرائیلی مظالم قابلِ مذمت ہیں اور فلسطینیوں کی خودکش کارروائیاں گمراہ کن ہیں، یاسر عرفات انتفاضہ کو تشدد سے روکیں۔
  • عالمگیریت کے تناظر میں معاشی عدم توازن اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تعصب پر مبنی رویہ ختم کرنا ہو گا اور دنیا میں معاشی عدم توازن ختم کرنے کے لیے واضح پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی۔

خود کش حملوں کی مذمت اور انتفاضہ کو تشدد کی کارروائیوں سے روکنے کی باتوں کے سوا صدر جنرل پرویز مشرف کے باقی تمام ارشادات سے ہمیں اتفاق ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے فورم پر یہ باتیں وضاحت کے ساتھ پیش کر کے انہوں نے ہمارے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ البتہ دو باتوں کے بارے میں ہم تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ عالم اسلام میں استعماری قوتوں کی مداخلت اور جبر و استحصال کے خلاف ردعمل کی مزاحمتی تحریکوں اور خود کش حملوں کی مذمت اور انہیں مسلح مزاحمت ترک کرنے کا مشورہ ہمارے نزدیک محل نظر ہے۔ اس لیے کہ تمام تر اختلاف کے باوجود ان تحریکات کے پاس اپنی زندگی کے ثبوت اور مسئلے کو زندہ رکھنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ جانوں پر کھیل کر اپنے مسئلے کو دنیا کے ایجنڈے پر باقی رکھیں اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتے رہیں۔ ورنہ ان کے سرنڈر ہو جانے کا مطلب موجودہ حالات میں اپنے موقف سے دستبردار ہو جانے اور خود کو مکمل طور پر دشمن کے سپرد کر دینے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
  2. نائن الیون کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی خارجہ پالیسی میں ‘‘یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے امریکی اقدامات کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا تو ان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے اور کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ خود کش حملے کرنے والوں کے بارے میں بھی اسی پہلو سے سوچ لیا جائے اور یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا ان کے پاس اپنی زندگی کے ثبوت اور مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی اور آپشن بھی موجود ہے؟ اس لیے اپنی جانوں پر کھیل جانے والے سرفروش اور جانباز ہمارے نزدیک مذمت کے نہیں، بلکہ ہمدردی، دعاؤں اور اگر ہو سکے تو تعاون کے مستحق ہیں۔

  3. دوسری گزارش یہ ہے کہ عالم اسلام کی مشکلات دنیا میں ہوشربا معاشی عدم توازن، کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق، مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں اور زیادتیوں کے بارے میں صدر پرویز مشرف نے جو کچھ کہا ہے، وہ سب بجا ہے، بلکہ صورتحال اس سے بھی زیادہ بہت کچھ کہنے کی متقاضی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ کہہ کس سے رہے ہیں؟ جس فورم پر اور جن طاقتوں سے وہ یہ باتیں کہہ رہے ہیں، وہ تو خود اس معاملے میں فریق کی حیثیت رکھتی ہیں، یہ سب کچھ انہی کا کیا دھرا ہے اور ساری باتیں ان کے مستقل ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ میر تقی میر مرحوم نے غالباً ایسی ہی صورتحال کے بارے میں کہا تھا ؎
    میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
   
2016ء سے
Flag Counter