گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے سرکاری ملازمین کے لیے دفاتر میں نماز کی ادائیگی اور پابندی کے اہتمام کی سفارش کی تو ایک گونہ خوشی ہوئی کہ ملک میں عملاً نہ سہی، مگر سفارش اور تجویز کے درجہ میں تو ایک اسلامی ریاست کا تصور اعلیٰ حلقوں میں موجود ہے۔ کیونکہ نماز اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے اور امیر المومنین حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ
میں اپنے اہلکاروں کی کارکردگی کا جائزہ نماز کے حوالے سے لیا کرتا ہوں، اور یہ سمجھتا ہوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا حق پابندی سے ادا کرتا ہے وہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی اہتمام کرتا ہو گا، اور جسے اللہ تعالیٰ کے حق کی پرواہ نہیں ہے وہ لوگوں کے حقوق کا کب لحاظ رکھتا ہوگا۔
یہ امید نہیں تھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سادہ اور فطری سی سفارش بھی طنز و اعتراض کا نشانہ بنے گی۔ اور خیال تھا کہ سبھی حلقے اس سفارش کی تائید کریں گے جس میں بندوں کو اپنے مالک اور خالق کے سامنے جھکنے اور اس کی بندگی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ مگر لاہور سے شائع ہونے والے مسیحی ماہنامہ شاداب کا جولائی ۲۰۰۱ء کا شمارہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یار لوگوں کو اس پر بھی اعتراض ہے۔ جیسا کہ پروفیسر گلزار وفا چوہدری کی ایک آزاد نظم شاداب میں ’’افسوس‘‘ کے عنوان کے تحت (اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش سے متاثر ہو کر) کے بریکٹ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ اس کا پہلا بند یہ ہے کہ
علماء نے حکومت وقت کو فرمایا ہے
وہ ایسا قانون بنائے جس کے نفاذ سے
فرض نماز سے غافل انسانوں کے حق میں
شہری سہولتیں اور سرکاری نوکری ممنوعہ ہو جائے
جس کے بعد لمبی نظم میں کہا گیا ہے کہ علماء یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں پر زندگی کا دامن تنگ ہو جائے اور وہ بھوک اور مشکلات سے دوچار ہوں تاکہ وہ عبرت پکڑیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ سب کا رازق ہے، ان کا بھی جن کو علماء نے بہشت الاٹ کی ہے، اور ان کا بھی جن کو فقہاء نے دوزخ کے ایندھن کا نام دیا ہے۔ پھر نظم کا اختتام اس بند پر کیا گیا ہے:
علماء اور فقہاء افسوس
تمہاری ذات و صفات کی شاخ شاخ
اچھے آثار سے
پاک نوشتوں کے ادوار
سے آج کے دن تک
خالی تھی اور خالی ہے
ظاہر ہے کہ نظم میں علماء و فقہاء کی ان باتوں کو اظہارِ افسوس اور طنز و تعریض کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی سے گریز اور احکام و قوانین کی نافرمانی کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں ملنے والی سزا کا ذکر کرتے ہیں، اور بے نمازوں اور نافرمانوں کو خدا کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔ شاعر نے علماء اور فقہاء کے ان ارشادات پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کی بنیاد پر علماء و فقہاء کی ذات و صفات کو ’’پاک نوشتوں کے ادوار سے خالی‘‘ قرار دیا ہے۔
خدا جانے پروفیسر گلزار وفا چوہدری کے ہاں پاک نوشتوں کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ ورنہ وہ پاک نوشتے جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات پر مشتمل ہیں، ان میں تو وہی کچھ ہے جو علماء و فقہاء کہتے ہیں۔ اگر وفا چوہدری صاحب کو یقین نہ ہو تو برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی، انار کلی، لاہور کی ۱۹۵۶ء کی شائع کردہ اردو کی ’’کتاب مقدس‘‘ (بائیبل) میں احبار باب ۲۶ کی ان آیات کا مطالعہ کر لیں جن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ
- ’’تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو اس لیے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔‘‘
- ’’اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لیے بروقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہو گا اور میدان کے درخت پھلیں گے یہاں تک کہ انگور جمع کرنے کے وقت تک تم رہو گے اور جوتنے بونے کے وقت تک انگور جمع کرو گے اور پیٹ بھر کر اپنی روٹی کھایا کرو گے اور چین سے اپنے ملک میں بسے رہو گے اور میں ملک میں امن بخشوں گا اور تم سوؤ گے اور تم کو کوئی نہیں ڈرائے گا اور میں برے درندوں کو ملک سے نیست کروں گا اور تلوار تمہارے ملک میں نہیں چلے گی۔‘‘
- ’’لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری شریعت کو ترک کر دو اور تمہاری روحوں کو میرے فیصلوں سے نفرت ہو اور تم میرے سب حکموں پر عمل نہ کرو بلکہ میرے عہد کو توڑ دو تو میں بھی تمہارے ساتھ اس طرح پیش آؤں گا کہ دہشت اور تپ دق اور بخار کو تم پر مقرر کروں گا جو تمہاری آنکھوں کو چوپٹ کر دیں گے اور تمہاری جان کو گھلا دیں گے اور تمہارا بیج بونا فضول ہوگا کیونکہ تمہارے دشمن اس کی فصل کھائیں گے۔’’
- ’’اور میں خود بھی تمہارا مخالف ہو جاؤں گا اور تم اپنے دشمنوں کے آگے شکست کھاؤ گے اور جن کو تم میں سے عداوت ہے وہی تم پر حکمرانی کریں گے اور جب کوئی تم کو رگیدتا بھی نہ ہو گا تب بھی تم بھاگو گے۔‘‘
- ’’اور اگر تمہارا چال چلن میرے خلاف ہی رہے اور تم میرا کہا نہ مانو تو میں تمہارے گناہوں کے موافق تمہارے اوپر اور سات گنی بلائیں لاؤں گا اور جنگلی درندے تمہارے درمیان چھوڑ دوں گا جو تم کو بے اولاد کر دیں گے اور تمہارے چوپایوں کو نیست کر دیں گے اور تمہارا شمار گھٹا دیں گے اور تمہاری سڑکیں سونی پڑ جائیں گی۔‘‘
یہ بائیبل کی بیسیوں آیات میں سے صرف چند آیات بطور نمونہ نقل کی گئی ہیں تاکہ پروفیسر گلزار وفا چوہدری صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے علم میں یہ بات آئے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شریعت کے احکام کی خلاف ورزی پر سزا اور عذاب کی جو بات علماء اور فقہاء کرتے ہیں، وہ ان کی اپنی بات نہیں ہے، بلکہ انہی ’’پاک نوشتوں‘‘ کی صدائے باز گشت ہے جن کو پس پشت ڈال کر مسیحی رہنماؤں نے بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی قراردادوں پر صلیب کا نشان بنا کر انہیں گلے میں لٹکا لیا ہے۔ کیا گلزار وفا چوہدری صاحب مسلم علماء اور فقہاء سے بھی اسی ’’خود فریبی‘‘ کی توقع رکھتے ہیں؟