وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف قاضی کے اس اعلان پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے کہ قومی نصاب تعلیم سے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھانے کا مواد خارج کیا جا رہا ہے اس لیے کہ ان کے خیال میں بچوں کو نماز کا طریقہ سکھانا، والدین کی ذمہ داری ہے۔ متعدد دینی و سیاسی راہنماؤں نے اسے سیکولر ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ قومی نصاب تعلیم سے دینی تعلیمات کے حصے کو بتدریج خارج کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ایسا بیرونی اشاروں پر کیا جا رہا ہے، جبکہ بعض طالب علم تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف عوامی مظاہروں کا اہتمام کیا ہے۔ چند سال قبل قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم کے بارے میں بھی ہمیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وفاقی محتسب اعلیٰ نے حکومت کو ہدایت کی کہ سکولوں میں طلبہ اور طالبات کو ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کا اہتمام کیا جائے اور مڈل تک قرآن کریم ناظرہ پڑھا دیا جائے مگر وزارت تعلیم نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس ہدایت کو سرد خانے میں ڈال دیا چنانچہ اب تک اس کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ اس کے بعد مختلف سطح کے نصاب سے قرآن کریم کی جہاد سے تعلق رکھنے والی سورتوں اور آیات کو خارج کرنے کی کاروائی سامنے آئی اور اب نماز کا طریقہ سکھانے کا مواد نصاب سے خارج کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران گروہ اور طبقات ذہنی طور پر اس فلسفہ اور فکر کو قبول کر چکے ہیں کہ مذہبی معاملات کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور لوگوں کی دینی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اس لیے کہ قرآن کریم نے سورۃ الحج میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا ہے کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ اس لیے دینی امور کا معاشرے میں اہتمام ایک مسلمان حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مروجہ دستور میں بھی اسلامی تعلیمات کے فروغ اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنے کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم کے ارباب بست و کشاد سے گزارش ہے کہ اگر انہیں اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات پڑھنے کی توفیق نہیں ہے تو کم از کم اپنے ملک کے دستور پر ہی نظر ڈال لیں اور ایسی حرکتوں سے گریز کریں جو اسلام اور دستور دونوں سے انحراف کے مترادف ہیں۔