مدارس کے متعلق وزراء کے حوصلہ افزا تاثرات

   
۲۱ دسمبر ۲۰۱۵ء

وفاقی وزیر مذہبی امور اوقاف و حج سردار محمد یوسف گزشتہ روز جامعہ قاسمیہ کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ کے علاقائی مسئول مولانا قاری گلزار احمد قاسمی کی دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے، نیو سبزی منڈی میں جامعہ قاسمیہ کی نئی مسجد کا افتتاح کیا اور جامعہ قاسمیہ کے شعبۂ صحت عامہ کے تحت فری ڈسپنسری کے ’’برن یونٹ‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ سرکٹ ہاؤس میں امن ایوارڈز کی تقسیم کی تقریب میں بھی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ تقریب سے بین المذاہب امن کمیٹی کے چیئرمین مولانا قاری محمد سلیم زاہد، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا عبد المجید ہزاروی، اور قاری محمد جواد قاسمی نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ ڈویژنل و ضلعی افسران آرپی او جناب محمد طاہر، ڈی سی اور جناب محمد عامر جان (جو آج کل قائم مقام کمشنر بھی ہیں) اور سی پی او جناب محمد وقاص نذیر کو امن ایوارڈ کی شیلڈز دی گئیں، اور راقم الحروف کو بھی شیلڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر جامعہ قاسمیہ کے مہتمم مولانا قاری گلزار احمد قاسمی کو وفاقی وزیر مذہبی امور نے خصوصی شیلڈ دی۔

ایوارڈز کی اس تقسیم کا مقصد قیام امن میں ڈویژنل و ضلعی افسران کی حسن کارکردگی کو سراہنا اور علماء کرام کے تعاون، نیز انتظامیہ اور علماء کرام کے مابین تعاون کے خوشگوار ماحول پر خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ گوجرانوالہ میں قیام امن کے حوالہ سے علماء کرام اور انتظامیہ کے باہمی تعاون کی فضا بحمد اللہ تعالیٰ ہمیشہ خوشگوار رہی ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے درمیان افہام و تفہیم، رابطوں اور تعاون کو بھی ہر دور میں مثالی سمجھا گیا ہے جس کے رسمی اظہار کے لیے سرکٹ ہاؤس میں یہ تقریب منعقد ہوئی، اور وفاقی وزیر امور مذہبی امور سردار محمد یوسف نے اس سلسلہ میں انتظامیہ اور علماء کرام کو بطور خاص خراج تحسین پیش کیا۔

سردار صاحب محترم نے اس موقع پر مختلف قومی مسائل پر اظہار خیال کیا اور بطور خاص مدارس دینیہ کے حوالہ سے حوصلہ افزا گفتگو کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مدارس کو خواہ مخواہ دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے حالانکہ دینی مدارس دہشت گردی کی جنگ میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اگر مدارس میں پڑھنے والے کچھ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں تو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے والے بہت سے حضرات بھی دہشت گردی کے اس عمل کا حصہ ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کو بطور خاص دہشت گردی کے حوالہ سے طعن و اعتراض کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تعلیمی اصلاحات کو بھی خواہ مخواہ ’’مدرسہ ریفارمز‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت مدارس کے نظام کو بدلنا اور اس میں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ یہ مدرسہ ریفارمز نہیں بلکہ ’’ایجوکیشن ریفارمز‘‘ ہیں جن کا مقصد ملک کے تعلیمی نظام و نصاب کو بہتر بنانا ہے اور اس پروگرام میں سکول و کالج اور دینی مدارس دونوں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس ہمارا ہدف نہیں بلکہ ہمارے معاون ہیں اور ہم ان کی فلاح و ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔

وفاقی وزیر مذہبی امور کی زبان سے دینی مدارس کے بارے میں یہ حوصلہ افزا باتیں سن کر اگلے روز کے اخبارات میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے قومی اسمبلی سے خطاب کے اقتباسات بھی نظر سے گزرے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی دینی مدارس کو بند کرنے کی کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے۔

دینی مدارس کے خلاف عالمی طاقتیں، لابیاں اور میڈیا جس انداز میں منفی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی گزشتہ روز امریکی کانگریس کے بعض ارکان کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے پیش نظر ہمارے وزیر داخلہ اور وزیر مذہبی امور کے یہ اعلانات کسی حد تک اطمینان بخش ہیں کہ ہمارے حکمران دینی مدارس کے معاشرتی کردار سے آگاہ ہیں اور بین الاقوامی حلقوں کے ناروا دباؤ کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ وزارت داخلہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ جب بھی دینی مدارس کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے ان کے مثبت کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر داخلہ تھے، پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک تھے، اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ہیں تینوں نے اپنے اپنے دور میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے دینی مدارس کے تعلیمی کردار کو سراہا ہے اور دہشت گردی میں ان کے کردار کی نفی کی ہے جو مدارس کے حوالہ سے قومی اتفاق رائے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

آج کے کالم کے آخر میں لاہور پریس کلب کے حالیہ ناروا طرز عمل کا تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام ۱۹ دسمبر کو لاہور پریس کلب میں سیرت کانفرنس کا پروگرام طے پایا تھا، جس کے لیے مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے ۱۲ دسمبر کو پیشگی فیس جمع کرا کے ایک سے چار بجے دن کے لیے ہال کی بکنگ کرا لی تھی۔ دعوت نامے جاری کر دیے گئے تھے اور تمام رابطے مکمل ہو گئے تھے، مگر ۱۸ دسمبر کو مغرب کے بعد پریس کلب کے مینیجر جناب محمد سلیمان نے قاری جمیل الرحمٰن اختر کو بذریعہ فون آگاہ کیا کہ کسی اور ہنگامی پروگرام کی وجہ سے سیرت کانفرنس کے لیے ہال کی بکنگ منسوخ کر دی گئی ہے۔ تمام انتظامات اور روابط مکمل ہو جانے کے بعد سیرت کانفرنس کے لیے ہال کی بکنگ اچانک منسوخ کر دینے سے جو پریشانی ہو سکتی تھی، اس کے بیان کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ سیرت کانفرنس کو عین وقت پر ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا مسجد میں منتقل کرنا پڑا۔ یہ پروگرام ۱۹ دسمبر کو بعد نماز ظہر وہاں منعقد ہوا، جس میں مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا عبد الشکور حقانی اور راقم الحروف نے خطاب کیا، مگر سامعین اور مقررین کی ایک بڑی تعداد شرکت سے محروم رہ گئی۔ اگر لاہور پریس کلب کلیۃً مطلق العنان ادارہ نہیں ہے اور اس کا طرز عمل چیک کرنے کی کوئی اتھارٹی کہیں پائی جاتی ہے تو ہم اس سے اس صریح زیادتی پر نوٹس لینے کی درخواست کر رہے ہیں، لیکن کیا ہم کسی طرف سے جواب کی توقع کر سکتے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter