ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے خیالات

   
تاریخ : 
۸ دسمبر ۲۰۰۰ء

ان دنوں نو مسلم جرمن دانشور ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے وہ خطبات میرے زیر مطالعہ ہیں جو انہوں نے سال رواں کے دوسرے مہینہ کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں اسلام اور مغرب کی کشمکش کی معروضی صورتحال اور مستقبل کے امکانات کے حوالہ سے ارشاد فرمائے۔ ان خطبات کا اردو ترجمہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے اپنے سہ ماہی جریدہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ کی خصوصی اشاعت میں کیا ہے۔

ڈاکٹر مراد ہوف مین جرمنی کے دفتر خارجہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے، نیز مراکش اور الجزائر میں سفیر کے منصب پر فائز رہنے کے علاوہ برسلز میں نیٹو کے ڈائریکٹر انفرمیشن کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مختلف مضامین و مقالات میں اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور اس ثقافتی جنگ کے اسباب و علل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ مستقبل کے امکانات کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ اس مطالعہ میں اپنے قارئین کو شریک کرنے کے لیے ڈاکٹر مراد ہوف مین کے مذکورہ خطبات کے اہم اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔

اسلام کا تعارف بطور ایک جنگجو مذہب

قدرے قریبی دور میں اسلام کو ایک جنگجو مذہب کے طور پر پیش کیا گیا اور مشرق اوسط کو ایک بحران زدہ علاقہ۔ صرف اس وجہ سے کہ مغرب کی نگاہیں تیل اور اسرائیل پر مرتکز ہیں۔ ایڈورڈ سعید کی زبان میں Oil and Turmoil (تیل اور بحران) کا علاقہ۔ آج کل عربوں کو ارب پتی، بم دھماکے کرنے والے، اور بیلے ڈانسر کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ دوسروں کو شیطانی طریقے سے ایسا روپ دینا کہ وہ مستقلاً غیر نظر آئیں کلچر کا جدید فیشن ہے۔ دنیا میں اختلاف کی وجوہ دیکھتے رہنا اور ہم آہنگی کی صورتیں بھول جانا شاید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی شیطانی فطرت ہے ۔۔۔ یعنی چیزیں صفر ہیں یا ایک، کالی ہیں یا سفید، مغربی ہیں یا مشرقی۔

میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے ہر دور میں تہذیبی امتیازات یا مختلف ثقافتوں کی باہمی ٹکراتی اقدار کی بنیاد پر ہی فوجی تصادم پیش آئے۔ جنگ عظیم اول اور دوئم صرف برطانوی، فرانسیسی اور جرمن قوموں کے درمیان ہی نہیں لڑی گئیں بلکہ یہ برطانوی، فرانسیسی اور جرمن ثقافتوں کے درمیان بھی تھی جو آج کے مقابلہ میں اس وقت نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ حتیٰ کہ امریکی خانہ جنگی بھی دو ثقافتوں یعنی ’’یانکی‘‘ اور ’’اکسی‘‘ کے درمیان ہوئی۔ جنوب نے بزعم خویش اپنے اعلیٰ شریفانہ طرز زندگی کی خاطر لڑائی لڑی جبکہ نسلی برتری کا یہ تصور شمال میں ناپید تھا۔

ہر چیز کا معیار انسانی عقل

مغرب میں اس وقت سے انسان اور اس کی عقل کو آزاد اور خودمختار سمجھ لیا گیا ہے۔ انسان نے خدا کے تصور سے دامن چھڑا کر خود کو ہر شے کا معیار قرار دے لیا۔ مذہب تیزی سے انسان کا ذاتی معاملہ بنتا چلا گیا۔ سائنسی علوم نے اس کی جگہ لے لی اور نتیجتاً سائنٹزم اور ریشنلزم (Scientism and Rationalism) خود ساختہ مذاہب کا درجہ اختیار کر گئے۔ کارل مارکس، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائیڈ، اور فریڈرک نتشے کے بعد مذہب کو دیس سے نکالا دے کر حکایتوں، قصے کہانیوں اور توہمات کے درجے میں ڈال دیا گیا جس سے کم عقل والے دل بہلاتے رہیں۔ تاکہ انسانی عقل ہمارے وجود کے آخری اسرار کو دریافت کرنے میں جیسے جیسے آگے بڑھے، مذہب اپنی مذکورہ شکلوں میں اسی حساب سے معدوم ہوتا جائے۔ انیسویں صدی ختم ہونے کو آئی تو نتشے یہ اعلان کرنے کے قابل ہوگیا کہ ’’خدا مر چکا ہے۔‘‘

عام یورپی فرد اِس ادراک کے پیش نظر کہ مابعد نیوٹن، جدید دور کے کوانٹم فزکس میں مادہ غائب ہو چکا، اس لیے وہ اب یقیناً روحانی دنیا اور خدا کے وجود کی ضرورت کو محسوس کر چکا ہوگا، تو یہ خام خیالی ہے۔ عام یورپی فرد تک جو چیز اپنی ابتدائی ممکنہ خام شکل میں پہنچ پائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ہر چیز اضافی ہے‘‘۔ آئن سٹائن کے اس مضحکہ خیز نظریہ اضافت سے جو نتائج نکالے گئے وہ بڑے تباہ کن ہیں۔ مابعد جدیدیت کا عقیدہ اس کو اس طرح دیکھتا ہے کہ ’’سب چلتا ہے‘‘۔ کسی (اخلاقی) قدر کی بات نہ کرو، زندگی سے لطف اٹھاؤ اور جو جی چاہے کرو۔ یہ چیز ہم جیسے کسی فرد کے لیے، جو مستقل اقدار سے منسلک ہو، بہت بری ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کی دنیا بھی جدیدیت کے وہی بہت سے تصورات اپنائے ہوئے ہے خصوصاً یہ تصور کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ اسے ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

مسئلہ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب قابل اعتبار مابعد الطبعیات ممکن نہیں۔ لہٰذا لوگ اس تصور پر یقین کر لیتے ہیں کہ خدا موجود نہیں ہے اور اس طرح لا روایت کی نسبتاً زیادہ معقول حیثیت سے احمقانہ الحاد کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یورپ کا بیشتر مسئلہ یہی ہے، لوگ غیر یقینی کی حالت میں نہیں رہ سکتے کہ یقین رکھنے اور یقین نہ رکھنے کے درمیان توازن برقرار رہے۔ چنانچہ وہ عملاً ملحد بن جاتے ہیں۔ یورپی قرون وسطیٰ کی عدم برداشت، ظلم اور جہل پسندی کی طرف رجعت کا خیال انہیں مذہب کی ہر شکل سے خوف زدہ رکھتا ہے۔ اور اسے ہر اس تصور کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، جدیدیت کا عمل جن کا داعی ہے۔

مغرب عیسائیت کا نہیں عیش پرستی کا دفاع کرتا ہے

مغرب میں جہاں بھی مسلمان اپنے خاندانوں کی بڑھتی ہوئی شرح نمو کی بنا پر کثرت میں آئیں گے خود بخود معاشرے کا معیار زندگی گر جائے گا۔ مغرب بلاشبہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ان چیزوں کا اسیر ہو چکا ہے جن کی اسلام میں ممانعت ہے۔ مثلاً نکوٹین کی حامل اشیاء کا کثرت سے استعمال، الکوحل، پورنوگرافی، جنسی بے راہ روی، تند و تیز موسیقی، اسقاط حمل، اور ہم جنس پرستی ان کے لیے متبادل طرز زندگی کا لازمہ بن چکے ہیں۔ اس لحاظ سے اسلام ان کے لیے لطف و تلذذ کی سختی سے ممانعت کرنے والی کٹر مذہبیت کے طور پر خوف کی علامت ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ہماری دعوت کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ عیسائیت کے عقیدہ تثلیث کا دفاع کرتے ہیں، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ در حقیقت وہ لبالب جام شراب کے ساتھ سور کی چانپوں اور بغل میں گرل فرینڈ کا دفاع کرتے ہیں، اور ایسا پوری شد و مد کے ساتھ کرتے ہیں۔

ہمیں لادین مغرب کے ساتھ انہیں عیسائی سمجھ کر برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ اور تمام خرابیوں کی ذمہ داری عیسائیت کے سر نہیں ڈال دینی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ امریکی اصولاً اب بھی چرچ جاتے ہیں لیکن یورپ خطرناک حد تک عیسائیت کے دائرے سے نکل چکا ہے۔ خطرناک اس لیے کہ ایسے لوگوں کے درمیان دعوت کا کام کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو مغرب میں اپنے عیسائی پڑوسیوں کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں جو الحاد کے اس سمندر میں تیر رہی ہے جس کا حجم اور گہرائی بڑھتی جا رہی ہے۔ مسیحی مذہب پسندی اور پادری پہلے ہی اپنے شہری حقوق کی جنگ میں مسلمانوں کے بہترین اتحادی ہیں۔

اسلام، مغرب کی کمزوریوں کا تریاق

اسلام کو متعدد وجوہ کی بنا پر مغرب کی بیشتر کمزوریوں کا تریاق سمجھا جانا چاہیے۔ چنانچہ اسلام اکیسویں صدی میں راہ نما آئیڈیالوجی بن سکتا ہے لیکن بعض عوامل ایسے بھی ہیں جو مخالف سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مسلمان ابھی تک کسی بھی جگہ ایک حقیقی مسلم معاشی نظام قائم نہیں کر سکے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق جیسے فیصلہ کن مسائل پر بھی مسلمانوں کی پوزیشن ابھی تک ابہام کا شکار ہے۔ اور ان کے تعلیمی نظام کئی پہلوؤں سے اب تک دور وسطیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر مسلمانوں کا طرز عمل ان کی دعوت و تبلیغ کی کوششوں کے برعکس ہے۔ مغرب میں آکر بسنے والے بہت سے مسلمان خصوصاً وہ جو غیر تعلیم یافتہ ہیں اپنے عقیدے کو پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

قرآن کریم میں ان قدیم اقوام کی کہانیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں جنہوں نے نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکار کر دیا اور تنبیہات پر کان نہ دھرا۔ حتیٰ کہ ان کی تہذیبیں المناک انجام کو پہنچ گئیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم عصر مغربی دنیا بھی تباہی تک پہنچنے سے قبل اپنا راستہ تبدیل کرنے اور اسلامی طرز زندگی اختیار کرنے کا حوصلہ اور عزم پیدا نہ کر سکے۔ اگر ایسا ہوا تو حال ہی میں کمیونزم پر فتح پانے کے بعد مغرب پر بھی خود فراموشی کی ایک ایسی کیفیت طاری ہو جائے گی جس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter