شاہ جی کی خدمت میں

   
۱۹ دسمبر ۲۰۰۹ء

پیر سید عطاء المؤمن شاہ بخاری ہمارے محترم بزرگوں میں سے ہیں، میں نے بحمد اللہ ان کا ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح احترام کیا ہے اور اب بھی ان کے بارے میں میرے جذبات یہی ہیں۔ ہم تعلیمی دور کے ساتھی بھی ہیں کہ کچھ عرصہ ہم دونوں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اکٹھے پڑھتے رہے ہیں اور اس دور کی باہمی محفلیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ وہ ان دنوں فالج کے حملہ کے بعد ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور انہوں نے احراری خطابت کی جس گھن گرج کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید تسلسل عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

میں نے ایک حالیہ مضمون میں سید عطاء المؤمن شاہ بخاری کی مساعی سے قائم ہونے والے دیوبندی جماعتوں کے ایک اتحاد ”مجلس عمل علماء اسلام پاکستان“ کا ذکر کیا ہے اور اس میں یہ گزارش کی ہے کہ یہ دیوبندی جماعتوں کا بہت بڑا اتحاد تھا، اس کے لیے مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری کی خدمات اور محنت کو کلیدی حیثیت حاصل تھی اور میں بھی ان مساعی میں ان کے ساتھ شریکِ کار تھا۔ والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کو اس کا امیر منتخب کیا گیا تھا، لیکن وہ اتحاد چل نہ سکا۔ اس کی وجہ میں نے یہ عرض کی کہ بعض دیوبندی جماعتوں کے لیے یہ اتحاد قابلِ قبول نہیں تھا اور باہمی تنازع اور کشمکش کی ایک فضا وجود میں آ رہی تھی، جس میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی شخصیت کو متنازعہ حیثیت میں دیکھنا مجھے پسند نہیں تھا، اس لیے میں خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے اس پیچھے ہٹنے کو میں نے یوں تعبیر کیا کہ ”اسے نہ چلنے دینے میں میرا دخل بھی تھا۔“ مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری نے ایک وضاحتی مضمون میں، جو قارئین کی نظر سے گزر چکا ہے، میرے اس موقف سے اختلاف کیا ہے اور اسے ”خلافِ واقعہ“ اور ”عذرِ گناہ بدتر از گناہ“ قرار دیا ہے۔

قارئین گواہ ہیں کہ محترم شاہ صاحب نے جس لب و لہجہ میں بات کی ہے، میں اس کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی یہ میرے بس کی بات ہے۔ اسے میری کمزوری سمجھ لیجیے کہ اختلاف بھی کرتا ہوں تو دوسرے فریق کے مکمل احترام کے ساتھ دھیمے لہجے میں بات کرتا ہوں اور ذات کی بجائے رائے سے اختلاف کرنے کا خوگر ہوں، اس لیے حضرت شاہ صاحب محترم کے لب و لہجہ اور اس کی گھن گرج پر صرف یہ شعر ان کی نذر کروں گا

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

البتہ دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ میرے موقف کو رد کرتے ہوئے شاہ صاحب خود اسی کی تائید فرما گئے ہیں، جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ان کا ارشاد گرامی ہے کہ

”مفتی محمد جمیل خان شہید کے ساتھ آپ نے جس اتحاد کا ذکر کیا ہے، یہ اجلاس اصل میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے بہیمانہ قتل پر احتجاج اور قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبہ کے سلسلہ میں منعقد ہوا تھا۔ گو اصولی طور پر یہ مطالبہ بھی مجلس عمل کے متفقہ پلیٹ فارم سے ہونا چاہیے تھا، مگر اس اتحاد کے انعقاد کی غرض کسی نئے محاذ کو تشکیل دینا نہیں تھا، صرف مطالبات منوانا مقصود تھا۔ مفتی محمد جمیل اور دوسرے لوگ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ہی سب کو اکٹھا کرنے کے متمنی تھے، جو نہ ماضی میں ہوا اور نہ مستقبل میں ہو گا۔“

”۔۔۔۔ سپاہ صحابہ کو اس اتحاد میں شامل کرانے کے لیے فقیر نے جو کوشش کی، اس میں کسی حد تک آپ بھی معاون رہے۔ ان کو شامل کرنے پر سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت نے کیا۔“

یہ ارشادات مولانا سید عطاء المؤمن بخاری کے ہیں اور اسی وضاحتی مضمون کا حصہ ہیں۔ ان کے پس منظر میں محترم شاہ صاحب کے مضمون کو دوبارہ پڑھ کر قارئین خود فیصلہ کریں کہ میں نے محاذ آرائی اور کشمکش کی جس فضا کے وجود میں آنے کا ذکر کیا ہے، اس میں خلاف واقعہ بات کون سی ہے؟

جہاں تک اسلام آباد کے اجتماع کا تعلق ہے، وہ بلاشبہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کے وحشیانہ قتل پر احتجاج کے حوالے سے ہوا تھا، جس کے لیے مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ نے سب سے زیادہ محنت کی تھی اور میں بھی اس میں اسے صرف احتجاجی اجتماع سمجھ کر ہی شریک ہوا تھا۔ اس اجلاس کے انعقاد میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا، ایک مدعو کے طور پر اس میں حاضری دی تھی، لیکن اجلاس کے دوران یہ بات نظر آ رہی تھی کہ یہ اجتماع ایک نئے اتحاد اور محاذ کے قیام کا عنوان بن رہا ہے، حتیٰ کہ اسے خود مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری نے بھی ”کاغذی علماء کونسل“ کا نام دیا ہے۔ میں نے وہیں خطرے کی بو سونگھ لی تھی اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو اس کشمکش سے الگ رکھنے کا تہیہ کر لیا تھا اور میں اس بات پر پوری طرح مطمئن ہوں کہ اس وقت کے حالات کے تناظر میں میرا یہ فیصلہ درست تھا۔

حضرت شاہ صاحب نے لاہور میں انسانی حقوق کے حوالے سے قائم ہونے والے ایک فورم کا بھی ذکر فرمایا ہے، جو مجلس احرار اسلام ہی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل چودھری ظفر اقبال ایڈووکیٹ کی سربراہی میں تشکیل پایا تھا اور اس کا کسی بھی حوالہ سے ”مجلس عمل علماء اسلام“ کے ساتھ کوئی تقابل نہیں تھا۔ وہ ایک این جی او طرز کا فورم تھا، جس کا مقصد انسانی حقوق کے حوالے سے عدالتوں میں تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں مقدمات کی پیروی کرنا اور اخباری پروپیگنڈے کا جواب دینا تھا۔ جسے محترم شاہ صاحب نے صرف اس لیے اپنا حریف تصور کر لیا کہ چودھری ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا تعلق مجلس احرار اسلام کے اس دھڑے نہیں تھا جس کی سربراہی مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری فرما رہے ہیں اور حضرت شاہ صاحب کے علم میں یہ بات ضرور ہو گی کہ جب میں نے ان سے مجلس احرار اسلام کے اس ملک گیر حلقے کو دیوبندی جماعتوں کے اتحاد یعنی ”مجلس عمل علماء اسلام“ میں شریک کرنے کی بات کی، جس کی قیادت ان کے بھائی پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کر رہے ہیں تو شاہ جی نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس لیے انسانی حقوق کے اس فورم کے خلاف غم و غصہ کی اصل وجہ ”مجلس عمل“ نہیں، کچھ اور ہے۔ میں شاید اس کا تذکرہ کہیں اور کبھی نہ کرتا، مگر شاہ صاحب کے ان ارشادات کے بعد اس کی وضاحت ضروری ہو گئی۔

”مجلس عمل علماء اسلام“ کے نہ چلنے کے اسباب میں ایک اہم سبب کی نشاندہی خود حضرت شاہ صاحب نے اس مضمون میں بھی اشارتاً فرما دی ہے کہ انہوں نے ازخود یہ طے کر لیا تھا کہ ”کل جماعتی مجلس عمل علماء اسلام“ کے قیام کے بعد اب جو کام بھی ہو، صرف مجلس عمل کے فورم سے ہو اور اس سے ہٹ کر کوئی کام کسی اور حوالہ سے نہ کیا جائے۔ یہ بات نہ اصولی طور پر درست تھی اور نہ ہی قابلِ عمل تھی، اس لیے کہ مجلس عمل میں شامل ہونے والی جماعتوں نے خود کو مجلس عمل میں تحلیل نہیں کیا تھا، بلکہ اپنا اپنا وجود اور پروگرام برقرار رکھتے ہوئے متحدہ محاذ کی صورت میں اس میں شمولیت کی تھی اور متحدہ محاذوں میں یہی ہوتا ہے کہ جو مشترکہ مقاصد طے پا جائیں، ان کے لیے وہ ایک دوسرے کی معاون ہوتی ہیں، لیکن وہ اپنے اپنے فورم پر اپنے جماعتی مقاصد اور پروگرام کے لیے کام کرنے میں بھی آزاد ہوتی ہیں۔

میں حضرت شاہ صاحب محترم کا ایک اور بات پر بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنے لب و لہجہ کے ساتھ میری اس بات کو سمجھنا دوستوں پر مزید آسان کر دیا ہے کہ میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی شخصیت کو ایک نئی کشمکش اور محاذ آرائی میں فریق بنانے کے عمل میں کیوں شریک نہیں ہوا اور خاموشی کے ساتھ کیوں پیچھے ہٹ گیا؟ کیوں کہ وہ بڑھاپے اور علالت میں اسی قسم کے لب و لہجے کے رحم و کرم پر ہوتے اور اسے بھی میری کمزوری سمجھ لیا جائے کہ اس کے تصور سے بھی میرے دل و دماغ پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

اگر ان گزارشات میں کوئی بات مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری کے لیے ناگواری کا باعث بنی ہو تو اس پر ان سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور پرجوش خطابت کے میدان کو زیادہ دیر تک گرم رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter