پوپ پال کے مسلم ممالک کے دورے

   
جون ۱۹۹۶ء

ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ نے ۱۵ اپریل ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ پاپائے روم جان پال دوم نے گزشتہ دنوں مسلم ملک تیونس کا دورہ کیا ہے اور وہاں اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم ملک کا دورہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مذاکرات اور اعتدال کی فضا پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ پوپ پال عیسائیوں کے کیتھولک فرقہ کے سربراہ ہیں اور اس سے قبل مراکش اور نائیجیریا سمیت متعدد ایشیائی اور افریقی ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔

جہاں تک پوپ پال کے دوروں کا تعلق ہے وہ تو کیتھولک چرچ کی اس مہم کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جس کا مقصد ۲۰۰۰ء تک افریقہ کو عیسائی برِاعظم بنانا اور دیگر مسلم ممالک میں مسیحی مشنریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھانا ہے۔ جس کے اثرات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں اور عالمی رپورٹوں کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو بڑے مسلم ملک انڈونیشیا اور بنگلہ دیش اس وقت عیسائی تبلیغی اداروں کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ہیں، اور وہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہزاروں سادہ لوح مسلمان اس دام فریب کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی مسیحی اداروں کی تگ و تاز کا اہم ہدف ہے اور یہاں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی وسیع سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیکولر لابیوں کے ذریعے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی مہم اور اسلامی احکام و قوانین کے خلاف نفرت اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا عیسائی اداروں اور مسیحی تنظیموں کی روزمرہ سرگرمیوں کے اہم دائرے ہیں۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو تیونس میں پاپائے روم کا مذکورہ اعلان محض ’’دکھانے کے دانت‘‘ ہیں جن کی آڑ میں مسلم ممالک میں وہ اپنے اداروں کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور بھرپور معاونت کا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ورنہ جہاں تک مفاہمت، اعتدال اور مذاکرات کی فضا پیدا کرنے کا تعلق ہے اہلِ اسلام کو اس سے کبھی انکار نہیں رہا اور آج بھی عالمِ اسلام کے علماء اور دانشور مذاکرات اور مفاہمت کی میز پر آنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ

  • پاپائے روم صہیونی اور یہودی قیادت کے ساتھ روابط پر نظرثانی کریں کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے دشمن ہیں اور وہ دوستی کے پردے میں عیسائی ممالک پر گرفت قائم کرنے کے بعد اب عیسائی ممالک کے وسائل کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
  • مسیحی ادارے بالخصوص کیتھولک تنظیمیں عالمی سیکولر لابیوں کے آلہ کار کا کردار ادا کرنے کی بجائے مذہب اور مذہبی اقدار کے فروغ کی طرف توجہ دیں اور سیکولرازم کے خلاف کام کرنے والے مسلم اداروں کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کا راستہ اختیار کریں۔

پاپائے روم ان دو بنیادی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے لادینیت کے خاتمہ اور مذہب کے فروغ کے لیے مذاکرات اور مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کے خواہاں ہوں تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ مسلم علماء اور دانشوروں کی طرف سے انہیں مایوسی نہیں ہو گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ محض ’’سیاست کاری‘‘ ہے جو پاپائے روم جیسی بڑی مذہبی شخصیت کو بہرحال زیب نہیں دیتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter