مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق

   
۲۰۱۷ء

آج کی دنیا میں تین ملک ہیں جہاں اپنے اپنے طور پر مذہب کو حکومت کی اساس قرار دیا گیا ہے:

پہلا ملک سعودی عرب ہے جس کا آئین یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق نظام چلے گا ،لیکن فیصلے کی فائنل اتھارٹی بادشاہ ہے۔ سعودیہ میں آخری اتھارٹی امرِ مَلکی ہے، نہ کسی کو اسے چیلنج کرنے کا اختیار ہے اور نہ اختلاف کا حق حاصل ہے۔ سعودی عرب میں قرآن و سنت کے مطابق نظام چلتا ہے لیکن فائنل اتھارٹی امر ملکی ہے۔

اس کے علاوہ دو ملک ہیں جنہوں نے دستوری طور پر اپنے تصورات کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے امامت کے تصور کو، اور پاکستان نے دستوری طور پر خلافت کے تصور کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ان دونوں کا فرق ذرا سمجھ لیں۔

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اہلِ تشیع کے ہاں حاکمیتِ اعلیٰ امام غائب کی ہے کیونکہ وہ اللہ کا نمائندہ ہے ۔ ایرانی دستور کا مطالعہ کریں بڑی دلچسپ دستاویز ہے۔ امامِ غائب کی نیابت میں فقیہ کی ولایت کا تصور ہے۔ یعنی حاکمیتِ اعلیٰ فقیہ کی ہے امامِ غائب کی نیابت میں ۔ اور ولایتِ فقیہ کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام معصوم کے ہیں۔

اب جب کہ بارہواں امام غائب ہے تو اس کا نمائندہ ولایتِ فقیہ ہے۔ یعنی اپنے ملک کے فقہاء میں سے جس کو منتخب کر لیا جائے وہ ولایتِ فقیہ کے درجے میں ہے، اس کے ساتھ ایک شورٰی نگہبان ہوتی ہے جس میں غالباً‌ چھ علماء اور پانچ قانون دان ہوتے ہیں۔ شورٰی نگہبان کو ولایتِ فقیہ نامزد کرتی ہے۔ پہلے خمینی صاحب ولایتِ فقیہ کے منصب پر تھے، ان کے بعد اب ولایتِ فقیہ کے منصب پر خامنائی صاحب ہیں۔ ایران کا صدر الگ ہے، پارلیمنٹ الگ ہے، چیف جسٹس اور وزیراعظم الگ ہے، اور رہبرِ انقلاب جس کا دستوری نام ’’ولایت فقیہ‘‘ ہے وہ الگ ہے۔ ولایت فقیہ کے اختیارات میں یہ بات ہے کہ وہ سپریم کورٹ، صدر اور پارلیمنٹ کا فیصلہ مسترد کر سکتے ہیں، جبکہ ولایتِ فقیہ کے کسی فیصلے سے کسی کو اختلاف کا حق نہیں ہے۔

الغرض ایرانی دستور میں حاکمیتِ اعلیٰ امام غائب کی ہے، اس کے نائب ولایتِ فقیہ ہیں، جس کے ساتھ ایک شورٰی ہے ۔ ان کے اختیارات کے دائرے میں پارلیمنٹ منتخب ہوتی ہے، صدر اور وزراء منتخب ہوتے ہیں، اور سپریم کورٹ بھی ان کے دائرے میں ہے۔ میں اس کو یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ اہلِ تشیع نے اپنے امامت کے تصور کو ولایتِ فقیہ کے ٹائٹل کے ساتھ دستوری شکل دی ہے۔

پاکستان بننے کے بعد ہمیں بھی یہ مسئلہ پیش آیا تھا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ تھے، انہوں نے اس مسئلے کا ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں حل یہ نکالا کہ دستور میں حاکمیتِ اعلیٰ نہ جمہور کی ہے، نہ ولایتِ فقیہ کی ہے، اور نہ علماء کی ہے۔

(۱) حاکمیتِ مطلقہ اور حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔

(۲) حکومت کرنے کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔

(۳) حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے احکامات کے پابند ہوں گے۔

یہ ہمارے دستور کی تین بنیادیں ہیں۔

جب بھی کوئی طبقہ یا گروہ خود حکومت قائم کرے گا تو وہ طاقت کے ذریعے قائم ہو گی جیسے کوئی فوج کے ذریعے قبضہ کر لے ، یا خاندانی بنیاد پر قائم ہو گی کہ باپ فوت ہوا تو اس کا بیٹا آجائے، یا عوام کی رائے سے حکومت قائم ہو گی، یہ تین ہی راستے ہیں۔ ہم نے دستوری طور پر خاندانی حکومت کو بھی قبول نہیں کیا، اور مطلق جمہوریت کو بھی قبول نہیں کیا، ہم نے تیسرا راستہ اختیار کیا کہ حکومت کا حق اس کو ہو گا جس کو لوگ منتخب کریں گے، اور حکومت قرآن و سنت کے دائرے سے باہر کوئی قانون سازی نہیں کر سکے گی۔

دستور پر عمل ہونا الگ بات ہے لیکن اصولاً‌ پورا دستور ان تین بنیادوں پر کھڑا ہے، البتہ ٹائٹل خلافت کا نہیں ہے۔ اگر آج ہم خلیفہ کا انتخاب کریں اور خلافت قائم کریں تو اس کے بھی یہی تین اصول ہوں گے۔ (۱) حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے (۲) خلیفہ کا انتخاب عوام کی صوابدید سے ہو گا (۳) خلیفہ قرآن و سنت کا پابند ہو گا۔

معروضی حالات میں خلافت کے تصور کو ہمارے ہاں دستوری شکل دینے کی کوشش کی گئی ، اور ایران میں امامت کے تصور کو دستوری شکل دینے کی کوشش کی گئی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایران میں امامت کے تصور پر جو دستور بنایا گیا اس پر عمل ہو رہا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا دستور بنایا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ نے ساری باتیں روک رکھی ہیں۔ اس لیے میں اکثر یہ بات عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دستور اسلامی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں دستور اسلامی ہے، لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ اور اس عمل نہ ہونے کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی منافقت اور ہماری بے حسی ہے کہ ہم دنیا کے ہر کام کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے دینی مکاتب فکر دستور کی پابندی کے نام پر اور نظامِ شریعت کے نفاذ کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے۔ جس دن ہم اس کے لیے اکٹھے ہو گئے اس دن ہم دباؤ ڈال کر اس کے عملدرآمد کا راستہ بھی نکال سکتے ہیں بشرطیکہ ہم کوئی محاذ بنا کر اکٹھے ہوں۔

ریاست کی بنیاد اسلام پر ہونی چاہیے، ریاست میں اسلام کے قوانین ہونے چاہئیں، اور ریاست کا نظریاتی تشخص ہونا چاہیے، اس پر عالمِ اسلام میں مجموعی طور پر تین حلقے پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں مصروف عمل ہیں:

  1. مسلم ممالک میں ایک حلقہ ان لوگوں کا ہے جو تعداد میں کم ہیں لیکن مؤثر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق پرانی بات ہے۔ یہ طبقہ مسلمان ہے، کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، لیکن ریاست کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق تسلیم نہیں کرتے۔ مسلمانوں میں ایسے سیکولر حلقے موجود ہیں جو یہ بات کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مؤثر ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح مغرب نے ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق کو ختم کر دیا ہے، ہمارے ہاں بھی مذہب کو ریاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

    مغرب کا کہنا یہ ہے اور اسی بات پر اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، مذہب کسی فرد کا انفرادی معاملہ ہے، مذہب کا دائرہ معاشرت تک نہیں بلکہ ایک شخص اور فرد تک ہے۔ اسی لیے جب ہم معاشرے اور ریاست و حکومت کے لیے مذہب کی بات کرتے ہیں، یا کسی معاملہ میں مذہبی روایت کو بنیاد بناتے ہیں، تو آج کے عالمی نظام کو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ مذہب کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ بہت سے دانشور اس فکر کی ترجمانی کر رہے ہیں کہ جس طرح مغرب نے مذہب کو فرد کے ذاتی مسئلے کے طور پر قبول کیا ہوا ہے، ہمیں بھی اس کو ذاتی مسئلہ قرار دینا چاہیے اور ریاست کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کی بنیاد عوام کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری پر ہونی چاہیے۔ یہ دو باتیں کہی جاتی ہیں (۱) عوام کی حکمرانی اور (۲) پارلیمنٹ کی خودمختاری۔ یعنی پارلیمنٹ کو عوام کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ جو دستور اور قانون طے کرنا چاہے طے کرے، جس قانون کو چاہے ختم کرے، جس کو چاہے بحال رکھے۔

  2. دوسرا طبقہ جو بہت بڑی تعداد میں ہے، ان کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ تعلق تو ہونا چاہیے، ملک کو اسلامی شناخت بھی رکھنی چاہیے، اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب بھی ہونا چاہیے، لیکن کیا مکمل اسلام کا نفاذ آج کے دور میں ممکن ہے؟ وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اسلام کا جو حکم جمہوری ڈھانچے میں ایڈجسٹ ہو جائے تو وہ ٹھیک ہے اسے نافذ کر لیں، اور جو حکم ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا اس پر اصرار نہ کریں۔ ہمارے ملکوں کے حکمران زیادہ تر اِسی فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مذہب، اس کے معاشرتی کردار اور مذہبی قوانین کے نفاذ کی نفی نہیں کرتے، لیکن کہتے ہیں جتنا ایڈجسٹ ہو جائے وہ ٹھیک ہے ورنہ اس پر اصرار نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ دوسرا طبقہ بہت زیادہ مؤثر ہے جو اس وقت عملاً‌ مسلم دنیا میں حکومت کر رہا ہے۔
  3. جبکہ تیسرا طبقہ کہتا ہے کہ ریاست کا تشخص اسلام کے نام سے ہونا چاہیے اور ریاست کے قوانین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہونی چاہیے۔ پارلیمنٹ کو پابند ہونا چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کے قوانین کو نافذ کرے اور اسلام کے خلاف کوئی قانون پاس نہ کرے۔ جب ۱۹۷۳ء کا دستور بنا، یا اُس سے پہلے قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو اس کی بنیاد اسی پر تھی۔ اس وقت دستور ساز اسمبلی میں جو مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام موجود تھے انہوں نے اسی بنیاد پر دستور میں بہت سی دفعات شامل کروانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ دستور کی تشکیل اس کے اسلامی تشخص کو واضح کرنے میں دینی جماعتیں کامیاب ہوئیں، مگر دستور کے مطابق نفاذ کا اختیار انہی قوتوں کے ہاتھ میں ہے جو ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور تمام معاملات میں اسلامی قوانین کے نفاذ کو ضروری نہیں سمجھتے۔
2016ء سے
Flag Counter