میں ایک عرصہ سے دینی مدارس کے ارباب حل و عقد پر زور دے رہا ہوں کہ علماء کرام اور طلبہ کو دیگر معاصر مذاہب و ادیان کی موجودہ صورت حال اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے معاملات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ آج کے عالمی ماحول میں اپنے اردگرد تمام معاملات و ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے اسلام کی زیادہ بہتر طور پر ترجمانی کر سکیں۔
بحمد اللہ تعالیٰ اس طرف دینی مدارس کی توجہ مبذول ہو رہی ہے اور اس سلسلہ میں مجھے گزشتہ ہفتے کے دوران اس نوعیت کے دو پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔
جامعہ اسلامیہ کامونکی ضلع گوجرانوالہ میں مولانا عبد الرؤف فاروقی کی زیر نگرانی مطالعہ مذاہب کا ایک مرکز قائم کرنے کا گزشتہ دنوں اعلان ہوا تھا اور اس کے لیے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے نام سے موسوم ایک وسیع ہال بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مرکز نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور تیس اپریل اور یکم و دو مئی کو ”مطالعہ مسیحیت کورس“ کے عنوان سے تین روزہ تربیتی پروگرام کا انعقاد ہوا ہے، جس میں علماء کرام اور طلبہ کی دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت ہمارے تعلیمی و دینی حلقوں میں محسوس کی جا رہی ہے اور تعلیم و تربیت سے تعلق رکھنے والے ادارے اور شخصیات اس سمت پیش رفت کر رہی ہیں۔ یہ کورس بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوۃ اکیڈمی کے تعاون سے منعقد ہوا ہے اور تین روزہ سرگرمیوں اور ان کے نتائج کے حوالہ سے حوصلہ افزا حد تک کامیاب رہا ہے۔ کورس میں ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سے زیادہ علماء کرام اور طلبہ نے شرکت کی۔ مسلسل تین روز تک اس کی نشستیں ہوتی رہیں اور مندرجہ ذیل اربابِ دانش نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
- ڈاکٹر محمد فضل اکرم (دعوۃ اکیڈمی) مطالعہ مذاہب کا اصول و منہج اور مسیحیت کا تاریخی پس منظر
- ڈاکٹر محمد عبد اللہ (پنجاب یونیورسٹی) مسیحیت: عقائد و رسوم
- ڈاکٹر غلام علی خان (پنجاب یونیورسٹی) عقیدہ توحید و تثلیث اور مسیحیت کی تبشیری سرگرمیاں
- ڈاکٹر محمود حسن عارف (پنجاب یونیورسٹی) اناجیل کی اسنادی حیثیت اور اسلام اور دیگر مذاہب
- مولانا عبد الرؤف فاروقی (جامعہ اسلامیہ کامونکی) مطالعہ مسیحیت قرآنی مضامین کی روشنی میں
- مولانا مشتاق احمد (جامعہ عربیہ چنیوٹ) بائبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیش گوئیاں اور تضاداتِ بائبل۔
راقم الحروف کو پہلے دن کی دو نشستوں ظہر تا عصر اور مغرب تا عشاء میں ”اسلام اور مسیحیت کی موجودہ کشمکش“ کے عنوان سے تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ میں نے مجموعی طور پر کم و بیش اڑھائی گھنٹے کی گفتگو میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی باہمی کشمکش کے مختلف مراحل کا تعارفی انداز میں تذکرہ کیا اور کورس کے شرکاء کو بتایا کہ کس طرح ظہورِ اسلام کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشمکش کا آغاز ہو گیا تھا اور سلطنت روما کے ساتھ صدیوں تک جنگ، اسپین میں صلیبی جنگوں کا سلسلہ، مشرق وسطیٰ میں بیت المقدس کے حوالہ سے صلیبی جنگیں، مشرقی یورپ میں مسلسل تصادم، خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے یورپ کی مسیحی ریاستوں کی مہم اور مسلم ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کے نوآبادیاتی تسلط کے دوران مسیحیت کے فروغ کی جدوجہد اور آج کے دور میں مختلف مسلم ممالک میں مسیحی مشنریوں کی تبلیغی و تبشیری سرگرمیوں کی صورت حال کیا ہے، وغیرہ۔
کورس کے اختتام پر دو مئی کو ظہر کے بعد ایک خصوصی تقریب میں شرکاء کو دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کی طرف سے سرٹیفکیٹ اور کتابوں کے تحفے دیے گئے۔ کورس میں شریک بہت سے علماء کرام اور طلبہ کا خیال ہے کہ مختلف حوالوں سے ان کے سامنے پیش کی جانے والی بہت سی معلومات ان کے لیے بالکل نئی تھیں اور وہ اس سے قبل اس صورت حال سے قطعی طور پر بے خبر تھے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس قسم کے کورسز انتہائی ضروری ہیں اور دینی مدارس میں ان کا وقتاً فوقتاً اہتمام ہوتے رہنا چاہیے۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی نے کورس کے شرکاء کو جامعہ اسلامیہ سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ایک بڑے مسیحی مرکز کا دورہ بھی کرایا، جہاں ایک کالج، ہسپتال اور مسیحی کالونی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مسیحی اشاعتی ادارہ بھی مصروفِ کا رہے۔ مسیحی مرکز کے سربراہ فادر عمانویل عامی نے کورس کے شرکاء اور اساتذہ کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے مرکز اور سرگرمیوں کے بارے میں متعدد معلومات فراہم کیں۔
مجھے بحمد اللہ تعالیٰ اس کام میں مولانا عبد الرؤف فاروقی کے مشیر کی حیثیت سے شرکت کی سعادت حاصل ہے اور میری تجویز پر انہوں نے دو ماہ بعد ”یہودیت“ کے بارے میں بھی اسی طرح کے تربیتی کورس کے انعقاد کا پروگرام بنایا ہے۔
دوسرا پروگرام انہی دنوں جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا میں ہوا، جو مسلسل پانچ روز جاری رہا اور اس میں بھی علماء کرام اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد شریک رہی۔ اس کورس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تھا اور اس میں مسیحیت اور قادیانیت کے ساتھ ساتھ رفض و بدعت اور حنفیت کے مسائل بھی شامل تھے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب، مولانا منیر احمد صاحب، مولانا مفتی محمد انور صاحب، مولانا اللہ وسایا صاحب اور دیگر علماء کرام نے مختلف موضوعات پر کورس کے شرکاء کو ۔۔۔۔۔۔۔ آگاہ کیا۔ راقم الحروف کے ذمہ یہاں بھی دو نشستیں تھیں۔ چنانچہ تین مئی کو ظہر تا عصر اور پھر عصر تا مغرب میں نے تفصیلی گفتگو کی۔ یہاں میرا موضوع ”منکرینِ ختم نبوت کا تعارف“ تھا۔
میں نے ابتدا دورِ نبوت کے مدعیانِ نبوت سے کی اور شرکاء کورس کو بتایا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین اشخاص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یمامہ کا مسیلمہ کذاب، یمن کا اسود عنسی اور بنو اسد کا طلیحہ بن خویلد۔ ان تینوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ اول الذکر دونوں قتل ہو گئے، جبکہ طلیحہ شکست کھا کر روپوش ہوا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں دوبارہ ظاہر ہو کر اس نے توبہ کی اور ایک صالح مسلمان کے طور پر زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک عورت سجاح نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اور مسیلمہ کذاب کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوئی۔ بلکہ اس نے مسیلمہ سے شادی بھی کر لی، مگر مسیلمہ کی شکست اور قتل کے بعد روپوش ہو گئی ، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ظاہر ہوئی اور توبہ کر کے کوفہ میں آباد ہو گئی۔ جہاں اس نے ایک عابدہ اور صالحہ خاتون کے طور پر بقیہ زندگی گزاری اور اس کی وفات کے بعد حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔
اس کے بعد راقم الحروف نے دورِ حاضر کے ان گروہوں کا ذکر کیا جو ختم نبوت کے منکر ہیں، نئی نبوت اور وحی کے علمبردار ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں موجود و متحرک ہیں۔
- ان میں سب سے قدیمی گروہ ذکریوں کا ہے جو پاکستان میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں آباد ہیں اور گیارہویں صدی ہجری کے ایک شخص ملا محمد اٹکی کو نبی مانتے ہیں۔ وہ نماز کو منسوخ سمجھتے ہیں اور ہر سال ستائیس رمضان المبارک کو ضلع مکران کے علاقہ کوہ مراد میں جمع ہو کر ”مصنوعی حج “کرتے ہیں۔ یہ گروہ تقریباً ساڑھے چار سو برس سے چلا آ رہا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہے۔
- دوسرا گروہ بہائیوں کا ہے جس کے بانی مرزا محمد علی الباب نے انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں ایران میں وحی و الہام کا دعویٰ کیا۔ اس کے جانشین مرزا بہاء اللہ شیرازی نے نبوت کا اعلان کر دیا اور قرآن کریم کو نعوذ باللہ منسوخ ٹھہرا کر نئی وحی پیش کی۔ ان کا قبلہ فلسطین کا ایک شہر عکہ ہے اور بتایا جاتا ہے کہ فلسطین کے موجودہ صدر محمود عباس کا تعلق بھی اسی بہائی فرقہ سے ہے۔ یہ گروہ پاکستان میں موجود ہے اور مختلف شہروں میں ان کے درجنوں مراکز کام کر رہے ہیں۔
- تیسرا گروہ قادیانیوں کا ہے، جن سے پاکستان کے دینی حلقوں کو اکثر واسطہ رہتا ہے اور منکرین ختم نبوت کا یہی ایک ایسا گروہ ہے جس کے بارے میں ہمارے علماء کرام اور دینی کارکن کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے ہیں، ورنہ دیگر گروہوں کے بارے میں ہمارے علماء کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں کی غالب اکثریت کو ضروری تعارفی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔
- چوتھا گروہ امریکا کا ”نیشن آف اسلام“ ہے، جس کے بانی ایلیج محمد نے ۱۹۳۴ء میں نبوت کا دعویٰ کیا اور عجیب و غریب عقائد پیش کیے۔ اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ۱۹۳۰ء میں امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں ماسٹر فارد محمد نامی ایک شخص کے روپ میں ظاہر ہوا تھا اور چار سال لوگوں میں رہ کر ایلیج محمد کو اپنا نبی اور نمائندہ بنا کر واپس چلا گیا تھا۔ یہ گروہ امریکا کے سیاہ فام باشندوں میں اسلام کے نام پر کام کرتا ہے اور سیاہ فاموں کی نسلی برتری کا قائل ہے۔ یہ گروہ سفید فاموں کو شیطان کی نسل سے قرار دیتا ہے۔ اس گروہ کا لیڈر آج کل لوئیس فرخان ہے جو ایک مسلم امریکی لیڈر کے طور پر مختلف مسلم ممالک کے دورے کرتا رہتا ہے اور عالمی میڈیا میں اسے امریکی مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
راقم الحروف نے کورس کے شرکاء کو اس بات سے بھی مختصراً آگاہ کیا کہ قادیانی گروہ کس طرح عالمی فورموں میں رسائی حاصل کرتا ہے اور انسانی حقوق کے نام پر موجودہ بین الاقوامی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
جامعہ اسلامیہ کامونکی اور جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا کے یہ تربیتی کورسز میرے لیے انتہائی خوشی اور اطمینان کا باعث ہوئے ہیں، جو بلاشبہ میرے ایک بہت پرانے خواب کی تعبیر ہیں۔ یہ آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے واقف ہوں، عالمی ماحول اور رجحانات سے آگاہی حاصل کریں اور جن مذاہب سے ہمیں مسلسل واسطہ پڑتا رہتا ہے، ان کے بارے میں ہمیں بنیادی اور صحیح معلومات میسر ہوں۔ اس کے بغیر ہم اپنی دینی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے۔