مواخذہ سے استثنا اور اسلامی تعلیمات

   
تاریخ : 
۱۹ مارچ ۲۰۱۲ء

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھنا آئین کے آرٹیکل ۶ کی خلاف ورزی ہوگی جس کی سزا موت ہے، اس لیے وہ توہینِ عدالت میں سزا پانے کو ترجیح دیں گے جو چھ ماہ قید ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی پی سے بے وفائی نہیں کریں گے اور اپنے ہی صدر کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔

سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ عجیب سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود وزیراعظم پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے مقدمات کے حوالے سے سوئس عدالت کو خط لکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور صدر کو آئینی طور پر حاصل مبینہ استثنا کو عنوان بناتے ہوئے اسے دستور کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سوئس عدالت کو خط لکھنا دستور کی اس شق کی خلافت ورزی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں دستوری ماہرین ہی کچھ کہہ سکتے ہیں اور خود سپریم کورٹ سے زیادہ دستور کے تقاضوں کو اور کون سمجھ سکتا ہے؟ اس لیے اس پہلو پر کچھ عرض کرنے کی بجائے ہم اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کے بارے میں گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کے سامنے اپنی پوزیشن کو صاف رکھنا اور شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے لوگوں کو مطمئن کرنا ایک اخلاقی تقاضا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و ہدایات کا منشا بھی ہے۔ کیونکہ کسی بھی معزز شخص کے لیے مناسب بات یہی ہوتی ہے کہ وہ جرم پر مواخذہ سے حاصل کسی استثنا کی آڑ لینے کی بجائے اصل جرم کے بارے میں اپنی پوزیشن صاف کرے کہ وہ مبینہ جرم اس سے سرزد ہوا ہے یا نہیں؟

جہاں تک اپنی پوزیشن کو لوگوں کی نظروں میں صاف رکھنے کا تعلق ہے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے کہ ’’اتقوا مواضع التہم‘‘ تہمت کے مقامات سے بچو اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ تہمت، الزام اور شک کا نشانہ بننے سے بچاؤ۔ خود آنحضرتؐ کا یہ واقعہ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ آپؐ ایک بار رمضان المبارک میں مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ کی اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ عشاء کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے آئیں اور ضروری بات چیت کے بعد جب واپس جانے لگیں تو حضورؐ انہیں رخصت کرنے کے لیے مسجد کے دروازے تک گئے جہاں دو حضرات نے ان دونوں کو کھڑے دیکھ لیا۔ نبی کریمؐ نے انہیں آواز دے کر بلایا اور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہؓ ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں تو نعوذ باللہ کسی اور بات کا وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں ہوگا مگر شیطان ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے، وہ تمہیں کسی بھی وسوسے کا شکار بنا سکتا ہے، اس لیے میں نے تمہیں بدگمانی کے امکان سے بچانے کے لیے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھی ہے کہ جس خاتون کو تم نے اندھیرے میں میرے ساتھ کھڑے دیکھا ہے وہ میری اپنی بیوی صفیہؓ ہے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی اور عمل مبارک میں ہم سب کے لیے یہ سبق اور ہدایت موجود ہے کہ کسی شک یا بدگمانی کا امکان نظر آنے پر اس سے بے پروا ہوجانا درست طرز عمل نہیں ہے بلکہ شک کے ماحول سے نکلنا اور اپنی پوزیشن کو واضح کرنا ہی سنت نبویؐ ہے۔

جرم کے مواخذے سے استثنا اور اس کا سہارا لینا بھی اسلامی تعلیمات اور جناب رسول اکرمؐ کی سنتِ مبارکہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب بنو مخزوم کی خاتون فاطمہؓ کے چوری کرنے پر اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا سے بچانے کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ نے حضورؐ سے اس خاتون کی سفارش کی تو آپؐ نے سخت غصے کا اظہار فرمایا اور حضرت اسامہؓ کو یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے معاملے میں سفارش کر رہے ہو؟ اس موقع پر جناب نبی اکرمؐ نے مسجد نبویؐ میں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم سے پہلی قوموں کی بربادی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ سوسائٹی کے بڑے لوگ جرم کرتے تھے تو انہیں سزا نہیں دی جاتی تھی لیکن عام اور غریب لوگ جرم کی سزا کے حقدار قرار پاتے تھے۔ اس لیے جرم پر مواخذہ اور اس کی سزا سے کسی بڑے سے بڑے شخص کے استثنا کو اسلامی تعلیمات میں جواز کا درجہ حاصل نہیں ہے۔

خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ ایک موقع پر رسول اکرمؐ نے اپنے ایک صحابی کے ننگے بدن پر کھجور کی ٹہنی سے ضرب لگائی تو اس کے جسم پر خراش آگئی۔ اس نے آنحضرتؐ سے بدلے کا تقاضا کیا تو کسی استثنا اور پروٹوکول کا سہارا لیے بغیر اسی مجلس میں آپؐ نے وہی کھجور کی ٹہنی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے کر اپنی کمر بدلے کے لیے اس کے آگے کر دی۔ حضرات خلفائے راشدینؓ کا طرز عمل بھی یہی رہا ہے کہ انہوں نے کسی مقدمہ میں مطلوب ہونے پر پروٹوکول یا استثنا کا حوالہ دینے کے بجائے خود کو عدالت کے حوالے کر دیا۔، امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قاضی شریح کی عدالت میں خود پیش ہونا ایک مشہور واقعہ ہے۔

پھر ’’چاہ یوسف کی صدا‘‘ کے مصنف جناب سید یوسف رضا گیلانی یقیناً اس بات سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کے سالہا سال جیل میں رہنے کے بعد جب عزیز مصر کی طرف سے انہیں رہا کر دینے کا حکم جاری ہوا اور سرکاری کارندے حضرت یوسف علیہ السلام کو رہا کرانے کے لیے جیل میں پہنچے تو قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام نے رہا ہونے سے انکار کر دیا۔ فرمایا کہ رہائی سے پہلے اس معاملہ میں میری پوزیشن صاف کرو جس کے الزام میں مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا، چنانچہ ان عورتوں کو طلب کیا گیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل میں ڈالنے کا سبب بننے والے کیس کی ازسرنو انکوائری ہوئی جس میں عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا نے واضح اعتراف کیا کہ اس معاملہ میں قصور اس کا تھا اور حضرت یوسفؑ بالکل بے قصور تھے، تب حضرت یوسفؑ نے جیل سے رہائی قبول کی۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی جرم پر مواخذے سے استثنا حاصل ہونے کی رٹ لگائے چلے جانا نہ تو اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ایسا کرنے والے حضرات دنیا کو پاکستان کے دستور کے بارے میں کوئی اچھا پیغام دے رہے ہیں۔ دنیا کے سامنے یہ بات بار بار دہرانا کہ دستور پاکستان کسی جرم پر مواخذہ کرنے کے بجائے بڑی شخصیات کے جرائم پر پردہ ڈالنے اور انہیں مواخذے سے بچانے میں معاون بنتا ہے، بہرحال کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter