(۱۱، ۲۱، ۳۱ نومبر کو شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبالؒ آڈیٹوریم میں ’’پاکستان میں مطالعۂ قرآن کریم کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر تین روزہ ’’قومی قرآن کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، مولانا زاہد الراشدی نے ۱۲ نومبر کو کانفرنس کی ایک نشست کی صدارت کی جبکہ ایک نشست میں پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی کی زیر صدارت ’’قرآن کریم کے حوالہ سے تخصصات کی ضرورت‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا، مولانا راشدی کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم کا بنیادی موضوع ہدایت ہے کہ وہ نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اس میں قیامت تک کے انسانوں کی راہنمائی اور ہدایت کا سامان موجود ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور مسلسل تغیر پذیر انسانی سوسائٹی کے ہر دور میں انسانی سوسائٹی کو قرآن کریم میں راہنمائی میسر آتی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ قرآن کریم کے سینکڑوں پہلوؤں پر مختلف ادوار میں اہل علم و دانش نے تحقیق و مطالعہ کی کاوشیں کی ہیں اور ہر دور میں اس وقت کے پیش آمدہ مسائل کے حوالہ سے قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کرنے پر محنت کی ہے۔ آج کے دور میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے اور انسانی سوسائٹی کے موجودہ ماحول میں درپیش مسائل و مشکلات کے بارے میں سینکڑوں ارباب علم و فضل دنیا کے مختلف حصوں میں مصروفِ مطالعہ و تحقیق ہیں۔ میں آج کی اس محفل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند اہم مسائل کی طرف ارباب علم و دانش کو توجہ دلانا چاہوں گا جن پر میری طالب علمانہ رائے میں زیادہ اہمیت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مغرب کے لادینی فلسفہ اور آزاد معاشرت کے تلخ نتائج میں سے ایک مسئلہ خاندانی نظام کے بکھر جانے کا ہے اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں رشتوں کے ختم ہو جانے اور خاندانی نظام کے منتشر ہو جانے کا ماتم کیا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ اس فلسفہ اور معاشرت کا منطقی نتیجہ ہے جس کا مذہب اور وحی آسمانی سے لاتعلقی بلکہ بیزاری کے ساتھ مغرب نے اب سے دو صدیاں قبل آغاز کیا تھا اور اس کے منفی ثمرات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود وہ نہ صرف اس پر بضد ہے بلکہ مشرقی دنیا اور امت مسلمہ سے اصرار کر رہا ہے کہ وہ بھی اس کو اختیار کر کے خاندان اور رشتوں کے دائروں سے محروم ہو جائے، یعنی اپنے خاندانی نظام کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد اب مغرب کی محنت اس بات پر ہے کہ مشرق اور اسلامی دنیا میں بھی خاندانی نظام کو بکھیر دیا جائے۔ ؎’’خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی دنیا کے جامعات اور دینی مراکز کو اسے موضوع بنا کر خاندانی نظام کی ان بنیادوں کو واضح کرنا چاہیے جو آسمانی تعلیمات اور قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں اور مغربی دنیا کو علم و تحقیق کے ذریعہ یہ بتانا چاہیے کہ اس کے خاندانی نظام کا موجودہ بگاڑ آسمانی تعلیمات سے انحراف کا لازمی نتیجہ ہے اور خاندان کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے آسمانی تعلیمات اور قرآن کریم کی طرف رجوع ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں معاشی نظام بالخصوص بینکاری سسٹم پر ہر جگہ اور ہر سطح پر بحث ہو رہی ہے اور نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ مغربی دنیا میں بھی غیر سودی بینکاری کی ضرورت اور فوائد کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس ماحول میں ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشی نظام کے قرآنی اصولوں اور غیر سودی بینکاری کی اسلامی صورتوں کو واضح کریں اور غیر سودی بینکاری کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا کو قرآن و سنت سے راہنمائی فراہم کریں۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ آج کی دنیا غیر سودی بینکاری کے معاشی فوائد کے حوالہ سے اسے عقیدہ کے بغیر اپنائے گی تو یہ بھی مفادات اور مالی منفعت کے حصول کا ایک میدان بن کر رہ جائے گا، مسلم دنیا کے علماء کرام اور معاشی ماہرین کو اس پر نظر رکھنی چاہیے اور اسے صحیح رُخ پر لانے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ مغربی دنیا میں قبول اسلام کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ ایک معروف نو مسلم ڈاکٹر یحییٰ برٹ نے اس موضوع پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں بتایا ہے کہ اس قبولِ اسلام کی بڑی وجہ قرآن کریم ہے کہ جس شخص کی کسی نہ کسی حوالہ سے قرآن کریم تک رسائی ہو جاتی ہے اس کے لیے قبولِ اسلام کے بغیر کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ یہ بھی ہماری دینی اور علمی ذمہ داری ہے کہ مغربی دنیا کے روحانی، نفسیاتی اور معاشرتی ماحول کو سمجھتے ہوئے اسے قرآن کریم کی طرف رجوع کی دعوت دیں اور اس کے معاشرتی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے قرآن کریم کو تحقیق و مطالعہ کا موضوع بنا کر راہنمائی کا اہتمام کریں۔
چوتھی گزارش یہ ہے کہ چند سال قبل نیویارک سٹی پولیس کے ایک آفیسر نے قبولِ اسلام کے بعد اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ انسانی زندگی کے معاشرتی مسائل کو جس طرح فطری انداز میں قرآن کریم بیان کرتا ہے اس نے اسے متاثر کیا ہے اور وہی اس کے قبولِ اسلام کا باعث بنا ہے۔ انسانی زندگی کے آج کے معاشرتی مسائل کیا ہیں؟ انسانی سوسائٹی کی انفرادی اور اجتماعی نفسیاتی الجھنیں کیا ہیں؟ اور قرآن کریم ان میں کیا راہنمائی کرتا ہے؟ اس پر علمی اور تحقیقی کام ہونا چاہیے اور اس میں تخصصات کے موضوعات تلاش کیے جانے چاہئیں۔
اس کے علاوہ اور موضوعات بھی ہیں جو قرآن کریم کے حوالہ سے تخصصات کے مختلف پہلوؤں اور ان کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن میں ایک بات عمومی طور پر کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ دو تین صدیوں سے علمی دنیا کی صورتحال یہ ہے کہ مغرب کی استشراقی تحریک کی فکری، علمی اور تہذیبی یلغار میں ہم مسلمان مسلسل دفاع کے مورچے پر کھڑے ہیں اور اس کے اعتراضات کے جوابات دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ اس صورتحال کو بدلا جائے اور ہم دفاع کی پوزیشن سے اقدام کے رُخ پر آئیں۔ ایک عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ’’استشراق‘‘ کی مغربی تحریک کی طرح مشرق اور عالمِ اسلام میں ’’استغراب‘‘ کی تحریک منظم کی جائے، مغرب نے لادینی فلسفہ و تہذیب کے ذریعے جو گمراہیاں اور معاشرتی تباہیاں پھیلائی ہیں ان کی نشاندہی کر کے دنیا کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ اور مغرب پر واضح کیا جائے کہ وہ ’’عقل کل‘‘ نہیں ہے بلکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی آج کے دور میں بھی انسانی معاشرت کے مسائل و مشکلات کے حل کی کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرے خیال میں ہمارا آج کا دور دفاع کا نہیں اقدام کا ہے اور ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اقدام اور پیشرفت کر کے مغربی فلسفہ و نظام کے کھوکھلے پن اور اسلامی شریعت کی جامعیت و کمال کو دلیل اور برہان کے ساتھ دنیا سے منوا سکیں، مگر اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہمارے جامعات اور دینی علمی مراکز سنجیدگی اختیار کریں اور مرعوبیت و دفاع کے ماحول سے نکل کر اپنے اساتذہ اور طلبہ کو اقدام اور پیش قدمی کے لیے تیار کریں۔ قرآن کریم کل کی طرح آج بھی نسل انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام ہے اور اس میں ہدایت اور راہنمائی موجود ہے اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوں تو نسل انسانی کی فلاح و کامیابی اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔