دستوری اصلاحات اور دینی حلقوں کے خدشات

   
۱۸ مارچ ۲۰۱۰ء

دستوری اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی اپنا کام مکمل کرنے کے قریب ہے اور توقع ہے کہ اس کی تجاویز کا مسودہ چند روز تک پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ جب سے دستوری اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے کام شروع کیا ہے، اس کے سامنے مختلف نوع کی تجاویز پیش کی گئی ہیں اور کمیٹی ان تجاویز کی روشنی میں اپنی تجاویز اور سفارشات مرتب کر رہی ہے۔ اس وقت منظر پر سب سے زیادہ سترہویں دستوری ترمیم ہے، جس کے خاتمے پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری پارلیمنٹ سے اپنے سالانہ خطاب سے پہلے سترہویں ترمیم ختم کرنے کا اعلان کریں۔

دستورِ پاکستان پر عمومی تناظر میں نظر ثانی کے کام کی وجہ سے اور بھی بہت سے حلقوں نے اپنے اپنے مطالبات کمیٹی کے سامنے رکھے ہیں اور خاص طور پر وہ حلقے اس سلسلہ میں زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں جو ایک عرصہ سے دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں اور ان کی یہ خواہش اور کوشش دستور کے نفاذ کے بعد سے ہی مسلسل جاری ہے کہ کسی طرح دستور کی اسلامی دفعات کو ختم کر کے یا کم از کم غیر مؤثر بنا کر پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کو مجروح کیا جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر ریاست قرار دینے کی راہ ہموار کی جائے۔ لیکن پاکستان کی رائے عامہ اور خاص طور پر دینی حلقوں کے لیے یہ بات کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے متعدد اجتماعات میں رائے عامہ کے اس موقف کی ترجمانی کی گئی ہے کہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کو نہ چھیڑا جائے اور دستوری اصلاحات کی کمیٹی ایسی تجاویز کو اپنی سفارشات کا کسی صورت میں حصہ نہ بنائے، جن کا مقصد دستور کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانا ہو یا اسلامائزیشن کے لیے اب تک ہونے والے کام کو ریورس گیئر لگانا ہو۔

ملک کی رائے عامہ اور دینی حلقوں کے اس موقف کا تازہ ترین اظہار ”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت“ کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے اس مکتوب کی صورت میں ہوا ہے، جو انہوں نے حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین، قومی اسمبلی کی اسپیکر، وفاقی وزیر قانون اور تمام ارکانِ پارلیمنٹ کو بسترِ علالت سے ارسال کیا ہے اور جو اس سلسلہ میں ملک کے دینی حلقوں کے موقف اور جذبات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔ یہ مکتوب قارئین کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اس کے ساتھ حضرت خواجہ مدظلہ کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کی جائے۔ خط کا متن درج ذیل ہے:

”عزت مآب جناب فاروق ایچ نائیک صاحب چیئرمین سینٹ، جناب بابر اعوان صاحب وفاقی وزیر قانون، محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ اسپیکر قومی اسمبلی و دیگر جملہ اراکین پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بركاتہ

گزارش ہے کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور ان کی ختم نبوت کا یہ عقیدہ چودہ سو برس سے امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ دنیا کا ہر مسلمان اپنا ایمانی فریضہ سمجھتا ہے اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہنے کو باعثِ سعادت و نجات سمجھتا ہے۔

”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت“ مسلمانوں کے اسی اجماعی عقیدہ کے تحفظ اور ایمانی جذبات کی ترجمانی کے لیے گزشتہ ساٹھ برس سے وطنِ عزیز پاکستان اور دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں کو ان کے عقیدہ و ثقافت سے محروم کرنے اور فکری و تہذیبی انتشار کا شکار بنانے کے لیے استعماری قوتوں نے سازش کے تحت امت مسلمہ میں جو فتنے کھڑے کیے، ان میں ایک بڑا فتنہ قادیانیت کا ہے، جس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بقول نئی نبوت اور نئی وحی کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت و اطاعت کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے قادیانیت کی حقیقت کو جس علمی و فکری انداز میں دنیا کے سامنے آشکارا کیا ہے، اس سے اس سازش کے پس منظر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے، اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ اس مسئلہ پر علامہ اقبال کی خط و کتابت نے اس عظیم فتنے کے فکری، تہذیبی اور سماجی پس منظر کو علمی حلقوں کے سامنے طشت ازبام کر کے رکھ دیا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کے دینی و سیاسی حلقوں نے علامہ اقبالؒ کے انہی ارشادات اور توضیحات کی روشنی میں قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر معاشرتی درجہ دینے کی تحریک چلائی تھی، جو مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ۱۹۷۴ء میں اپنے منطقی نتیجے تک پہنچی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر نہ صرف ایک دیرینہ مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیا، بلکہ اس سے مفکر پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کو بھی تعبیر مل گئی۔ مگر قادیانیوں نے اس وقت سے اپنے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، پورے عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی اور دنیائے اسلام کے تمام مکاتب فکر کے علمی مراکز اور حلقوں کے متفقہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان تسلیم کرانے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کو ناکام بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے، جسے ان کے استعماری آقاؤں اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کی مخالف بین الاقوامی لابیوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور اسی پس منظر میں عالمی حلقوں کی طرف سے پاکستان پر

  1. قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں اسلام کا نام اور اصطلاحات و شعائر کے استعمال سے روکنے کے لیے دستوری و قانونی دفعات کے خاتمے،
  2. جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و عزت کے تحفظ کے قوانین کو غیر مؤثر بنانے،
  3. دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات بالخصوص قرارداد مقاصد میں ترامیم کرنے،
  4. حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ”اسلامی“ کا لفظ حذف کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ان حالات میں، جبکہ دستوری ترامیم کا نیا پیکیج پیش کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ ”دستوری ترامیم کمیٹی“ اخباری رپورٹ کے مطابق ۲۳ مارچ تک ترامیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے اسلامی دفعات کے بارے میں منفی مطالبات سامنے آ رہے ہیں، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سمیت ملک کے تمام دینی حلقوں کو تشویش ہے کہ نئی دستوری ترامیم کے ذریعہ خدانخواستہ دستور کی اسلامی دفعات، بالخصوص (۱) قرارداد مقاصد (۲) عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی دستوری دفعات اور (۳) تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو ختم یا غیر مؤثر کرنے کی کوئی منفی کوشش کامیاب نہ ہو جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری میں خود آنجناب کے جذبات بھی کسی دوسرے مسلمان سے کم نہیں ہیں اور آپ بھی ان امور پر ہماری طرح ہی عقیدہ و جذبات رکھتے ہیں، لیکن اپنے جماعتی اہداف اور مشن کے حوالہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس سلسلہ میں آنجناب کو یاددہانی کرانا اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اسی جذبہ کے تحت آپ کی خدمت میں یہ عریضہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمیں امید، بلکہ یقین ہے کہ آپ اپنا ملی و دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اس مسئلہ کو خصوصی توجہ اور ترجیحات سے نوازیں گے اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اور ناموس کے تحفظ میں بھرپور کردار ادا کر کے خود کو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شفقتوں اور شفاعت کا حق دار بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دیں اور دونوں جہانوں کی خوشیوں اور سعادتوں سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

والسلام
آپ کا مخلص
(مولانا) خواجہ خان محمد
امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت“
   
2016ء سے
Flag Counter