تحریک ختم نبوت کی چند یادیں

   
۲۰۱۶ء، ۲۰۱۷ء

چند سال قبل الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی دو تین نشستوں میں تحریک ختم نبوت کے حوالے سے اپنی ذاتی یادداشتیں بیان کرنے کا موقع ملا تھا جنہیں مولانا حافظ کامران حیدر نے ضبط و تحریر کیا ، یہ معروضات ضروری اصلاح و ترمیم کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میری یادداشتوں کے حوالے سے ایک شعبہ تحریک ختم نبوت کا بھی ہے۔ ختم نبوت کی تحریک میں کچھ نہ کچھ حصہ لیتا رہا ہوں۔ تحریک ختم نبوت کے ساتھ میرا تعلق کب ہوا، کن کن مراحل سے گزرا اس کا کچھ خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا۔ قادیانیوں کو پاکستان بننے کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک تحریک ۱۹۵۳ء میں چلی تھی۔ اس وقت میری عمر پانچ سال تھی، مگر اس دور کی چند جھلکیاں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے گلیوں میں ٹولیوں کی شکل میں نعرے لگایا کرتے تھے جو ٹھیٹھ پنجابی کے ہوتے تھے۔ ہم یہ نعرہ بھی لگایا کرتے تھے: خواجہ ناجا ہائے ہائے۔ خواجہ ناظم الدین کا دور تھا، ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیوں نعرے لگا رہے ہیں، لیکن یہ میری تحریک ختم نبوت میں پہلی شمولیت ہے۔

۱۹۵۳ء کی تحریک میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی گرفتاری کا منظر مجھے یاد ہے، صبح حضرت والد محترمؒ نے مسجد میں نماز پڑھائی، درس دیا اور گھر آکر ناشتہ کیا، اس دن گھر میں حلوہ پکا تھا، پھر بستر باندھا اور پولیس چوکی میں جا کر گرفتاری کے لیے خود کو پیش کرنے کی تیاری کی۔ ایک طالب علم جن کا نام شاید عزیز الرحمٰن تھا، اب فوت ہو چکے ہیں، انہوں نے والد صاحبؒ کا سامان اور بستر اٹھایا اور حضرت والد محترمؒ گھر کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ ان کا سیڑھیوں سے اترنے کا منظر ابھی تک میرے حافظے میں نقش ہے۔ وہ ملتان کی بورسٹل جیل میں تقریباً دس ماہ رہے، اس دوران میرے نانا محترم مولوی محمد اکبرؒ جو گوجرانوالہ میں تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے عقب میں بستی کی مسجد میں امام تھے، کبھی کبھی ملتان جاتے، والد صاحبؒ کا حال معلوم کرتے، ضرورت کا سامان پہنچاتے اور پھر واپس آکر گکھڑ تشریف لاتے اور ہمیں ان کے حالات سے آگاہ کرتے۔ اسی دوران ہماری رہائش تبدیل ہوئی اور ہم بٹ دری فیکٹری کے چوبارے سے ٹھیکیداراں والی مسجد کی گلی میں کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہوگئے۔

والد صاحبؒ کی جیل سے واپسی کا منظر بھی مجھے یاد ہے۔ ایک بزرگ جن کے خاندان کا ہمارے خاندان کے ساتھ گہرا تعلق تھا، حاجی اقبال صاحب تھے، اس زمانے میں محمد یعقوب کے نام سے معروف تھے، اقبال نام بعد میں اختیار کیا ہے، ان کی والدہ مرحومہ کے ساتھ ہمارا بڑا گہرا گھر کا تعلق تھا۔ ہم انہیں نانی جی کہا کرتے تھے۔ اصل میں ان کو آپا جی درس والے کہتے تھے، ان کے گھر میں بچیوں کے قرآن مجید کا درس ہوتا تھا اور والدہ مرحومہ کا ان سے گہرا تعلق تھا۔ وہ شفیق بزرگ خاتون تھیں، ہم انہیں نانی کا پروٹوکول دیتے تھے اور ان کے بیٹے کو ہم ماموں یعقوب کہا کرتے تھے، وہ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ مولوی صاحب رہا ہو کر آگئے ہیں، ہم بچے دوڑے دوڑے سڑک کی طرف بھاگے اور راستہ میں حضرت والد صاحبؒ سے ملے، انہوں نے ہمیں سینے سے لگا کر پیار کیا۔ والد صاحب کو لینے حاجی اقبال صاحب کے ساتھ میں بھی اڈے پر گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی آمد فوری اور اچانک ہوئی تھی، خطوط اور ٹیلی فون کا دور نہ تھا، اس لیے جی ٹی روڈ پر نور الٰہی مرحوم کی پکوڑوں کی دکان سے جلدی جلدی پکوڑے لا کر انہیں کھانا کھلایا گیا۔ اس طرح ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے یہ چند مناظر میرے ذہن میں محفوظ رہ گئے ہیں۔

تحریک ختم نبوت میں میرا دوسرا مرحلہ وہ ہے جب میں نے بچپن میں ہی قادیانیت اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف تقریر کرنا شروع کر دی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے استاد محترم قاری محمد انور صاحب کے دل میں اللہ پاک نے یہ بات ڈالی تھی اور ان کا ذوق یہ تھا کہ کچھ باتیں یاد کرا کے مجھ سے کلاس میں تقریر کروایا کرتے۔ کچھ جملے یاد کرا کے کہا کرتے تھے مولوی! تقریر کرو۔ مجھے مولوی کہا کرتے تھے، انہوں نے ہی مجھے تقریر کی مشق کرائی۔ میں جو تھوڑی بہت تقریر کر لیتا ہوں اس کے پیچھے قاری صاحب کی محنت ہے۔ ابتدائی تیاری مجھے انہوں نے کرائی۔ آپؒ گکھڑ میں ہر سال جلسہ کرایا کرتے تھے اور اس میں اپنے استاد محترم حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ کو دعوت دیتے۔ شاہ صاحبؒ بڑے قاری اور بڑے خطیب تھے، وہ تشریف لاتے تھے اور ان کی تقریر ہوا کرتی تھی۔ ایک جلسہ میں قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ کی تقریر تھی، استاد محترم نے پہلے مجھے فرمایا مولوی تقریر کرو ۔ میں نے اس پبلک جلسہ میں تقریر کی۔ مائیک پر کھڑا ہوا تو میں نے تقریر میں مرزا قادیانی کے خلاف نعرے اور گالیاں شروع کر دیں۔ والد صاحبؒ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، اٹھے، مجھے پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور مائیک پر کھڑے ہو کر کہا کہ بچہ ہے ، ایسی باتیں کر گیا ہے، میں اس پر معذرت خواہ ہوں، ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، اور مجھے گھر آ کر ڈانٹا کہ بیٹا! ایسی باتیں نہیں کرتے، ادب اور اخلاق سے بات کرتے ہیں ، گالیاں نہیں دیا کرتے ۔

اس کے بعد تحریک ختم نبوت میں میرا تعلق یوں ہوا کہ جب میں گوجرانوالہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں آیا تو غالباً‌ ۱۹۶۴ء میں ختم نبوت کا پندرہ دن کا کورس کیا۔ وہ کورس حضرت مولانا محمد حیاتؒ نے کروایا تھا، ان کا لقب فاتحِ قادیاں تھا، اس حوالے سے کہ انہوں نے قادیان میں بیٹھ کر ان مشکل حالات میں قادیانیوں کے خلاف بہت کام کیا۔ مرزا بشیر الدین کے دور میں وہاں احرار کا دفتر بنایا، ان سے مناظرے کیے۔ حضرت مولانا محمد حیاتؒ ختم نبوت کے حوالے سے میرے پہلے باضابطہ استاد ہیں۔ آپؒ دراصل شکرگڑھ کے قریب کسی گاؤں کے تھے، بہت سادہ بزرگ تھے، انہیں دیکھ کر یہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ بڑے عالم ہیں، ان کی داڑھی اُگی ہی نہیں تھی۔ ان کی سادگی کی دو تین باتیں عرض کرتا ہوں۔

ختم نبوت کو منظم کرنے میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی ہمت، بصیرت اور جدوجہد کارفرما تھی، وہ یہ ادارہ بنا گئے، اللہ پاک انہیں جزائے خیر سے نوازیں۔ وہ مبلغین کو تنخواہ اور خرچہ دیتے تھے لیکن ساتھ رسید بک بھی دیتے تھے کہ چندہ لانا ہے۔ مولانا محمد حیات صاحبؒ بھی ختم نبوت کے مبلغ تھے اور حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کے معاصر تھے ۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے بے تکلفی سے فرمانے لگے محمد علی کے کام دیکھو کہ مجھے رسید بک پکڑا دی ہے کہ چندہ جمع کر کے لانا ہے۔ میں کہاں سے چندہ جمع کر کے لاؤں ، میرا تو مزاج ہی نہیں ہے۔ بعض بزرگوں کا یہ مزاج نہیں ہوتا۔ حضرت والد صاحبؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کا یہ مزاج بالکل نہیں تھا۔ والد صاحبؒ کہا کرتے تھے کہ مجھے جمعہ کی تقریر میں کہنا پڑ جائے کہ مسجد ، مدرسہ کی فلاں ضرورت ہے تو مجھے خطبہ بھول جاتا ہے۔ میں نے مولانا محمد حیات صاحبؒ سے کہا کہ رسید بک مجھے دیں، میں نے گکھڑ میں اپنے کوئی دوستوں سے کہہ کہلوا کر سولہ یا سترہ روپے جمع کیے۔ اس زمانے میں سولہ سترہ روپے خاصی رقم ہوتی تھی۔ اس وقت دودھ ایک روپے کا دو کلو ہوتا تھا اس سے اندازہ کر لیں۔ میں نے دو تین دن بعد جا کر پیش کیے تو فرمانے لگے اللہ تیرا بھلا کرے اور بے تکلفی سے کہا میں یہ محمد علی کو دوں گا کہ یہ لو چندہ، میں بھی لے آیا ہوں۔

یہ سادگی تھی، لیکن علم کا پہاڑ تھے، آپؒ بڑے فاضل، صاحبِ استعداد عالم تھے، قادیانیوں کے خلاف سب سے بڑے مناظر تھے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ وغیرہ سب ان کے شاگرد ہیں۔ وہ استاد المناظرین تھے۔ بات دھیمی دھیمی کرتے تھے اور ایسے جکڑتے تھے کہ آدمی پھڑپھڑا کر رہ جاتا تھا، سخت اور گرم بات نہیں کرتے تھے۔ یہ ان کی گفتگو کا اصول تھا ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتے تھے لیکن گرفت اتنی مضبوط ہوتی تھی کہ مخالف مناظر ان کی گرفت سے نکل نہیں سکتا تھا۔ گفتگو میں تانے بانے بنا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ لفظوں کے تانے بانے بن کر سامنے والے آدمی کو پھنسا لیتے ہیں۔ سیاسی طور پر ماسٹر تاج الدین انصاری مرحوم کی تقریر بھی میٹھی میٹھی، دھیمی دھیمی ہوتی تھی، ٹیبل ٹاک میں بھی ان سے زیادہ ماہر احرار میں کوئی نہیں تھا، ان کی گرفت سے بھی کوئی آدمی نہیں نکل سکتا تھا۔ اور مذہبی طور پر یہی حال مولانا محمد حیات صاحبؒ کا تھا کہ میٹھی میٹھی بات کرتے لیکن دلیل کے ساتھ۔

انتہائی سادہ بزرگ تھے، ان کی سادگی کی بات دیکھیں۔ سچی بات ہے یہ واقعہ آج بھی یاد کرتا ہوں تو مجھے رو نا آ جاتا ہے ۔ مولانا محمد حیات ؒ ایک دن گکھڑ ہمارے گھر تشریف لائے، میں شام کا کھانا لے کر آیا، دو سالن تھے، ایک گوشت اور دوسرا دال وغیرہ۔ میں نے دستر خوان پر کھانا رکھا تو دیکھ کر فرمانے لگے مولوی کے گھر دو سالن، اتنی فضول خرچی۔ ایک اٹھا لو، ورنہ میں اٹھا دوں گا۔ میں نے جلدی سے دال کا سالن اٹھا لیا۔ دسترخوان پہ دو سالن ان کے نزدیک فضول خرچی تھی۔ ہم تو ایک سالن کا دسترخوان چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ یہ کیا دعوت ہوئی۔ سچی بات ہے یہ چند بزرگ تھے جن کی محنت اور خلوص کا پھل ہم کھا رہے ہیں۔ محنت ان کی ہے، قربانیاں ان کی ہیں، اس کا پھل ہم کھا رہے ہیں اور ان کے نام پر عزت پا رہے ہیں۔ یہ سب ان کی برکات ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اللہ پاک ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں۔

میں نے مولانا محمد حیات صاحبؒ کے پاس گوجرانوالہ ختم نبوت کے دفتر میں ختم نبوت کورس کیا ۔ آپؒ روزانہ کم و بیش دو گھنٹے پڑھاتے تھے۔ میں مدرسے سے آ کر پڑھا کرتا تھا۔ وہ میرا کافیہ کا سال تھا ۔ اس کورس میں انہوں نے حیاتِ عیسیٰؑ ، صدق و کذبِ مرزا اور ختم نبوت پر دلائل اور مناظرے کے اصول سمجھائے۔ کورس میں شہر کے مختلف مدارس کے طلبہ و علماء شریک تھے۔ اس کی بہت سی باتیں ابھی مجھے یاد ہیں۔ والد صاحب ؒ کی طرح حضرت مولانا حیات صاحبؒ بھی ادب سے بات کر نے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔ بعض لوگ ان سے غصے ہوتے تھے کہ آپ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، یہ کیا بات ہوئی۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ جس کا بھی نام لو، اخلاق سے لو۔ اسی کلاس کے دوران مولانا حیات صاحبؒ نے دلائل پڑھائے اور مجھے کہا کہ اٹھ کر بیان کرو کیا پڑھا ہے؟ میں کھڑا ہوا اور اور یوں بات کی کہ مرزا ۔۔ ہے، انہوں نے مجھے ٹوک دیا اور پیار سے سمجھایا کہ بیٹا! ایسے نہیں کہتے ۔ وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے ۔ کہو مرزا صاحب یوں کہتے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے۔ میں اس کلاس کا باقاعدہ طالب علم تھا۔ یہ میرا اس محاذ سے عملی تعلق ہوا۔

۱۹۶۷ء ، ۱۹۶۸ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ ایوب خان کا زمانہ تھا ۔اس زمانے کا عمومی ماحول یہ تھا کہ اگر کسی جلسے، اجتماع یا تقریر میں قادیانیت کا نام لے کر بات کہہ دیتے تو مقدمہ ہو جاتا تھا پھر گرفتاری ہو جاتی تھی کہ قادیانیوں کا نام کیوں لیا ہے۔ جلسے اور اجتماع میں قادیانیوں کا نام لے کر تردید کرنا جرم سمجھا جاتا تھا۔ اس پر مقدمات ہو جاتے تھے ، گرفتاری ہو جاتی تھی۔ میں نے خود دو تین مقدمے بھگتے ہیں کہ قادیانیوں کا نام لے کر ان کے خلاف بات کیوں کی ہے۔ گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے میاں منظور الحسن ؒ عام طور پر ہمارے وکیل ہوتے تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ ختم نبوت کا کیس خود لڑتے تھے اور بلا فیس لڑتے تھے۔ ایک ہمارے دوست ارشد میر وکیل ہوتے تھے اور صدر رفیق تارڑ صاحب بھی گوجرانوالہ بار میں رہے ہیں ۔ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی کیس بھی ہوتا یہ تینوں حضرات ہر وقت حاضر ہوتے تھے، بلا فیس کیس لڑتے تھے، خرچہ جیب سے کرتے تھے کہ ختم نبوت کا کیس ہے۔

ایک اور لطیفہ مجھے یاد آگیا ہے ذکر کر دیتا ہوں۔ جب یحییٰ خان نے مارشل لاء لگایا تو مولانا عبدالقیوم ہزارویؒ جو ہمارے استاد تھے اور پونڈاں والے جامعہ فاروقیہ میں خطیب ہوا کرتے تھے، بڑے غضب کے پرجوش مقرر تھے، انہوں نے جمعہ پڑھا یا اور ختم نبوت پر تقریر کی اور قادیانیوں کو خوب رگڑا۔ شام کو مارشل لاء کے تحت گرفتار ہوگئے۔ نیا نیا مارشل لاء لگا تھا، آپ گرفتار ہوئے اور جیل میں چلے گئے۔ حضرت مولانا عبدالواحد صاحبؒ نے ساتھی بلائے اور مشورہ کیا کہ مسئلہ الجھن والا ہو گیا ہے۔ مولوی صاحب نے جلد بازی کر دی ہے، نیا نیا مارشل لاء لگا ہے اور نیا تھانے دار اپنے آپ کو دکھایا کرتا ہے، اس نے انہیں جیل میں ڈال دیا ہے۔ اب مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ اگلا جمعہ اس مسجد میں جو پڑھائے گا وہ اگر ختم نبوت کی بات نہیں کرے گا تو یہ ہمارا اعتراف شکست ہوگا کہ ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں، اور اگر ختم نبوت پر بات کرے گا تو پکڑا جائے گا اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا، ہماری یہ مشاورت ہو رہی تھی۔

مشورے میں مولانا عبدالواحد صاحبؒ نے مجھے فرمایا زاہد! یہ کام تو ہی کرے گا، فرمایا کہ وہاں جمعہ تم نے پڑھانا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، پڑھا دوں گا۔ انہوں نے فرمایا کہ بچنا بھی ہے۔ میں نے کہا ان شاء اللہ، اللہ خیر کرے گا۔ چنانچہ وہاں اگلا جمعہ میں نے پڑھایا۔ تکنیک یہ تھی کہ تقریر ساری ختم نبوت پر کرنی ہے اور کوئی ایسی بات بھی نہیں کہنی کہ ان کو موقع ملے کہ مجھے گرفتار کر سکیں اور مقدمہ بنا سکیں۔ بات بھی کرنی ہے اور نہیں بھی کرنی۔ یہ فن ہم نے مولانا محمد علی جالندھریؒ سے باقاعدہ سیکھا ہے کہ بات کہو مگر گرفت میں نہ آؤ۔ الحمد للہ میں نے وہاں ایک گھنٹہ تقریر کی۔ پوری تقریر ختم نبوت پر تھی، وہ تقریر باقاعدہ ریکارڈ ہوئی، اس زمانے میں کیسٹیں بہت کم ہوتی تھیں لیکن میری تقریر ریکارڈ ہوئی۔

سید مہتاب علی شاہ سی آئی ڈی میں ہوتے تھے۔ چار پانچ دن کے بعد وہ میرے پاس آئے اور کہا مولوی صاحب! آپ نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا تین دن سے پی ڈی ایس پی سر پکڑ کر بیٹھا ہے کہ کس جملے پر مقدمہ بناؤں، اسے کوئی ایسا جملہ ہی نہیں مل رہا۔ انہوں نے بتایا کہ دو صفحے پر تقریر لکھی پڑی ہے، میں نے ہی لکھی ہے۔ لیکن پی ڈی ایس سوچ رہا ہے کہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں بنتا۔ یہ اس دور کا ماحول یہ تھا کہ قادیانیت کا نام لینا بڑا رسک ہوتا تھا۔

ایوب خان کے زمانے میں سعودی عرب میں قادیانیوں کے داخلے پر پابندی نہیں تھی۔ قادیانی حج کے لیے جاتے تھے۔ ایک سال خبر آئی جس نے پورے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا کہ سعودی عرب میں خانہ کعبہ کے غسل میں ظفر اللہ خان شریک ہوئے ہیں۔ اس وقت یہ عالمی عدالت انصاف کے جج تھے۔ اس پر ہمیں بہت غصہ آیا کہ اسے اس اعزاز اور پروٹوکول میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس پر ملک بھر میں بہت احتجاج ہوا کہ یہ غیر مسلم ہے اسے کیوں بلایا ہے اور سعودی عرب نے خانہ کعبہ کے غسل کے پروٹوکول میں اسے کیوں شریک کیا ہے۔ اس احتجاج پر بھی میں نے ایک مقدمہ بھگتا ہے۔ اس ملک گیر احتجاج اور عالمگیر مہم کے نتیجے میں اگلے سال سعودی گورنمنٹ نے قادیانیوں کے حج پر آنے پر پابندی لگا دی کہ چونکہ یہ غیر مسلم ہیں اس لیے حج پر نہیں آسکیں گے۔

اس پر آغا شورش کاشمیری مرحوم جو ختم نبوت کے محاذ کے بڑے جرنیل، لیڈر اور دبنگ انسان تھے ۔ صحافیوں میں ختم نبوت کے محاذ پر جتنا کام انہوں نے کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ بلا کے خطیب اور بڑے اچھے قلمکار تھے۔ ان کا پرچہ چٹان نکلتا تھا۔ آغا شورش کاشمیری نے چٹان میں چھ سات سطروں کا ایک شذرہ لکھا جس کا عنوان تھا” الحمد للہ“ آگے تین چار سطریں تھیں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ سعودی عرب کو بھی خیال آیا اور انہوں نے قادیانیوں کو پہچانا ہے اور یہ اقدام کیا ہے ۔ آغا صاحب نے شذرہ لکھ کر سعودی گورنمنٹ کا خیر مقدم کیا کہ ہماری ایک بڑی منزل طے ہو گئی ہے کہ سعودی عرب نے قادیانیوں کے داخلے پر پابندی لگادی ہے۔ اس پر چٹان پریس ضبط ہوگیا، ، دفتر سیل ہو گیا ، چٹان کا ڈیکلریشن منسوخ ہوگیا اور طوفان مچ گیا۔ اتفاق سے ان دنوں موچی دروازے میں جمعیت علماء اسلام کی کانفرنس تھی۔ آغا شورش کاشمیری جمعیت میں کبھی نہیں رہے، بلکہ مخالفین اور ناقدین میں رہے ہیں لیکن بہرحال ہمارے حلقے کے آدمی تھے اور یہ ختم نبوت کا مسئلہ تھا، تو ہم نے فیصلہ کیا کہ کانفرنس میں آغا صاحب کی آخری تقریر ہوگی۔ ہم آغا صاحب کو سٹیج پر فراہم کریں تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔ اس زمانے میں سید احمد سعید کرمانی مغربی پاکستان کے صوبائی وزیر اطلاعات تھے، ان کی کوئی ذاتی مخالفت بھی ہو گئی تھی ، مگر مسئلہ ختم نبوت کا تھا ، بہرحال آغا صاحب نے ۶ مئی ۱۹۶۸ء کو جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں پورے عروج پر بڑی خوفناک تقریر کی۔

مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو میں نے زندگی میں کبھی شعر پڑھتے نہیں سنا کہ تقریر میں کوئی شعر پڑھیں۔ صرف وہاں آغا شورش کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے مولانا نے یہ شعر پڑھا ؎ ’’نزاکت کس قدر ہے دلربا کو، اٹھا سکتے نہیں رنگِ حنا کو‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ آغا شورش کاشمیری کا جرم کیا ہے ؟ یہی کہ انہوں نے سعودی عرب کے ایک فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور چار سطریں لکھی ہیں، آپ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ شعر میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔ میں نے زندگی میں مولانا سے ایک ہی شعر سنا ہے اس جلسے میں۔ اس کے بعد آغا صاحبؒ گرفتار ہوگئے، پھر تحریک ختم نبوت کے جلسے ہوتے رہے اور ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا۔

آغا صاحب نے جیل میں کسی مسئلے پر بھوک ہڑتال کر دی اور چند دن اس کیفیت میں گزرے کہ آغا شورش کے بارے میں تشویش ہونے لگ گئی کہ آغا اب گیا یا اب گیا۔ آغا شورش انکاری تھے اور جب وہ بھوک ہڑتال کرتے تھے تو واقعتاً بھوک ہڑتال ہوتی تھی۔ انہوں نے جیل میں دو تین دفعہ بھوک ہڑتال کی ہے اور بالکل موت کے دم سے واپس آئے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ہے ’’دمِ واپسیں‘‘۔ واقعتاً وہ موت کے منہ سے واپس آئے تھے۔ پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت تھی کہ پتا نہیں اب کیا ہوگا۔ اگر اس میں آغا صاحب فوت ہو جاتے تو ملک میں بڑا طوفان برپا ہوتا، لیکن بالآخر گورنمنٹ نے ہتھیار ڈال دیے اور آغا صاحب کے مطالبات مان لیے۔ پریس بحال کیا، چٹان بحال کیا اور بھی ایک دو باتیں تھیں وہ انہوں نے مان لیں۔

مجھے یاد ہے کہ میں اس تحریک میں نعرے لگانے والوں میں شامل تھا۔ ہم بھی اس زمانے میں تقریریں اور جلسے کیا کرتے تھے ۔ استاذ محترم مولانا عبدالقیوم صاحب ؒ ختم نبوت کے امیر تھے، وہ ہمارے قائد تھے، ہم ان کے شاگرد اور کارکن تھے اور ختم نبوت کے دفتر میں میٹنگیں ہوتی تھیں۔ ہم نے اس دور میں ’’الحمد للہ‘‘ کو عنوان بنا لیا اور ایک مہم چلائی، الحمد للہ ہمارا ماٹو بن گیا تھا، ہم نے الحمد للہ کی مہر بنوائی اور ہر چیز پر الحمد للہ کی مہر لگاتے تھے، نوٹوں پر بھی الحمد اللہ کی مہر۔ یہ مہر اتنی چلی کہ سٹیٹ بینک کو پابندی لگانی پڑی کہ جس نوٹ پر الحمد للہ کی مہر ہوگی اسٹیٹ بینک اسے قبول نہیں کرے گا۔ بظاہر تو الحمد للہ تھا لیکن گورنمنٹ بھی سمجھتی تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے اور ہم بھی سمجھتے تھے۔ بہرحال ایوب خان کے دور میں یہ مراحل گزرے۔ اور ان مراحل میں الحمد للہ میں بھی شریک رہا ہوں۔ یہ سب میرے طالب علمی کے دور کے واقعات ہیں۔ ہم پڑھتے بھی تھے اور ساتھ یہ حرکتیں بھی کرتے تھے۔

اس دور کا ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں ۔ آپ اس وقت کی سنگینی دیکھیں اور اکابر کی حکمت عملی دیکھیں۔ ہمارے اکابر بڑی حکمت عملی سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے کہ یوں نہیں تو یوں سہی، یوں نہیں تو یوں کر لیتے ہیں، وہ متبادل راستہ نکالتے تھے۔ شیرانوالہ باغ میں ختم نبوت کا جلسہ تھا، سید حسنات احمد گوجرانوالہ کے ڈی سی تھے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ سٹیج پر پہنچے تو پولیس کا انسپکٹر آگیا اور اس نے چٹ پکڑا دی کہ ڈی سی صاحب کا آرڈر ہے آپ احمدیوں کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے، ڈی سی نے گورنمنٹ کی طرف سے پابندی لگا دی ہے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ بڑے غضب کے مقرر تھے لیکن ٹھنڈی ٹھنڈی سادہ سادہ باتیں کرتے تھے مگر کیا مجال ہے کہ مجمع چار گھنٹے میں ان کے سامنے ہل جائے۔ سادہ سا خطبہ پڑھتے، شعر بالکل نہیں پڑھتے تھے اور ترنم کے بغیر کئی کئی گھنٹے تقریر کرتے تھے، تقریر اردو میں شروع کرتے اور پانچ سات منٹ بعد پنجابی پر آ جاتے تھے، ٹھیٹھ پنجابی میں تقریر کرتے۔ اس زمانے میں جلسوں میں مجمع بہت ہوا کرتا تھا۔ اس جلسہ میں بہت بڑا مجمع تھا، تقریباً آدھا باغ بھرا ہوا تھا۔ جب ڈی سی کا آرڈر ملا کہ آپ احمدیوں کے خلاف بات نہیں کریں گے جبکہ لوگ یہی باتیں سننے آئے تھے، تو مولانا جالندھریؒ چونکہ بہت ذہین آدمی تھے ، مجمع میں چٹ پڑھ کر سنا دی اور ہنستے ہوئے فرمایا اچھا سرکار کا آرڈر آ گیا ہے کہ مرزائیوں کو کچھ نہیں کہنا ، ہم تو غیر سیاسی لوگ ہیں، قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ یہ حکمران ہیں، ہمارے مائی باپ ہیں ، ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے، آرڈر آ گیا ہے میں کیا کروں۔ ویسے آج میں یہ بات بھی کرنے آیا تھا، یہ بات بھی کرنی تھی، یہ بھی کرنی تھی، یہ بھی سوچ کر آیا تھا۔ آپ بھائیوں سے یہ بھی کہنا تھا، یہ بھی کہنا تھا۔ یوں جو باتیں کہنی تھیں وہ سب کی سب اس انداز میں کہہ دیں اور اس انداز میں دس بارہ منٹ اپنے مقصد کی بات کہہ کر فرمایا کہ چونکہ سرکار کا آرڈر ہے لہٰذا میں اس کے خلاف نہیں کرتا اور معراج شریف پر تقریر کروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے معراج کے مسئلہ پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آپؒ غضب کے متکلم تھے، میں کہتا ہوں پنجابی زبان میں اتنا بڑا متکلم تاریخ نے پیدا نہیں کیا ہو گا، آپ حقیقی معنوں میں متکلم تھے۔

بھٹو مرحوم کے دور میں ۱۹۷۳ء میں تحریک ختم نبوت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جس کا وقتی باعث فیصل آباد کا واقعہ بنا کہ نشتر میڈیکل کالج ملتان کے لڑکے چناب ایکسپریس سے ٹور پر جا رہے تھے جو ربوہ سے گزرتی تھی۔ ملتان یعنی حضرت شاہ جیؒ کے شہر کے نوجوان تھے انہوں نے ربوہ اتر کر قادیانیوں کے خلاف نعرے بازی کی ۔ قادیانیوں نے اس کا نوٹس لیا اور انہوں نے ٹوہ لگائی کہ جب یہ لڑکے واپس آکر پھر یہاں اتریں گے اور نعرے لگائیں گے تو ہم انہیں پکڑ کر ان کی پٹائی کریں گے۔ چنانچہ واپسی پر وہ نوجوان اپنے معمول کے مطابق نیچے اترے تو قادیانیوں نے ان کو گھیر لیا اور ان کی پٹائی کی، ان میں سے کچھ لڑکے زخمی بھی ہوئے، یوں قادیانیوں نے اپنا بدلہ لیا۔

فیصل آباد ربوہ کے قریب ہی ہے۔ یہ خبر فیصل آباد پہنچی ۔مولانا تاج محمودؒ فیصل آباد میں سٹیشن کے قریب ہی ہوتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن فیصل آباد پر ہی ان کی مسجد ہے۔ مولانا تاج محمودؒ نے یہ کیا کہ ان لڑکوں کے آنے تک اردگرد کے جتنے ساتھی بلا سکتے تھے ان کو بلا کر آنے والے لڑکوں کا استقبال کیا۔ اگرچہ انہیں وقت تھوڑا ملا لیکن بہرحال لوگوں کے جذبات تو پہلے ہی تھے، لوگوں نے وہاں جلوس نکالا اور احتجاج کیا کہ قادیانیوں کو گرفتار کیا جائے۔ یہ تھا اس تحریک کا نقطہ آغاز۔ چنانچہ فیصل آباد میں ہڑتال ہوئی ۔ اگلے دن ہم نے بھی گوجرانوالہ میں میٹنگ بلا لی اور تیسرے چوتھے دن گوجرانوالہ میں بھی ہڑتال ہوئی۔ یوں بات چلتے چلتے آگے بڑھ گئی۔

یہ وہ دور تھا جب میں جامع مرکزی مسجد میں بطور نائب خطیب کے حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحبؒ کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ جامع مسجد تقریباً سوا سو سال سے شہر کا مذہبی مرکز بھی ہے ، سیاسی مرکز بھی ہے اور سماجی مرکز بھی ہے۔ جامع مسجد ہمیشہ تحریکات کا مرکز رہی ہے۔ چاہے دینی تحریکات ہوں یا سیاسی، آزادی کی تحریک، ختم نبوت کی تحریک اور تحریک نظام مصطفی میں ہیڈ کوارٹر یہی رہا ہے۔ اور یہ ہماری روایت چلی آ رہی ہے کہ شہر میں کوئی بھی مذہبی یا ملی اجتماعی مسئلہ ہو تو ہم دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، جماعت اسلامی، تاجر برادری، وکلاء سب کو بلاتے ہیں اور سب آتے ہیں۔ پچاس سال تو مجھے ہو گئے ہیں، جب بھی ضرورت پڑی ہے بلایا ہے تو سب آئے ہیں۔ اس کا عقبی کمرہ جو اَب ہال میں شامل کر لیا ہے وہ ہماری میٹنگوں کے لیے مخصوص تھا۔ ہمارے ایک سی آئی ڈی کے انسپکٹر ایک دفعہ کہنے لگے کہ مولوی صاحب! جب یہ پیچھے کا کمرہ کھلتا ہے تو ہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کوئی تحریک چلنے والی ہے اور ہم سونگھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اب کچھ ہونے والا ہے اور مولوی کچھ کرنے لگے ہیں۔

بہرحال اس موقع پر مولانا عبدالواحد صاحبؒ نے میٹنگ بلائی، تمام مکاتب فکر کے علماء آئے۔ میٹنگ میں ہم نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔ مولانا ابو داؤد محمد صادقؒ اس کے صدر تھے جو بریلوی مکتب فکر کے بڑے عالم تھے ، حکیم عبدالرحمٰن آزادؒ پرانے احراری اور بڑے پرانے اہل علم مجاہد علماء میں سے اہل حدیث مسلک کے عالم تھے، وہ سیکرٹری جنرل تھے اور میں رابطہ سیکرٹری تھا، یہ تحریک میں عملاً میری پہلی ذمہ داری تھی۔ بعد میں شہر کی مجلس عمل بنی تو میں اس کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اس موقع پر چونکہ میرے کمرے میں ہی دفتر تھا تو زیادہ تر معاملات میں ہی سنبھالتا تھا۔ مولانا عبد الواحد صاحبؒ ہمارے سرپرست تھے ۔

ہم نے گوجرانوالہ نے تحریک میں گرمی پیدا کی اور وہ گرمی کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ہڑتال کریں گے اور جلوس نکالیں گے۔ اس کے مطابق ہڑتال بھی ہوئی اور ہم نے بہت بڑا جلوس نکالا۔ جلوس کی قیادت ابو داؤد محمد صادق صاحب ؒ،مولانا عبد الواحد صاحبؒ اور حکیم عبدالرحمٰن صاحبؒ کر رہے تھے۔ میں بھی تھا اور مولانا عبد العزیز چشتی صاحبؒ وغیرہ شہر کے علماء بھی ساتھ تھے۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ کچہری پر جا کر ہم نے ڈی سی کے دفتر کے ساتھ برآمدے میں کھڑے ہو کر تقریریں کیں اور جلوس کو منتشر ہونے کا کہا کہ ہم نے آپ تک بات پہنچانی تھی پہنچا دی، اب ہم واپس جا رہے ہیں۔ ہم تو واپس آ گئے لیکن جلوس واپس نہیں آیا۔ وہ جلوس گِل روڈ پر چلا گیا۔ گل روڈ اس زمانے میں قادیانیوں کا مرکز تھا۔ ہم تو گھروں میں آگئے لیکن جلوس نے وہاں گِل روڈ پر بہت تباہی مچائی۔ شام کو بی بی سی چیخ اٹھا کہ گوجرانوالہ میں آج ایک دن میں بہت سے قادیانی قتل ہوئے ہیں۔ دنیا میں طوفان مچ گیا کہ گوجرانوالہ قتل گاہ بن گئی ہے، احمدیوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ظفر اللہ خان کا بیان بھی آگیا۔ گوجرانوالہ بہت حساس پوائنٹ بن گیا۔ ایک دن سترہ کے لگ بھگ آدمی قتل ہوئے، اس سے اگلے دن پانچ آدمی قتل ہوئے۔ بی بی سی اور دوسرے بین الاقوامی اداروں نے طوفان مچا دیا کہ گوجرانوالہ قتل گاہ بن گیا ہے۔ واقعتاً پاکستان میں ایسا معاملہ اور کہیں بھی نہیں ہوا جو یہاں ہوگیا۔ تقریبا بائیس قادیانی قتل ہوئے جن میں سے اکثر گل روڈ پر ہی قتل ہوئے تھے جہاں قادیانیوں کی آبادی تھی، جس سے جو ہو سکتا تھا اس نے کیا۔

تیسرے دن صوبائی منسٹر رانا اقبال احمد خان نے پیغام بھیجا کہ ہماری بات سن لیں۔ ڈی سی سید سرفراز شاہ صاحب تھے جو کہ شریف آدمی تھے۔ یہاں نئی نئی چھاؤنی بنی تھی، چھاؤنی کا آغاز ہوا تھا اور کرنل نصیر قادیانی یہاں کمانڈر تھے ۔ کرنل نصیر نے صورت حال دیکھ کر ڈپٹی کمشنر سے شہر کا چارج مانگ لیا کہ آپ سے کنٹرول نہیں ہو رہا مجھے کنٹرول دو اور مارشل لاء کا فیصلہ ہوگیا کہ شہر میں مارشل لاء لگے گا۔ رانا صاحب کا یہ پیغام ملا۔ حکیم عبدالرحمن صاحب صبح صبح میرے پاس آگئے کہ یہ صورتحال ہے۔ اس کا آج ہم نے کوئی تدارک نہ کیا تو مارشل لاء لگ جائے گا اور مارشل لاء کرنل نصیر لگائے گا اور پھر جو کچھ ہوگا وہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے فوراً میٹنگ بلائی اور ڈی سی صاحب سے ملے۔ ڈی سی نے کہا بات یہ ہے کہ میں شام کو میٹنگ کر رہا ہوں، جس میں رانا صاحب بھی ہوں گے اور فلاں فلاں بھی ہوں گے۔ اگر آپ حضرات مجھے تھوڑا سا حوصلہ دلا دیں اور گارنٹی دے دیں کہ اب شہر میں کوئی قتل نہیں ہوگا تو بات بن سکتی ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم نے قتل کروائے ہیں۔ اس نے کہا نہیں مولانا! خدا کے لیے اس کے سوا بات نہیں بنے گی۔ شام کو کرنل نصیر بھی ہوگا، صوبائی منسٹر رانا صاحب بھی ہوں گے، صوبائی وزیر رانا شمشاد بھی ہوں گے اور فیصلہ آج شام چار بجے میٹنگ میں ہونا ہے۔ اگر ہم اس کو جواب نہ دے سکے تو رات کو مارشل لاء لگ جائے گا ۔ مارشل لاء کا کمانڈر کرنل نصیر ہوگا جو انتقام اور غصے میں بھرا بیٹھا ہے۔ پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ شہر میں کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ میٹنگ بلائیں۔

شام کو ڈی سی سید سرفراز شاہ صاحب کے آفس میں میٹنگ ہوئی۔ سب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میں اس پر بحث ہوئی ۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ تم نے ہمارے لڑکوں کو مارا، انہوں نے تمہارے لڑکوں کو مارا۔ مسئلہ ہی ایسا تھا کہ لوگوں کے جذبات تھے۔ ہم تو جلوس ختم کر کے آ گئے تھے۔ ہمارا اس معاملے سے کیا تعلق؟ ہم تو اپنے گھروں میں تھے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ سب کس نے کیا ہے۔ ہمارا جلوس کچہری تک تھا وہاں سے ہم واپس آ گئے تھے، اس کے بعد تمہیں کنٹرول کرنا چاہیے تھا۔ تم نے کنٹرول نہیں کیا تو اب ہم کیا کریں۔ بات چلتی رہی۔ کرنل نصیر بار بار کہتا فیصلہ کرو کیا کرنا ہے۔ حکیم عبد الرحمٰن آزاد سمجھ دار آدمی تھے۔ کھڑے ہوئے اور کہا کرنل صاحب! بات ٹھیک ہے، شہر کا امن ہمارا بھی امن ہے۔ میں سیکرٹری جنرل ہوں اور یوں سمجھیں میں ہی ختم نبوت موومنٹ کا لیڈر بھی ہوں۔ میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ اس کے بعد ہم کوشش کریں گے کہ کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا۔ ویسے خود تمہیں کنٹرول کرنا چاہیے تھا، تم نہیں کر سکے تو اب ان شا اللہ کوئی ایسی بات نہیں ہوگی۔ اس لیے آپ آج فیصلہ نہ کریں۔ تین دن مزید دیکھ لیں، اگر کنٹرول نہ ہو سکا تو آپ کی مرضی۔ اس پر فیصلہ ہوگیا اور مارشل لاء لگتے لگتے ٹل گیا ۔ پھر تین دن ہم نے ساتھیوں کی منتیں کیں کہ خدا کا واسطہ ہے ، خدا کا خوف کرو ،کیا کر رہے ہو۔ بہرحال کنٹرول ہو گیا۔ یوں گوجرانوالہ شہر بالکل اس کیفیت میں مارشل لاء سے بچ گیا۔

اس کے بعد ایک لطیفے کی بات یہ ہوئی کہ شہر میں تحریک ختم نبوت کے جلسے ہو رہے تھے۔ باقی لوگ قادیانیوں اور حکومت کے خلاف تقریریں کر رہے تھے، جبکہ میں ڈی سی کے خلاف تقریر کر رہا تھا کہ ڈی سی ایسا ہے ویسا ہے۔ مَیں سیاسی زبان میں ڈی سی کو جو کہہ سکتا تھا کہتا۔ تین چار جلسے ہوئے تو ڈی سی صاحب نے ایک مجسٹریٹ کو میرے پاس بھیجا ۔ اس نے آکر کہا ڈی سی صاحب پریشان ہیں کہ مولوی صاحب! آپ کیا کر رہے ہیں، میرا کیا قصور ہے؟ مجھے کیوں گالیاں دے رہے ہیں، میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے مجسٹریٹ سے کہا ڈی سی صاحب سے کہو میں یہ گالیاں ان کو بچانے کے لیے دے رہا ہوں، اگر میں یہ گالیاں نہ دوں تو سارے قتل اس کے کھاتے میں جاتے ہیں کہ ڈی سی کیا کر رہا تھا ، اس نے خود قتل کروائے ہیں، ان کو یہ بات سمجھ آ گئی اور وہ دوسرے دن کہنے لگا کہ ہاں بات ٹھیک ہے۔

ڈیوڑھا پھاٹک والی مکی مسجد کا پس منظر عجیب ہے۔ یہ بھی تحریک ختم نبوت کا حصہ ہے۔ یہاں جس جگہ مسجد ہے یہ قادیانیوں کی جگہ تھی۔ قادیانیوں کی یہاں کچھ آبادی تھی اور انہوں نے یہ جگہ خریدی ہوئی تھی۔ یہاں وہ اپنا بہت بڑا جماعتی مرکز ”فیض ہال“ کے نام سے بنانے والے تھے ۔ مولانا عبد الواحد ؒ کو کسی نے بتایا کہ قادیانیوں نے اس جگہ کا سودا کیا ہے اور یہاں فیض ہال کے نام سے اپنا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ فیض احمد ان کا کوئی بڑا ہوگا۔ تو مولانا عبد الواحد ؒ نے کہا یہ تو بڑے موقع کی جگہ ہے ۔ اگر یہ مرکز بنے گا تو فتنہ پیدا ہو گا اس کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ چنانچہ جس کی جگہ تھی اس بیچنے والے سے رابطہ قائم کیا۔ اس نے کہا میں نے تو جگہ بیچنی ہے آپ پیسے دے دیں تو آپ کو دے دوں گا، لیکن دو دن کے اندر فیصلہ کریں۔ آپ نہیں لیں گے تو میں نے قادیانیوں سے تو سودا کر لیا ہے، ان کو دے دوں گا۔ آپ نے خریدنی ہے تو آپ خرید لیں۔ الحاج ظفر علی ڈار کے والد لالہ غلام رسول ہمارے بزرگ اور بڑے نیک آدمی تھے۔ اس زمانے میں شہر میں گنتی کے چار پانچ بڑے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ مولانا عبد الواحد ؒ نے لالہ جی کو بلایا اور انہیں بتایا کہ یہ مسئلہ ہے، ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں، بڑے ثواب کی بات ہے اگر آپ یہ جگہ خرید لیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں خرید لیتا ہوں۔ چنانچہ لالہ جی نے مالک سے رابطہ کر کے قادیانیوں کا سودا کینسل کروا کر اپنا سودا کیا اور وہ جگہ خرید لی اور مسجد کے لیے وقف کر دی۔ جب جگہ مسجد کے لیے وقف کی تو گورنمنٹ کے سامنے نیا تنازع شروع ہو گیا کہ قادیانیوں کو پیچھے ہٹا کر مسلمان مسجد بنائیں گے اور یہ ان کا مرکز بن جائے گا۔

اس پر حکمتِ عملی یہ طے ہوئی کہ رات ہی رات مسجد بنانی ہے ۔اس زمانے میں بھی اتوار کو چھٹی ہوتی تھی۔ طے ہوا کہ ہفتے کی رات کو مسجد مکمل کرنی ہے تاکہ سٹے کا چکر وغیرہ نہ ہو۔ چنانچہ نصرۃ العلوم، اشرف العلوم اور جامع مسجد کے طلباء آگئے ، ہم نے پانچ سات مستری بلا لیے۔ تعمیر کا انتظام مکمل کیا ۔ مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد بننا شروع ہوئی یعنی اس کا ہال ۔ میں بھی اینٹیں اور گارا ڈھونے والوں میں شامل تھا ۔ فجر کی نماز تک ہم نے مسجد کی تعمیر مکمل کی اور لاؤڈ اسپیکر لگا کر ہم نے وہاں فجر کی نماز پڑھی اس کے بعد مولانا عبد القیوم ہزارویؒ نے درس دیا۔ یہ مکی مسجد کی تاریخ ہے کہ مغرب کے وقت کھلا میدان تھا، مغرب کے بعد مولانا عبد القیوم صاحبؒ تسبیح لے کر بیٹھ گئے وہ ہمارے بزرگ تھے اور ہم سب ورکر تھے۔ ہم ساری رات کام لگے رہے اور فجر کی نماز سے پہلے چھت ڈل چکا تھا اور سپیکر لگ چکا تھا۔ وہاں فجر کی نماز ہوئی، اور مولانا عبد القیوم صاحبؒ درس میں جو کہہ سکتے تھے انہوں نے کہا، جو اُن کا لہجہ تھا، یہ تحریک ختم نبوت ہی کا حصہ ہے کہ اس جذبے کے ساتھ یوں کام ہوتا تھا۔

ایک لطیفہ کی بات یہ سنا دیتا ہوں کہ حضرت مولانا ابو داؤد محمد صادقؒ شہر کے بڑے عالم دین تھے ہم نے ان کو صدر بنایا تھا۔ وہ ایک آدھ میٹنگ میں آئے ، لیکن پھر ان کے مزاج نے ان کو میٹنگ میں نہیں آنے دیا۔ بلکہ ایک دفعہ انہوں نے استعفیٰ کی خبر بھیج دی، جو ہم نے رکوا دی۔ ہمارا اس وقت زور چلتا تھا کہ ہماری مرضی کے بغیر کوئی خبر نہ چھاپے۔ ہم نےوہ خبر رکوا دی اور ادھر شہر میں افواہ پھیل گئی کہ مولانا صادقؒ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے تحریک کے حوالے سے بڑی نقصان دہ بات تھی کہ ہمارے صدر نے استعفیٰ دے دیا۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ مولانا صاحب کو تحریک کی قیادت میں ظاہر کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہم نے دو کام کئے۔ اس پلاننگ میں چشتی صاحب ؒ، مولانا خالد، میں، حکیم عبدالرحمنؒ، حکیم محمود، ڈاکٹر غلام محمدؒ اور علامہ محمد احمد لدھیانویؒ شامل تھے۔ چشتی صاحبؒ نے کہا کہ اس کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں مولانا صاحب کی پریس کانفرنس رکھتا ہوں کہ مولانا! ان کو چھوڑیں، آپ قادیانیوں کے خلاف اپنی پریس کانفرنس کریں۔ چشتی صاحب نے مجھے کہا کہ تم اور حکیم عبدالرحمن دونوں فلاں وقت پر میرے گھر آجانا ۔پہلے میں مولانا صادق صاحبؒ کے دائیں بائیں اپنے آدمی بٹھا دوں گا، تمہارے آنے پر وہ اٹھ جائیں گے اور تم ان کے دائیں بائیں بیٹھ جانا۔ یوں جب حاجی محمد صادق صاحب پریس کانفرنس کر رہے تھے تو میں بھی پہنچ گیا اور حکیم عبدالرحمٰن صاحب بھی پہنچ گئے۔ ہمارے پہنچتے ہی پلاننگ کے مطابق حاجی صاحب کے اردگرد سے وہ بندے اٹھ گئے اور ان کے دائیں جانب میں بیٹھ گیا اور بائیں جانب حکیم صاحب بیٹھ گئے۔ حاجی صاحب پریشان ہو گئے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ ہم خاموش تھے کیونکہ طے یہی ہوا تھا کہ ہم نے کہنا کچھ نہیں ہے بس صرف ظاہر کرنا ہے کہ حاجی صاحب پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور ہم ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک اخباری نمائندہ نے مجھ سے کوئی سوال کیا تو میں نے کہا نہیں! حاجی صاحب جواب دیں گے، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس پریس کانفرنس کی خبر صبح اخبار میں لگ گئی۔ لوگ کہتے کہ مولانا کل استعفیٰ دے رہے تھے اور رات کو اکٹھی پریس کانفرنس کی ہے۔

ہم نے دوسری حرکت یہ کی کہ اس موقع پر بائیس قادیانی قتل ہوئے تھے، اس میں ہمارے سو سے زائد کارکن ۳۰۲ اور ۳۰۷ کے مقدمہ میں گرفتار ہوئے تھے۔ آخر انہوں نے گرفتاری تو کرنی تھی۔ ہمارے کارکن جیلوں میں تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا، عید کا مرحلہ آ رہا تھاتو ہم نے طے کیا کہ قیدیوں کے گھروں میں عیدی کے طور پر کچھ امداد بھیجنی چاہیے۔ اس کے لیے ہم نے پیکج بنا لیا کہ یہ ان کو دینا ہے۔ اس پر جامع مسجد میں میٹنگ ہوئی۔ حکیم محمود کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ حاجی صاحب تو میٹنگ میں آتے نہیں ہیں تو کیوں نہ ہم میٹنگ ہی حاجی صاحب کے پاس لے جائیں۔ حاجی صاحب مدرسے میں جہاں تعویذ وغیرہ کیا کرتے تھے وہاں بیٹھے ہوتے تھے۔ ہم نے پتہ کیا کہ حاجی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم سب وہاں ان کے پاس چلے گئے اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے پوچھا کیسے آئے ہیں تو ہم نے کہا کہ مشورہ کرنے آئے ہیں کہ ہم قیدیوں کے گھر کچھ امداد بھیجنا چاہتے ہیں۔ امداد بھیجیں یا نہ بھیجیں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ پیسے کتنے دینے چاہئیں۔ اس زمانے میں ہزار روپیہ بڑی چیز ہوتی تھی ہم نے کہا آٹھ آٹھ سو روپے دے دیتے ہیں۔ حاجی صاحب نے کہا ہزار ہزار دے دیں۔ یہ ہماری مشاورت ہوئی اور ہم نے کہا حاجی صاحب دعا فرما دیں۔ اس میٹنگ پر ہم نے باقاعدہ کاروائی کے نوٹس لکھے کہ حاجی صاحب کے ساتھ ہماری میٹنگ ہوئی ہے، حاجی صاحب نے منظوری دے دی ہے۔ منظوری تو حاجی صاحب نے دی تھی ۔ ہم نے اسے اخبار میں چھاپ دیا۔ ہم اس طریقے سے چلتے رہے ۔اس کے بعد حاجی صاحب خاموش ہو گئے۔ لوگوں نے بھی ان سے کہا کہ حضرت! ایسا نہ کریں، ٹھیک ہے آپ جلسوں میں نہ جائیں، لیکن خاموش تو رہیں اور جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کو کام کرنے دیں۔ یہ تحریک ختم نبوت کی گوجرانوالہ کی حد تک کی صورتحال تھی۔

میں نے تحریک ختم نبوت میں گوجرانوالہ کے حوالے سے بات کی ہے۔ یہ تحریک اپریل میں شروع ہوئی تھی اور ستمبر ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے غیرمسلم اقلیت ہونے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ پہلی تحریکوں میں اور اس میں فرق یہ تھا کہ اس تحریک میں اسمبلی میں مضبوط نمائندے موجود تھے، جنہوں نے اسمبلی میں جنگ لڑی۔ مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا غلام غوث ہزاروی، پروفیسر غفور احمد، چودھری ظہور الٰہی، مولانا ظفر انصاری، سردار حیات رحمہم اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ تھے، یعنی بڑی مضبوط اپوزیشن تھی جس نے یہ جنگ لڑی اور ہم قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تحریک ختم نبوت کا ایک مرحلہ ہے، دوسرے مرحلے پر بعد میں بات ہو گی، ان شاء اللہ۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تحریک ختم نبوت کے دو ادوار ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء کا ذکر کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں میری شمولیت گوجرانوالہ کی حد تک محدود رہی۔ میں گوجرانوالہ شہر کی ختم نبوت ایکشن کمیٹی کا سیکرٹری جنرل تھا اور اس کی کچھ تفصیلات گزشتہ نشست میں بیان کی ہیں۔ اس کے بعد تحریک ختم نبوت ۱۹۸۴ء کا دور ہے۔

۱۹۷۴ء میں یہ ہوا تھا کہ تحریک ختم نبوت کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دے دیا تھا اور ان کا شمار غیر مسلم اقلیتوں میں کر دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ قانون سازی ضروری تھی کہ قادیانی اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں، اسلامی اصطلاحات استعمال نہ کریں، اور آئین کے تقاضوں کے مطابق اقلیتوں کے ساتھ ان کے حقوق کا عملی طور پر تعین ہو جائے۔ قادیانی ۱۹۷۴ء کا فیصلہ قبول کرنے سے انکاری تھے اور یہ قانون سازی نہیں ہو رہی تھی۔ اس پر مطالبات جاری تھے کہ دستوری ترمیم کے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں اور قانون میں جو ترامیم ضروری ہیں وہ کی جائیں۔

اس دوران ۱۹۸۴ء میں ایک اور واقعہ ہوگیا کہ ایم ایم احمد یعنی مرزا مظفر احمد جو مرزا غلام احمد قادیانی کا پوتا ، مرزا بشیر احمد کا بیٹا، یحییٰ خان کا نفسِ ناطقہ و دست راست تھا اور منصوبہ بندی اور پلاننگ کا چیئرمین تھا۔ اس کے بارے میں ان تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے بحران میں بھی اس کا کردار تھا۔ جیسا کہ مشرقی پاکستان کے معروف لیڈر مولوی فرید احمد مرحوم اپنی تقریروں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کا بنیادی کردار ایم ایم احمد ہے۔

اس دوران ایک دور ایسا آیا کہ یحییٰ خان ملک سے باہر جا رہے تھے اور اپنا قائم مقام کچھ دنوں کے لیے ایم ایم احمد کو بنانا چاہتے تھے۔ دینی حلقوں کے لیے یہ تشویش کی بات تھی کہ ایک قادیانی ملک کا قائم مقام صدر بنے گا۔ چنانچہ سیالکوٹ کا ایک نوجوان اسلم قریشی، جو اس وقت اسلام آباد میں لفٹ ٹیکنیشن کے طور پر ملازم تھا، اس کا ذاتی جذبہ تھا یا کچھ دوستوں کے حلقے کی بات تھی ، اس نے سوچا کہ اس کو صدر نہیں بننے دینا ،اس لیے کہ اس کا قائم مقام صدر بننا قابل برداشت بات نہیں تھی۔ غالباً ایک دن پہلے ہی اس نے یہ رسک لے لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا مظفر احمد لفٹ سے اوپر جا رہا تھا، اسلم قریشی اس کو ڈیل کر رہا تھا۔ اس موقع پر اسلم قریشی نے یہ کیا کہ اس کے ساتھ سوار ہوگیا اور لفٹ کے اندر ہی اس پر دو چار وار کر دیے۔ وار زیادہ کاری نہیں تھے، پیٹھ اور گردن پر کچھ زخم آئے تھے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم ایم احمد ہفتہ دس دن ہسپتال میں رہا اور یوں قائم مقام صدر والا پیریڈ ہسپتال میں گزر گیا۔ اسلم قریشی زیادہ مضبوط جسم کا آدمی نہیں تھا، بہرحال اس نے اتنا کر دیا کے ایم ایم احمد ایوان صدر جانے کے بجائے ہسپتال چلا گیا۔ اسلم قریشی غیر معروف آدمی تھا۔ اس سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا تھا، نہ ہم جانتے تھے اور نہ کوئی اور جانتا تھا۔

اس واقعہ میں اسلم قریشی قاتلانہ حملے کے جرم میں گرفتار ہوگیا ۔مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس کا کیس لڑا۔ تحریک ختم نبوت کاہی کام تھا۔ وہ کیس چلتا رہا۔ راجہ ظفر الحق وکیل تھے۔ کیس میں کچھ عرصہ بعد اس کو کچھ سزا ہوئی۔ اس دوران اس کی ملازمت ختم ہو گئی۔ بہرحال وہ لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہا، جب جیل سے آیا تو مجلس تحفظ ختم نبوت والوں نے اسے اپنا مبلغ بنا لیا اور سیالکوٹ میں تعینات کر دیا۔ وہ باقاعدہ عالم نہیں تھا بہرحال تیاری کر کے تقریر کر لیا کرتا تھا ، اس واقعہ نے اسے تیار کر دیا تھا اور کچھ مجلس والوں نے تیار کر دیا تو سیالکوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا باضابطہ مبلغ بن گیا۔

اس واقعے کے پس منظر میں ۱۹۸۴ء میں اچانک ایسا ہوا کہ اسلم قریشی غائب ہو گیا۔ وہ سیالکوٹ سے معراجکے گیا جو کہ بارڈر کے ساتھ قادیانیوں کا گاؤں ہے۔ وہاں مسلمانوں کی ایک مسجد ہے۔ وہ وہاں پہلے بھی وعظ کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ جامعہ شہابیہ رنگ پورہ میں مدرسہ ہے۔ ایک دن وہاں کے قاری صاحب سے ملا ، سائیکل ان کے پاس کھڑی کر کے یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں بس پر معراجکے جا رہا ہوں ، کل آؤں گا اور سائیکل لے جاؤں گا۔ وہ وہاں سے گیا تو اس کے بعد غائب ہو گیا۔ ادھر معراجکے والے کہتے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آیا۔ ایک دو دن کے بعد تشویش شروع ہو گئی کہ وہ کہاں گیا ہے۔ ظاہر بات تھی کہ وہ غائب ہوا تو شک قادیانیوں پر ہی ہونا تھا کہ انہوں اغوا کر لیا ہے۔ ختم نبوت کا مبلغ ہونے کے حوالے سے بھی اور سابقہ پس منظر کے حوالے سے بھی۔ چنانچہ پہلے سیالکوٹ کے علماء نے احتجاج کیا ۔ گوجرانوالہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا۔ سیالکوٹ کے علماء پیر سید بشیر احمد، نعیم آسی، حافظ محمد صادق رحمہم اللہ وغیرہ حضرات ہمارے پاس تشریف لائے اور مشورہ ہوا کہ پتا کرنا چاہیے کہ ہمارا آدمی ہمارا مبلغ کس نے اغوا کیا ہے، اور اس کے ایم ایم احمد والے پس منظر کو سامنے رکھ کر اس پر بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ مختلف جگہوں پر احتجاجی جلسے ہوئے اور ہم نے ڈویژنل سطح پر باقاعدہ ایکشن کمیٹی بنا لی۔ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ اس کو بازیاب کرو اور انکوائری کرو کہ کس نے اغوا کیا ہے۔

ڈویژنل ایکشن کمیٹی میں چند آدمی بنیادی کردار تھے: مولانا حکیم عبدالرحمٰن آزاد تھے جو ختم نبوت کے امیر رہے ہیں، اہل حدیث علماء میں بڑے عالم تھے، ختم نبوت کے معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ کامونکی کے امجد علی چشتی کے والد حاجی لطیف احمد چشتیؒ بریلوی مکتب فکر کے بڑے راہنما تھے، وہ بھی ہمارے ساتھ تھے، میں تھا، علامہ محمد احمد لدھیانویؒ ، ڈاکٹر غلام محمد ؒ، مولانا عبد العزیز چشتیؒ، مولانا خالد مجددی اور حکیم محمود بھی ہمارے ساتھ تھے۔ یہ سارے حضرات اس کمیٹی میں تھے۔ ہم نے اسلم قریشی بازیابی کمیٹی کو ایک باقاعدہ منظم شکل دی۔ لطیف احمد چشتیؒ ہمارے صدر تھے، حکیم عبدالرحمٰن سیکرٹری جنرل اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ ہم نے کامونکی ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں جلسے کیے اور موومنٹ شروع ہو گئی۔

اس زمانے میں میجر (ر) مشتاق احمد گوجرانوالہ کے ایس پی تھے ، وہ ڈی آئی جی گوجرانوالہ بھی رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری مخاصمت شروع ہو گئی کہ وہ قادیانی ہے۔ شاید وہ قادیانی نہیں تھا لیکن اس پر قادیانیت کا الزام تھا کہ وہ قادیانیوں کا رشتہ دار ہے، انہیں سپورٹ کرتا ہے۔ جب کچھ بات آگے بڑھی تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی احتجاج شروع ہو گیا کہ اسلم قریشی کہاں ہے، اسے بازیاب کرو۔ ہم اس زمانے میں بہت متحرک تھے۔ ہم نے خبروں اور جلسوں میں ٹھیک ٹھاک محاذ گرم کیا۔ اس پر مرکز بھی متوجہ ہوا اور مرکز سے تین بزرگ تشریف لائے ۔حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ جو تحریک ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل تھے، بڑے بزرگوں میں سے تھے، ان کے علاوہ فیصل آباد سے حضرت مولانا تاج محمودؒ، اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، یہ حضرات تشریف لائے ۔ علامہ محمد احمدؒ کے گھر اس مسئلہ پر ہماری میٹنگ ہوئی کہ ہمیں گوجرانوالہ سے باہر ملکی سطح پر بھی کام کرنا چاہیے۔ بات آہستہ آہستہ گرم ہوتی جا رہی تھی۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو دوبارہ منظم کیا جائے۔ اس مشاورت میں تین ہم یہاں کے تھے اور وہ تین باہر سے آئے تھے۔ یہ مشورہ ہوا کہ آل پارٹیز ایکشن کمیٹی کو دوبارہ بحال کیا جائے اور اس کے لیے کام کیا جائے۔

اس میں ہمارا آپس میں مشورہ ہوا کہ گزشتہ ۱۹۷۴ء کی مجلس عمل میں مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ صدر تھے، علامہ سید محمود احمد رضویؒ سیکرٹری جنرل تھے، اس لیے اس دفعہ کسی بریلوی عالم کو صدر بنانا چاہیے اور کوئی دیوبندی سیکرٹری جنرل بن جائے۔ مشورہ میں ہم نے تین حضرات طے کیے کہ ان سے بات کرنی چاہیے۔ مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، صاحبزادہ محمود شاہ گجراتیؒ، اور علامہ محمود احمد رضویؒ۔ میرے ذمے مولانا نیازیؒ لگے کہ میں ان سے بات کروں۔ باقی حضرات کا بھی طے ہوا کہ فلاں سے فلاں بات کرے گا، فلاں سے فلاں بات کرے گا۔ مولانا نیازیؒ کے ساتھ میری نیاز مندی تھی، شفقت کرتے تھے، میں بھی ان سے ملتا جلتا رہتا تھا۔ سخت مزاجی کے باوجود ہمارا آپس میں جوڑ تھا۔ میں مولانا کے پاس چلا گیا ،ان سے ملا اور انہیں بات بتائی تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ہمارا آپس میں مشورہ ہوا کہ مولانا عبد الستار خان نیازیؒ کو مجلس عمل کا سربراہ بنایا جائے اور دیوبندی علماء میں کوئی متحرک آدمی سیکرٹری جنرل بن جائے تو مجلس عمل کا آغاز کر دیا جائے۔

لیکن بات گڑبڑ ہو گئی ۔ کہا گیا تھا کہ مولانا نیازیؒ کو صدارت کے لیے تیار کریں ، میں نے دو تین ملاقاتیں کر کے مولانا کو صدارت کے لیے تیار کیا، لیکن جب ساری مہم کے نتیجے میں لاہور شہر میں میٹنگ ہوئی تو اچانک پالیسی بدل گئی کہ نہیں، صدر دیوبندی ہونا چاہیے اور حضرت مولانا خان محمدؒ کو ہونا چاہیے۔ اس پر مولانا نیازیؒ ناراض ہوگئے، ان کی ناراضگی بجا تھی، دیانتداری کی بات یہی ہے۔ مولانا نے کہا ٹھیک ہے لیکن میرے ساتھ وہاں تم نے کچھ اور بات کی تھی اور یہاں کوئی اور بات کی ہے۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ چنانچہ شیرانوالہ لاہور میں دوبارہ مجلس عمل بنی، حضرت مولانا خان محمدؒ کو صدر بنایا گیا ، مولانا مفتی مختار احمد نعیمیؒ گجرات کے بریلوی علماء میں سے تھے انہیں سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ مفتی مختار احمد نعیمیؒ سیالکوٹ میں ایک بڑی مسجد کے خطیب اور بریلوی علماء کے بڑے مفتی احمد یار خان نعیمیؒ کے بیٹے تھے، گجرات میں ان کا بڑا مدرسہ ہے۔ اس سے پہلے وہ تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کے حوالے سے بھی متعارف تھے۔ تحریک نظام مصطفیٰ میں جو علماء گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے، ان میں وہ بھی ہیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک میں جب سیالکوٹ میں گولی چلی تو وہ بھی سامنے آئے ، ان کو گولیاں لگیں اور وہ ہسپتال میں بھی رہے۔ اس حوالے سے ان کا تعارف تھا کہ یہ تحریکی معاملات میں بڑے سرگرم ہیں۔ بہرحال مجلس عمل بن گئی۔ میں سیکرٹری اطلاعات بنا۔ اس تحریک میں میرا کردار ملکی لیول پر تھا۔

مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور میں نے مل جل کر ملک کے دورے کیے۔ ملک بھر میں جلسے اور کانفرنسیں کیں اور محاذ اچھا خاصا گرم کر لیا۔ الحمد للہ یہ کیفیت ہو گئی تھی اور ہم اس پوزیشن میں آ گئے تھے کہ لوگوں کو کال دے کر اسلام آباد میں اکٹھا کر لیں اور دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔ مطالبات میں بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اسلم قریشی کو بازیاب کیا جائے، اور دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں قادیانیت سے متعلق جو ترمیم ہوئی ہے اس کے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں، اور کچھ جزوی مطالبات بھی تھے مثلاً ارتداد کی سزا نافذ کی جائے وغیرہ۔ لیکن بنیادی دو مطالبات تھے۔ اس پر ملک بھر میں تحریک چلی اور اچھا خاصا محاذ گرم ہوا۔ سکھر ،حیدر آباد اور پشاور میں بڑی بڑی کانفرنسیں اور اجتماعات ہوئے اور میدان ایک دفعہ پھر گرم ہو گیا۔

محمد خان جونیجو صاحب کا دور آیا ، وہ وزیراعظم بنے تو ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ ہم نے اسلام آباد میں کال دے دی، لوگوں کو کہا کہ جمعہ اسلام آباد پڑھنا ہے تو لوگ ایک دن پہلے پہنچ گئے کہ حکومت رکاوٹیں کھڑی کر دے گی۔ اس میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ انہوں نے ناکہ بندی کر رکھی تھی اور ہم نے طے کر رکھا تھا کہ ہم نے ہر حال میں پہنچنا ہے۔ چونکہ جو پرانے کارکن تھے انہیں پتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ بعض حضرات نے اپنا حلیہ بدلا۔ یہ طریقے سیکھنے پڑتے ہیں جو ہم نے سیکھے ہیں۔ راستے میں انہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا ادھر ایک بندے سے کام ہے۔ انہوں نے پوچھا جمعہ کہاں پڑھنا ہے؟ ہم نے کہا جہاں آگیا پڑھ لیں گے، اس طرح ہم نکل گئے۔ حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ مجلس عمل کے نائب صدر تھے، وہ آئے تو ان کو اسلام آباد میں روکا گیا۔ وہ آتے ہی بولے کہ تم جانتے نہیں ہو میں مجلس عمل کا نائب صدر ہوں۔ انہوں نے کہا جی تشریف لے آئیں اور انہیں تھانے میں لے جا کر بٹھا دیا۔ اور بھی کئی حضرات کو تھانے میں لے گئے تھے۔ بہرحال لوگ اسلام آباد پہنچے، وہاں جمعہ پڑھا، جلسہ ہوا، شام کو ہماری میٹنگ ہوئی۔

اس کے بعد دوبارہ کال دی گئی،ناکہ بندی جہلم سے شروع ہو گئی تھی، پچاس ساٹھ میل پر ناکہ بندی کر رکھی تھی کہ کوئی آدمی جانے نہ پائے۔ اس کے باوجود لوگ پہنچے اور لوگوں کے جذبے کا حال یہ تھا کہ گوجرانوالہ کے چار پانچ ساتھیوں کو جہلم میں روک دیا گیا۔ قاری یوسف عثمانی، میرے چھوٹے بھائی قارن صاحب، امان اللہ قادری، طالب اعوان وغیرہ۔ جب انہیں روکا تو انہوں نے سوچا کہ جانا تو ضروری ہے۔ لیکن انہوں نے بٹھا دیا تھا کہ آپ نہیں جا سکتے۔ چنانچہ ایک بس پر باردانہ لدا ہوا تھا، خالی بوریاں تھیں، ان حضرات نے کنڈیکٹر سے بات کی کہ ہم آپ کو ڈبل کرایہ دیں گے آپ ہمیں باردانہ میں باندھ کر لے جائیں۔ انہوں نے کرایہ طے کر کے اپنے آپ کو بندھوایا اور بس کے اوپر چڑھ گئے ۔ باردانہ مرچوں کا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تھا، ہمارا تو برا حال ہوگیا ، لیکن بہرحال اسلام آباد پہنچ گئے۔ لوگ اس کیفیت میں بھی وہاں پہنچے۔ پھر جونیجو صاحب کے ساتھ جو تفصیلی مذاکرات ہوئے، مَیں بھی ان میں شریک تھا۔

اس ساری جدوجہد کے نتیجے میں ہمیں جو نتیجہ ملا وہ صدر ضیاء الحق کا صدارتی امتناعِ قادیانیت آرڈیننس تھا۔ جس کے مطابق یہ طے ہوا کہ قادیانی اسلام کے نام پر تبلیغ نہیں کر سکتے ، اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکیں گے، اور وہ اپنی عبادت گاہوں کا نقشہ تبدیل کریں گے کیونکہ شعائر کا امتیاز ضروری ہے۔ اور اس کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا، اس پر تین سال کی سزا مقرر ہوئی۔ ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ ہمارے نقطہ نظر میں یہ تھا کہ دستوری قانون کے تقاضے پورے ہوئے، صدر ضیاء الحق نے آرڈیننس کے طور پر اسے نافذ کر دیا اور بعد میں پارلیمنٹ نے بھی اسے منظور کر لیا۔ یہ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت تھی، جس میں یہ حضرات تھے مولانا عبد القادر روپڑی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مفتی مختار احمد نعیمی، مولانا شریف جالندھری، مولانا تاج محمود (اسی دوران فوت ہوگئے تھے) اور مولانا ضیاء القاسمی رحمہم اللہ تعالیٰ تھے جنہوں نے زیادہ اہم رول ادا کیا۔

اس دوران کے لطیفوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ میں ہمارے داخلے پر پابندی لگ گئی۔ اس زمانے میں تحریک یہ ہوتی تھی۔ مجسٹریٹ سیالکوٹ نے ہمارے داخلے پر پابندی لگا دی۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ میں جاؤں گا اور پابندی قبول نہیں کرتا ۔ انہوں نے ناکہ بندی کر دی کہ نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود ہم وہاں پہنچے، جلسہ کیا اور ہمارے خلاف مقدمہ کر دیا گیا اور دوچار تاریخوں کے بعد مجھے اشتہاری ملزم قرار دے دیا۔ تھانے کا اے ایس آئی میرے پاس آیا کہ آپ کے اشتہاری ملزم کا وارنٹ ہے۔ میں نے کہا میں تو آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں۔ آپ کا آرڈر آگیا ہے اب کیا کروں۔ اس نے کہا یہ نوٹس آپ کے دروازے پر لگانا ہے۔ میں نے کہا گوند مجھ سے لے لو۔ اشتہاری ملزم کے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ ملزم کہیں بھی مل نہیں رہا، بھاگ گیا ہے ، فرار ہو گیا ہے، تاریخوں پر حاضر نہیں ہو رہا، اسے تلاش کیا جائے۔ اگر فلاں تاریخ تک نہ آیا تو یک طرفہ کاروائی کی جائے گی۔ وہ نوٹس میرے پاس لایا کہ اسے وصول کر لیں۔ میں نے کہا میں وصول نہیں کروں گا۔ اس نے کہا یہ آپ کے دروازے پر لگا دوں گا چنانچہ وہ میرے دروازے پر لگا کر چلا گیا۔ میں نے اتار کر کے ریکارڈ میں رکھ لیا۔ وہ میرے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

اس کے ساتھ ایک واقعہ اور ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے گوجرانوالہ آنا تھا، کوئی دعوت تھی، تو ہم نے پیغام بھیجا کہ گوجرانوالہ ایکشن کمیٹی جنرل ضیاءالحق سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ ہماری تحریک اور موومنٹ کا وفد جنرل ضیاء الحق سے براہ راست ملنا چاہتا ہے ۔ ہم نے یہ درخواست اسلام آباد بھیج دی، انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ البتہ یہ ہوا کہ غلام دستگیر خان نے مجھے جنرل ضیاء الحق نے ساتھ ذاتی طور پر کھانے میں شرکت کی دعوت دے دی کہ جنرل صاحب کے ساتھ کھانے میں آپ بھی شریک ہوں گے، آپ وہاں بات کر لیں۔ ہم نے آپس میں میٹنگ کی کہ ہم نے تو وفد کی ملاقات کا کہا تھا اور انہوں نے صرف مجھے کھانے کی دعوت بھجوا دی ہے، اس لیے ہمارا مشورہ ہوا کہ ہم نے نہیں جانا لیکن خاموشی کے ساتھ نہیں بلکہ اس طرح کیا کہ اگلے دن جنرل صاحب نے آنا تھا تو ہم نے مرکزی مسجد میں جلسہ رکھ لیا ۔ ہم نے یہ پالیسی طے کی کہ آخر میں مَیں کھڑا ہوا اور میں نے کہا دستگیر صاحب نے مجھے دعوت دی ہے ، کھانے کے لئے بلایا ہے، لیکن ہمارے وفد کو وقت نہیں دیا اس لئے میری طرف سے یہ انکاری اعلان ہے۔ یہ ہم نے دوسرا کام کیا۔ اس کے سیاسی طور پر اثرات ہوتے ہیں۔ اس تحریک میں ہم اس طرح کام کرتے رہے۔

ایک لطیفہ کی بات یہ ہوئی کہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اس محاذ پر بہت متحرک تھے ، بڑی گرم تقریریں کرتے تھے کہ قادیانیوں نے اسلم قریشی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، قادیانیوں نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ بڑی جذباتی تقریر کرتے تھے۔ فرماتے اگر ایسا نہ ہوا تو میرا خون معاف ہے، مجھے پھانسی پر لٹکا دو وغیرہ وغیرہ۔ ہم کہتے کہ مولانا ہمیں تو پتہ نہیں ہے کہ اسلم قریشی کہاں ہے۔ یقینی بات تو نہیں ہے کہ قادیانیوں نے اغوا کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہیں اور ہو۔ مولانا فرماتے کہ نہیں! انہوں نے اسے مار دیا ہے۔ سب سے زیادہ گرم تقریریں مولانا چنیوٹیؒ اور مولانا ضیاء القاسمیؒ کی ہوا کرتی تھیں۔ اسلم قریشی کا بیٹا صہیب قریشی ہمارے ساتھ ہوتا تھا اور اسلم قریشی کی والدہ بھی متحرک تھیں۔ ہم نے ایک ترانہ بنایا ہوا تھا جس طرح ایک پرانا ترانہ تھا: ؎ ’’بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔ ہم بوڑھی والدہ کو سٹیج پر لے گئے کہ یہ اسلم قریشی کی ماں ہے، ہم نے تقریر کے جملے رٹوائےاور تقریریں کروائیں تو اس گرما گرمی کی فضا میں اس کے نتیجے میں ہمیں صدارتی آرڈیننس ملا۔

سب معاملات گزر گئے، آرڈیننس کے بعد تحریک ٹھنڈی پڑ گئی کہ ہمارا بہت بڑا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد اسلم قریشی بازیاب ہوگیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں اس دن مولانا چنیوٹیؒ کے پاس چنیوٹ میں ہی تھا۔ کسی نے آ کر بتایا کہ اسلم قریشی بازیاب ہو گیا ہے اور اسے ٹی وی پر دکھا رہے ہیں۔ تو مولانا کہنے لگے یہ کدھر سے نکل آیا۔ میں نے کہا اب آپ اپنی تیاری کریں، آپ کو اپنی تقریریں تو یاد ہیں نا!

اسلم قریشی واپس آیا تو اس نے بتایا کہ میں ایران چلا گیا تھا ، وہاں میں نے شادی کر لی تھی اور میں وہیں رہا ہوں، مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ اسلم قریشی کہتا ہے میں جلسوں میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں، نعرے بھی سنتا رہا ہوں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا جو ہمارے ساتھ رو رو کر تقریر کرتا تھا، اس کو اس ساری صورتحال کا علم تھا۔ ہمارے ایک بزرگ نے مدینہ منورہ سے اپنا کشف بتایا تھا کہ اس کو ساہیوال کے کسی تہہ خانے میں رکھ کر جلا دیا گیا ہے ،اس کی ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں، یہ کر دیا گیا ہے وہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ وہ کہتا ہے میں آرام سے شادی کر کے بلوچستان بیٹھا رہا اور پھر وہاں سے ایران چلا گیا، اب واپس آ گیا ہوں۔ اسلم قریشی ابھی تک موجود ہے ۔ لیکن اس میں میرا تاثر بھی ریکارڈ پر آنا چاہیے۔ میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ یہ ساری خفیہ ایجنسیوں کی کاروائی تھی، صدر ضیاء الحق قادیانیوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہ رہا تھا، اس کے لیے یہ فضا بنائی گئی تھی، اور ہمیں تب اندازہ ہوا جب اسلم قریشی واپس آگیا ۔ مجھے بعض ذمہ دار افسروں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مولوی صاحب! زیادہ شور نہ کریں، ادھر ہی کہیں ہوگا، آجائے گا، اس نے کوئی نئی شادی وغیرہ کر لی ہوگی۔ میں سمجھتا تھا ویسے ہی ٹال رہا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ کچھ چکر تھا۔ اس لیے میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ سارا کچھ ملک میں فضا بنانے کے لئے پلاننگ تھی۔ اصل میں صدر ضیاء الحق ذاتی طور پر فوج میں بھی اور باہر بھی قادیانیوں کو بریک لگانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے فضا ہموار کی گئی اور ہم بڑی خوبصورتی کے ساتھ، بڑے اچھے طریقے سے استعمال ہوئے۔ لیکن ہمیں اس پر شرمندگی نہیں ہے کیونکہ ہم نے اچھے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

۱۹۸۴ء کی تحریک میں صدارتی امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ ہو گیا لیکن قادیانیوں نے نہ دستوری فیصلہ تسلیم کیا اور نہ صدارتی آرڈیننس تسلیم کیا۔ اس وقت بھی قادیانیوں نے کہا کہ ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے، ہم مسلمان ہیں، کوئی ہمیں کافر نہیں کہہ سکتا ، ہمیں غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ غلط ہے۔ آرڈیننس پر قادیانیوں کا موقف یہی تھا اور اب بھی ان کا موقف یہی ہے کہ ہم نہ دستوری فیصلے کو مانتے ہیں اور نہ آرڈیننس کو مانتے ہیں ۔ لیکن آرڈیننس کے بعد قادیانیوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ مقدمہ درج ہو جاتا تھا، ایف آئی آر درج ہوتی تھی۔ پھر مرزا طاہر احمد یہاں سے لندن منتقل ہو گیا۔ لندن میں قادیانیوں نے اسلام آباد کے نام سے مرکز بنایا ہوا ہے اور اپنا ہیڈکوارٹر وہاں لے گئے ہیں۔ مرزا طاہر احمد نے وہاں بیٹھ کر اپنا مورچہ بنایا اور انہوں نے اس طریقے سے کام شروع کیا کہ بین الاقوامی فورم پر انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدات کو آڑ بنا کر آواز اٹھائی کہ پاکستان میں ہمارے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، ہماری مذہبی آزادی متاثر ہو رہی ہے، اسے بنیاد بنا کر کام کرتے آ رہے ہیں۔

میں اس میں دو باتوں کا اضافہ کروں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۸۴ء کے آخر میں مرزا طاہر وہاں چلا گیا تھا۔ ۱۹۸۵ء یا ۱۹۸۶ء کی بات ہے انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن میں جا کر باقاعدہ درخواست دے دی کہ پاکستان میں ہماری مذہبی آزادی ختم کر دی گئی ہے ، ہماری سپورٹ کریں۔ اس وقت وزیر مذہبی امورراجہ ظفر الحق اور ریاض گیلانی ایڈووکیٹ جنرل تھے جو ہمارے وکلاء میں رہے ہیں، ختم نبوت کے وکیلوں میں معروف وکیل رہے ہیں۔ ختم نبوت کے مسئلے کو بھی سمجھتے ہیں ۔ وکلاء میں جن وکیلوں نے ختم نبوت پر باقاعدہ مشن کے طور پر کام کیا ہے ان میں رفیق تارڑ، راجہ ظفر الحق اور ریاض گیلانی شامل ہیں۔

ہمیں پتہ چلا کہ قادیانیوں نے وہاں درخواست دائر کی ہے کہ ہماری مذہبی آزادی ختم ہو گئی ہے اور ہمارے حقوق متاثر ہو رہے ہیں لہٰذا ہمیں سپورٹ کیا جائے۔ وہاں پروسیجر یہ ہے کہ کسی نے درخواست دی ہے تو وہاں پاکستان کا سفیر موقف پیش کرے گا۔ اس وقت جنیوا میں قادیانیوں کا معروف ڈوپلومیٹ منصور احمد سفیر تھا، جو چین میں بھی سفیر رہا ہے۔ ہمیں اس پر تشویش ہوئی کہ درخواست دہندہ بھی قادیانی ہے اور جواب دہندہ بھی قادیانی ہے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ اتفاق سے ایسا ہوا، یا ہو سکتا ہے کہ پلاننگ کر دی گئی ہو، لیکن واقعہ یہ تھا کہ درخواست بھی قادیانیوں کی طرف سے تھی اور جس نے۔۔۔۔ ہونا تھا وہ بھی منصور احمد قادیانی تھا۔

مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ میرے پاس آئے۔ ہمارا آپس میں مسلسل رابطہ تھا ، ہم جو بھی کام کرتے آپس کے مشورے سے کرتے تھے، مولانا کو کوئی مسئلہ ہوتا تو میرے پاس آتے کہ یہ کام کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، مجھے کوئی مسئلہ ہوتا تو میں ان کے پاس جاتا۔ اس موقع پر مولانا میرے پاس آئے کہ اب یہ مسئلہ ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ چلو چلتے ہیں راجہ ظفر الحق صاحب سے جا کر ملتے ہیں کہ پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے وفد جانا چاہئے، جنیوا میں پاکستان کا سفیر منصور احمد ہے جو قادیانی ہے، منصور احمد کو ہمارا دفاع نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ہماری فائلی کاروائی کرتے کراتے وہاں فیصلہ ہو چکا تھا۔ انسانی حقوق کمیشن نے فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان میں احمدیوں کی مذہبی آزادی ختم ہو کر رہ گئی ہے، ان کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اور حکومت پاکستان انسانی حقوق کی پامالی کی مجرم ہے۔ اسی بنیاد پر مرزا طاہر نے نیویارک میں جا کر لابنگ کی۔ اس وقت پاکستان کی امداد بند تھی اور بحالی کے لیے شرائط طے ہو رہی تھیں۔ ان شرائط پر ابھی تک بات چلی آ رہی ہے۔ مرزا طاہر نے انہیں تیار کیا تو انسانی حقوق کمیشن کی انسانی حقوق کی بنیاد پر وہاں ایک شرط کا اضافہ ہو گیا کہ پاکستان احمدیوں کے خلاف کیے گئے اقدامات کو ختم کرے۔ امریکہ کا یہ مطالبہ باضابطہ وہاں سے چلا ہے جو کہ اب تک جاری ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف جو دستوری اور قانونی اقدامات کیے گئے ہیں وہ ختم کیے جائیں۔

اس پس منظر میں ہم نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ہمیں بھی وہاں اپنے دفاع اور موقف پیش کرنے کے لیے جانا چاہیے۔ اس کا کوئی نظم نہیں بن سکا تو ہم دو آدمی ویسے ہی چلے گئے۔ مولانا میاں اجمل قادری صاحب نے کہا میں چلتا ہوں، آپ میرے ساتھ چلیں۔ میاں صاحب نے اپنا اور میرا ویزا لگایا ،ٹکٹ بھی میاں صاحب نے دیا۔ چنانچہ ہم وہاں گئے ۔ میں ۱۹۸۷ء میں سب سے پہلے امریکہ اسی کام کے لیےگیا تھا، اسی تحریک پر اور میاں صاحب کے خرچے اور انتظامات پر۔ لیکن وہاں جا کر ہم نے دیکھا کہ ہماری تو کسی تک رسائی ہی نہیں ہے، کہیں اپروچ ہی نہیں ہے تو دفاع کیسے کریں گے۔ وہاں تو اپروچ اور رابطہ چاہیے ۔ہم نے وہاں جا کر ماحول دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہاں اتنی بات ہے کہ میں قادیانیت کے مسئلے کو تھوڑا بہت سمجھتا ہوں اور میاں صاحب انگریزی اچھی بول لیتے تھے۔ اس لیے ہم اس کے سوا کچھ نہ کر سکے کہ وہاں مکی مسجد میں دس دن کا ختم نبوت کورس رکھا اور اپنے دوستوں کو قادیانیت سمجھا کر واپس چلے آئے۔ کیونکہ وہاں کے اعلیٰ حلقوں تک ہماری رسائی نہیں تھی اور نہ ہم وہاں کے ماحول سے واقف تھے۔ یہ ہے تحریک ختم نبوت کا تیسرا دور اور اس کے ثمرات و نتائج۔

(روزنامہ اسلام، کراچی ۔ ۳ تا ۱۳ مئی ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter