روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۲ اگست ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں پر مشتمل ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ نے دینی مدارس اور مساجد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چھاپوں اور سرچ آپریشنز کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجی مہم منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں بھرپور کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے ایک مشترکہ اجلاس میں کیا گیا ہے جو مولانا مفتی منیب الرحمٰن کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں طے کیا گیا کہ کنونشن اتحادِ تنظیمات کی طرف سے ہوں گے اور ان میں خطاب کے لیے متحدہ مجلسِ عمل کے راہنماؤں کو دعوت دی جائے گی۔ اس سے قبل کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے اعلان کیا ہے کہ دینی مدارس کے خلاف جو آپریشن جاری ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے اور ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم عوام کو اعتماد میں لیں اور دینی مدارس کی آزادی اور کردار کے تحفظ کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق استعمال کریں۔
ادھر اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں دینی مدارس پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے اور فیصل آباد میں ایک دینی درسگاہ کے استاذ قاری نور محمد گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر پولیس تشدد کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ جس کے بعد ملک بھر میں دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ پر عدمِ تحفظ کے شدید احساس کی کیفیت طاری ہے۔ اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کا کوئی مدرسہ، مسجد، استاذ اور طالب علم اس بات سے محفوظ نہیں رہا کہ قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے جس کو جس وقت چاہیں اٹھا لیں اور القاعدہ کے کسی فرد سے تعلق کے نام پر اسے تشدد کا نشانہ بنائیں اور بالآخر اسے موت کے گھاٹ اتار دیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ دراصل اس وسیع تر عالمی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے دینی مدارس کو ان کے اس آزادانہ کردار سے روکنا ہے جو وہ اس معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی عقائد اور ثقافت کے تحفظ کے لیے سرانجام دے رہے ہیں۔ پہلے اس مقصد کے لیے دینی مدارس کو مالی امداد، سرکاری سرپرستی اور مراعات کا لالچ دے کر کنٹرول میں لینے کی کوشش کی گئی، لیکن جب تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں نے متحد ہو کر اس لالچ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو اب مختلف حیلوں بہانوں سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دینی مدارس کے خلاف اس چھاپہ مار مہم کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان مدارس میں تشدد کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور القاعدہ کے ارکان کو ان میں پناہ ملتی ہے۔ حالانکہ اب تک کی کاروائیوں سے یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ ملک میں کسی ایسے مدرسہ کی اب تک نشاندہی نہیں کی جا سکی جس میں اسلحہ کی ٹریننگ دی جاتی ہو اور لڑنا بھڑنا سکھایا جاتا ہو۔ اس کے برعکس یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ملک بھر کے ہزاروں نوجوانوں نے گزشتہ بیس برس کے دوران جن کیمپوں میں اسلحہ چلانے اور لڑنے بھڑنے کی ٹریننگ حاصل کی ہے وہ دینی مدارس کے قائم کردہ نہیں بلکہ انہی اداروں اور ایجنسیوں کے بنائے ہوئے تھے جو آج اس بات کا دینی مدارس کو موردِ الزام ٹھہرا کر ان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
اسی طرح ملک بھر میں دینی مدارس کی وسیع پیمانے پر چھان بین اور چھاپوں کے باوجود القاعدہ کے کسی رکن کو کسی مدرسہ میں تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اس طرح دینی مدارس کے خلاف کاروائیاں کرنے والے اداروں اور افراد کو خود بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں الزامات میں قطعی طور پر وزن نہیں ہے، اور یہ کاروائیاں صرف اور صرف امریکہ کے دباؤ پر اس کے ریکارڈ میں اپنے نمبر بنانے اور بڑھانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
ان حالات میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کی قیادت نے دینی مدارس کے آزادانہ کردار کے تحفظ کے لیے رائے عامہ کو منظم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن اس تحریک کو منظم طور پر آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اور تمام شہری اور دستوری حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے اس جدوجہد کو مربوط اور منظم انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ اور رائے عامہ کی مضبوط قوت کے ساتھ حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی پالیسی اور طرزعمل پر نظرثانی کرے اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ملک میں دینی تعلیم کے اس مربوط نظام کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔