دینی مدارس کے تحفظ کے لیے علماء کرام کا اہم فیصلہ (۱)

   
۷ فروری ۱۹۷۵ء

دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کے فیصلہ کے بارے میں اخبارات نے گزشتہ دنوں جو خبر شائع کی تھی اس نے ہر دین دار شخص کو دینی اداروں کے مستقبل کے بارے میں تشویش اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت دینی مدارس کے مرکز ملتان میں زیادہ گہماگہمی رہی۔

قائد جمعیۃ کی پریس کانفرنس

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب سوات اور ہزارہ کے زلزلہ زدہ علاقہ کے دورے سے واپس تشریف لائے تو مقامی جمعیۃ نے آپ کی آمد پر جمعیۃ کے ضلعی دفتر لوہاری گیٹ میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس پریس کانفرنس سے مفتی صاحب نے زلزلہ زدہ علاقہ میں حکمران پارٹی کی دھاندلیوں، امدادی سامان میں خرد برد، اور دیگر اہم امور پر روشنی ڈالی۔ حج پالیسی کے سلسلہ میں وزیر امور مذہبیہ کے کاروباری مفادات اور حجاج کرام کی حجاز مقدس میں کسمپرسی کو بے نقاب کیا، سرحد میں ہونے والے بموں کے دھماکے کا ذکر فرمایا۔

’’ہوشیار بم‘‘

اس سلسلہ میں آپ نے ایک دلچسپ بات فرمائی۔ آپ نے کہا یہ بم اتنے ہوشیار ہیں کہ پیپلز پارٹی یا قیوم لیگ کے لیڈروں کے گھروں میں اس قدر احتیاط کے ساتھ پھٹتے ہیں کہ کوئی جانی یا بڑا مالی نقصان نہیں ہو پاتا، بس بم پھٹتے ہیں اور علاقے میں اپوزیشن کے کچھ اور ورکر آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد آپ نے دینی مدارس کے سلسلہ میں خبر پر تبصرہ کیا اور فرمایا کہ مدارس کو قومی تحویل میں لینے کا اقدام مداخلت فی الدین کے مترادف ہو گا اور اس کی مزاحمت کی جائے گی۔ آپ نے کہا اگر بالفرض حکومت نے مدارس پر قبضہ کر بھی لیا تو مدارس عمارتوں کا نام نہیں، استاذ اور شاگرد کا نام ہے، ہم طلبہ کو درختوں کے نیچے، گلیوں اور میدانوں میں بیٹھ کر پڑھائیں گے اور وہی ہمارا مدرسہ ہو گا۔

ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ اگر کچھ مفاد پرست حضرات نے تنخواہوں کی لالچ میں اس فیصلہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا تو؟ مفتی صاحب نے فرمایا: طلبہ ایسے اساتذہ سے ہرگز نہیں پڑھیں گے۔

وفاق المدارس العربیہ کا اجلاس

۲۶ جنوری کو صبح ۱۱ بجے خیر المدارس میں وفاق المدارس العربیہ کا اجلاس صدر وفاق حضرۃ علامہ محمد یوسف بنوری مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں وفاق کے تنظیمی امور، اسے زیادہ منظم، فعال اور مضبوط بنانے کی ضرورت، اور مدارس کے باہمی ربط میں اضافہ پر غور کیا گیا، اور مدارس کو قومی تحویل میں لینے کے سوال پر بھی غور و خوض کیا گیا۔

قائدین کا پرجوش استقبال

اس سے قبل جب مفتئ اعظم حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ اور حضرت علامہ محمد یوسف بنوری مدظلہ وفاق کے اجلاس میں شرکت کے لیے خیر المدارس پہنچے تو طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے مفتی اعظم زندہ بعد، علامہ یوسف بنوری زندہ باد، بھٹو پالیسی مردہ باد اور جمعیۃ علماء اسلام زندہ باد کے پرجوش نعروں سے دونوں رہنماؤں کا خیرمقدم کیا۔ بعد ازاں حضرت مولانا عبید اللہ انور دامت برکاتہم کی تشریف آوری پر سبھی طلبہ نے اسی جوش و خروش اور عقیدت و محبت کا مظاہرہ کیا۔

علماء کرام کا مشترکہ اجلاس

ظہر کی نماز کے بعد خیر المدارس کے وسیع دارالحدیث میں ملک بھر کے دینی مدارس کے نمائندوں کا مشترکہ اجلاس حضرت علامہ محمد یوسف بنوری مدظلہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں دیوبندی، اہلِ حدیث اور بریلوی مکاتبِ فکر کے مندرجہ ذیل سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پنجاب، سرحد، سندھ کے مدارس سے کم و بیش چار سو مندوبین شریک ہوئے۔

حضرات دیوبندی

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، کراچی۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب، ملتان۔ حضرت مولانا ایوب جان بنوری، پشاور۔ حضرت مولانا عبد الحق، اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا مفتی زین العابدین صاحب، لائل پور۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور، لاہور۔ حضرت مولانا حبیب اللہ رشیدی، ساہیوال، حضرت مولانا نور محمد صاحب سجاول۔

حضراتِ اہل حدیث

مولانا معین الدین صاحب لکھوی۔ میاں فضل حق صاحب، لاہور۔ مولانا عبد الرحیم صاحب اشرف، لائل پور۔ مولانا محمد اسحاق صاحب چیمہ۔

حضراتِ بریلوی

مولانا عبد المصطفیٰ الازہری، کراچی۔ علامہ محمود احمد رضوی، لاہور۔ پیر کرم شاہ صاحب الازہری، بھیرہ۔ مفتی محمد حسن صاحب نعیمی، لاہور۔ مولانا احمد سعید صاحب کاظمی، ملتان۔ مولانا حامد علی صاحب، ملتان۔

اجلاس کا آغاز مولانا قاری عبد السمیع سرگودھوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ بعد ازاں حضرت علامہ مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ نے اجلاس کی غرض و غایت پر مفصل روشنی ڈالی۔

مفتی اعظم کا خطاب

آپ نے فرمایا: تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے منتظمین کو آج اس مقصد کے لیے دعوت دی گئی ہے کہ اس اعلان پر غور و خوض کیا جائے جو گزشتہ دنوں اخبارات میں شائع ہوا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لے رہی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر وفاق المدارس العربیہ کے ناظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے میں نے اس کے مضمرات پر غور کیا اور صدر وفاق حضرت علامہ محمد یوسف بنوری سے فون پر رابطہ قائم کر کے ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ ملتان سے مولانا ابو الحسن قاسمی نے فون پر حالات بتائے، یہاں مقامی طور پر مدارس کا ایک اجلاس ہو چکا تھا، انہوں نے اس کے بارے میں آگاہ کیا۔

وزیر امور مذہبیہ کا قصہ

مفتی صاحب نے بتایا کہ میں نے اسلام آباد میں امور مذہبیہ کے وزیر سے رابطہ قائم کیا اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ میں نے انہیں کہا کہ پاکستان کو، جو پہلے ہی مسائلستان بن چکا ہے، بھٹو صاحب ایک مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، وہ ابھی حل نہیں ہوتا تو دوسرا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اب الجھایا جا رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکتی۔ یہ انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہ بھٹو صاحب کے زوال کا ذریعہ بنے گا۔

وزیر امور مذہبیہ نے کہا: مجھے اس کا کوئی علم نہیں، میں معلوم کر کے آپ کو کل بتاؤں گا۔ لیکن ابھی تک انہوں نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں بتایا۔

مدارسِ دینیہ کی خدمات

مفتی صاحب نے فرمایا: برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں جو لوگ کلمہ پڑھتے ہیں اور جن کے دلوں میں اسلامی احساسات و جذبات ہیں وہ انہی مدارس کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ مدارس نہ ہوتے، فرنگی دور میں یہ مدارس اسلام کی خدمت نہ کرتے، قرآن و حدیث سے مسلمانوں کے بچوں کو منسلک نہ رکھتے، خدا و رسولؐ کی محبت کا جذبہ بیدار نہ رکھتے، تو آج کوئی بھی اسلام کا نام لیوا باقی نہ ہوتا۔ ان مدارس کی ایک تاریخ ہے اور مدارس نے بقائے اسلام کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔

تعلیمِ دین جاری رہے گی

آپ نے بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت قرآن و حدیث کی تعلیم کو نہیں روک سکی۔ جس نے بھی اسے مٹانے کا ارادہ کیا وہ خود مٹ گیا۔ لیکن مدارس، طلبہ، علماء آج بھی زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے خود محافظ ہیں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ حکومت ان مدارس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور حکومت نے اگر ایسا کرنے کی کوشش کی تو ہم مزاحمت کریں گے، اس لیے کہ حکومت کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔

وقف پر قبضہ جائز نہیں

اس لیے کہ لوگوں نے عطیات وغیرہ دے کر دین کے ادارے قائم کیے ہیں، وہ وقف ہیں۔ ان اوقاف کے متولی موجود ہیں۔ اگر کوئی متولی خیانت کرتا ہے اور اس کی خیانت ثابت ہو جاتی ہے تو اسے معزول کیا جا سکتا ہے، لیکن بغیر کسی وجہ کے اوقاف کے متولیوں کو تبدیل کرنے اور مداخلت کرنے کا شرعاً کوئی جواز نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ عملاً مدارس کو ختم کر دینے کے مترادف ہے کیونکہ عوام زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کے سلسلہ میں علماء پر جو اعتماد کرتے ہیں، حکومت پر انہیں وہ اعتماد نہیں۔ اس لیے سرکاری تحویل میں مدارس کے چلے جانے کے بعد عوام کے چندے یقیناً رک جائیں گے اور یہ مدارس ختم ہو جائیں گے۔

یہ ہمارا جمہوری حق ہے

مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہر جمہوری ملک میں مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ دین کی اشاعت کے لیے آزادانہ طور پر ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ دین کی اشاعت اور تعلیم و تربیت کی آزادی ہمارا جمہوری حق ہے جو سرکاری تحویل میں لیے جانے کے بعد یقیناً مجروح ہو گا، یہ آزادی بحال نہیں رہے گی اور وہی حالت ہو گی جو اوقاف کے خطیبوں اور مساجد کی ہے۔

شاید یہ کسی کو غلط فہمی ہے کہ اس طرح وہ علماء کو اور اہلِ حق کو پابند کر سکے گا۔ اور شاید اس کی سوچ یہ ہو کہ علماء ملازم ہوں گے، انہیں اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے گا اور ان پر میری حکومت ہو گی۔ لیکن اگر آج یہ مجلس اعلان کر دے کہ کوئی عالم سرکاری ملازمت اختیار نہ کرے اور کوئی طالب علم ضمیر کا سودا کر کے سرکاری ملازمت اختیار کرنے والے استاذ سے نہ پڑھے تو مدرسین اور طلبہ کی کم سے کم ۹۰ فیصد اکثریت ہمارے ساتھ ہو گی، اور حکومت اس محاذ پر ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی، حکومت کی مقبوضہ عمارتیں اسی طرح خالی کی خالی رہیں گی۔

مدارس عمارت کا نام نہیں

وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ عمارت کا نام ہے، ہم عمارت پر قبضہ کر لیں گے تو مدرسے پر قبضہ ہو جائے گا۔ لیکن مدرسہ تو استاذ اور شاگرد کا نام ہے۔ اس لیے اگر بالفرض حکومت مدارس پر قبضہ کر بھی لے تو یہ قبضہ مدارس پر نہیں بلکہ عمارتوں پر ہو گا۔ ہم طلبہ کو باہر گلیوں اور میدانوں میں درختوں اور چھپروں کے نیچے پڑھائیں گے، وہی ہمارے مدارس ہوں گے۔ ہم پوری محنت سے پڑھائیں گے اور جو اہلِ خیر آج ان مدارس کے سلسلہ میں ہماری امداد کرتے ہیں یقیناً وہ اس سے بھی دگنی ہماری مدد کریں گے۔ اسلامی علوم کی اشاعت جاری رہے گی اور کوئی طاقت اس پر قدغن نہیں لگا سکتی۔

اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے

مفتی صاحب نے فرمایا: اگر آج ہم اتحاد و یگانگت کے ساتھ یہ طے کر لیں کہ مدارس کو ہر قیمت پر بچانا ہے تو جس طرح تحریکِ ختمِ نبوت میں باہمی اتحاد کی بدولت کامیابی ہوئی، ہم اس مہم میں کامیاب ہوں گے۔

یہ اجلاس اس لیے طلب کیا گیا تاکہ اس سلسلہ میں باہمی مشاورت سے تمام مکاتبِ فکر اجتماعی طور پر کوئی مؤثر قدم اٹھا سکیں۔

تنظیم قائم کی جائے

میری رائے ہے کہ اس اقدام کی واضح طور پر مذمت کی جائے اور یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ سکولوں اور کالجوں کو قومیانے کا مسئلہ نہیں، ان مدارس کی ایک تاریخ ہے، اس تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور ان مدارس کو تحویل میں لینے میں سیاسی مقاصد کارفرما ہیں، اس لیے ہم ہر قسم کی قربانی دیں گے اور مدارس کو ختم کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیں گے۔

اس کے علاوہ ہمیں تمام مکاتب فکر کے مدارس کی ایک مشترکہ تنظیم قائم کرنی چاہیے جو مدارس کی بقا و تحفظ کے متفقہ لائحۂ عمل طے کرے۔

علامہ عبد المصطفیٰ الازہری ایم این اے

علامہ عبد المصطفٰی الازہری ایم این اے نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ علماء کرام نے جن مشکلات و مصائب میں دینی مدارس قائم کیے ہیں یہ انہی کا حصہ ہے۔ ان علماء نے ظاہری اسباب اور حکومت کی امداد کے بغیر محض دین اسلام کی اشاعت کے لیے جدوجہد کی اور رفتہ رفتہ دینی مدارس ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔ ایک بستی میں عالمِ دین نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تعلیم کا کام شروع کر دیا، اس وقت نہ عمارت تھی نہ چندے کا وسیع سلسلہ تھا۔ رفتہ رفتہ عمارت بھی بن گئی اور چندے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، کم و بیش تمام مدارس کی یہی کیفیت ہے۔

اس سازش کی بنیادی وجوہ

آپ نے کہا میرے خیال میں اس اقدام کی بنیادی وجوہ ہیں:

ایک وجہ یہ ہے کہ ملک میں کچھ توانا اور مضبوط عناصر جو علومِ دینیہ اور اسلامی جذبات سے بہرہ ور ہیں سیاسی میدان میں برابر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسمبلی میں علامہ مفتی محمود صاحب اور دوسرے علماء موجود ہیں۔ ہمیں دیکھ کر سوشلسٹ عناصر پہلے بہت بھناتے تھے جیسے جنگل میں شیر آگیا ہو، اب تو وہ بہت پریشان ہیں۔ علماء کو بدنام کرنے کے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں، اس لیے اب انہوں نے یہ سوچا ہے کہ یہ مدارس، جہاں سے یہ عنصر برابر تیار ہو کر میدانِ سیاست میں آ رہا ہے، ان مدارس کو ہی قبضہ میں کر لیا جائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریکِ ختمِ نبوت میں حکومت نے ان مدارس کی قوت کو محسوس کر لیا ہے۔ حکومت نے ہر طرف رائے پر پابندی لگا دی تھی، لیکن مساجد میں ان پابندیوں کو چیلنج کر دیا گیا، تحریک جاری رہی اور بالآخر حکومت کو مجبوراً ان عوامی مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ یہ محاذ ان کے لیے بڑا سخت تھا اس لیے وہ اسے بے اثر کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے علماء کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور مل جل کر ان آزاد مراکز کی آزادی اور تقدس کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter