بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پاکستان جب بنا تو بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام ازسرنو لایا جائے گا اور مسلمانوں کی ثقافت اور عقائد پر ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب مختلف شعبوں میں کام کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ریاستی بینک ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کیا تو اس موقع پر ان کی تقریر ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے دو تین اصولی باتیں وہاں اپنی تقریر میں کہی تھیں:
(۱) ایک بات یہ کہی تھی کہ میں پاکستان کے معاشی نظام کی بنیاد مغرب کے معاشی اصولوں کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ اسلام کے معاشی اصولوں کے تحت دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے یہ بات صرف رسماً نہیں کہی بلکہ اس کے ساتھ دلیل دی کہ مغرب کے معاشی نظام نے دنیا کو جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے تجزیے کے مطابق پہلی جنگ عظیم بھی سودی نظام کی تباہ کاریوں کے باعث ہوئی تھی اور دوسری جنگ عظیم بھی معاشی کشمکش کے باعث ہوئی تھی۔ اگر مغربی معاشی نظام اسی طرح چلتا رہا تو یہ تیسری دفعہ بھی دنیا کو لڑانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا تجزیہ تھا کہ سودی نظام نے دنیا کو لڑائیوں، جھگڑوں اور مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں دیا، اس لیے وہ یہ چاہیں گے کہ پاکستان کے معاشی نظام کی بنیاد مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے۔
(۲) اس کے ساتھ انہوں نے ملک کے معاشی ماہرین کو یہ کہا کہ میں آپ حضرات کی اس محنت کا شدت سے انتظار کروں گا کہ آپ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ملک کے معاشی نظام کا کیسا خاکہ تیار کرتے ہیں۔ اس تقریر کے ساتھ پاکستان کے ریاستی بینک کا آغاز ہوا تھا، لیکن اس کے بعد عملاً اس حوالے سے کچھ نہیں ہوا، بلکہ جو بین الاقوامی معاشی نظام چلا آ رہا تھا اسی کے مطابق چلتا رہا اور معاشی ماہرین نے اور اسٹیٹ بینک نے ایک عرصہ تک کوئی پیشرفت نہیں کی۔
البتہ دینی جماعتوں کی قراردادوں اور علماء کی تقریروں میں یہ بات وقتاً فوقتاً ہوتی رہی کہ سودی نظام سے جان چھڑائی جائے اور غیر سودی نظام لایا جائے، لیکن عملاً سوائے اس کے کچھ نہیں ہوا کہ علماء کے بائیس نکات میں اور اس کے بعد جب بھی علماء نے کوئی متحدہ فورم بنایا ہے تو اس میں یہ بات ہوتی رہی کہ سودی نظام ختم کر کے ملک کے نظامِ معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنا چاہیے۔ یہ بات قراردادوں میں، بیانات میں اور مضامین میں چلتی رہی مگر نظام جیسا تھا ویسے ہی چلتا رہا، البتہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسے حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا کہ سودی نظام کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔
اس کے بعد ایک پیشرفت یہ ہوئی کہ جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ بنائی جس کا بنیادی کام یہ تھا کہ ملک کے قوانین کا جائزہ لے کر ازخود یا کسی شہری کے تقاضے پر غیر شرعی قوانین کی نشاندہی کرے اور اس کو منسوخ یا تبدیل کرنے کے لیے حکومت کو کہے۔ اس سے ایک راستہ مل گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے جو ملک میں سودی قوانین ہیں ان کو غیر شرعی قرار دے کر ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لینے اور ان کو شرعی یا غیر شرعی قرار دینے کا اختیار مل گیا مگر تین قوانین اس سے دس سال کے لیے مستثنیٰ کر دیے گئے: (۱) معاشی قوانین (۲) عائلی قوانین (۳) اور عدالتی پروسیجر۔
وفاقی شرعی عدالت باقی شعبوں میں اپنا کام کرتی رہی، اور جب دس سال گزر گئے تو دینی جماعتیں، جن میں اس وقت تمام مکاتبِ فکر کی مشترکہ ’’متحدہ علماء کونسل‘‘ تھی جس کا میں بھی حصہ تھا، اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے حضرات، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، اور مختلف دیگر حلقے وفاقی شرعی عدالت میں یہ رٹ لے کر گئے کہ اس کے ذمہ لگایا گیا ہے کہ وہ غیر شرعی قوانین کی نشاندہی کرے، ان کا متبادل تجویز کرے، اور حکومت کو ختم کرنے کے لیے اور تبدیل کرنے کے لیے کہے، تو ملک کے معاشی قوانین میں سے فلاں فلاں قانون سودی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے اور ان پر فیصلہ دیا جائے کہ یہ اگر غیر شرعی ہیں تو پھر وفاقی شرعی عدالت متبادل نظام تجویز کرے اور حکومت کو ان کے ختم کرنے کا پابند کرے۔
اس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل سے استفسار کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری کونسل ہے جس کا کام ملکی قوانین کے بارے میں رائے دینا ہے کہ کون سا قانون شریعت کے مطابق ہے اور کونسا شریعت کے مطابق نہیں ہے، اور اگر نہیں ہے تو اس کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے پوری تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کی کہ فلاں فلاں قوانین سودی ہیں اور ان کو تبدیل کرنے کے لیے یہ طریقہ کار ہے۔ جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے، ان کی سربراہی میں تفصیل سے جائزہ لے کر ایک رپورٹ مرتب کی گئی جو آج بھی سود کے مسئلے پر سب سے جامع رپورٹ سمجھی جاتی ہے۔ اس زمانے میں اسے شائع کرنے کی اجازت نہیں تھی تو ہم نے حیلے بہانے سے اس کا خلاصہ چھاپا تھا، لیکن اب کتابی شکل میں موجود و میسر ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے نہ صرف ملک میں، بلکہ عالمی سطح کے معاشی ماہرین اور مسلم دنیا کے معاشی ماہرین کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی تھی جو دنیا میں بہت پسند کی گئی کہ غیر سودی نظام کے لیے ایک اچھی بنیاد انہوں نے فراہم کر دی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت میں بحث چلتی رہی اور بہت سوالات اٹھے کہ مرکب سود کیا ہے، مفرد سود کیا ہے، تجارتی سود کیا ہے، قرضے کا سود کیا ہے، کون سا ہونا چاہیے، کون سا نہیں ہونا چاہیے۔ تمام سوالات، اشکالات اور مباحث جو پیش کیے جا سکتے تھے اور جتنے پیش کیے گئے سب کو دو فورموں پر ڈسکس کیا گیا (۱) اسلامی نظریاتی کونسل کے فورم پر (۲) اور وفاقی شرعی عدالت کے فورم پر۔ یہ دونوں مشترکہ فورم ہیں جن میں تمام مکاتب فکر کے علماء، جدید معاشی ماہرین اور جج صاحبان شریک ہیں۔ دونوں کے طویل بحث و مباحثہ کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ فلاں فلاں قوانین سودی ہیں، شریعت کے خلاف ہیں، لہٰذا ان کی جگہ متبادل نظام تجویز کیا اور حکومت پاکستان سے کہا کہ یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت نے ایک سال کا وقت دیا کہ اس کے اندر اس کو تبدیل کیا جائے۔ توقع تھی کہ شاید ہو جائے گا لیکن سال گزرنے سے پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ میں مسئلہ چلا گیا۔ وہ بھی دستوری اور عدالتی فورم ہے۔ اس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مولانا پیر کرم شاہ صاحب تھے، دیگر جج صاحبان بھی تھے۔ بڑا اچھا مشترکہ فورم تھا، اس نے اپیل کی سماعت کی، دوبارہ سوالات جوابات، شکوک و شبہات کا سلسلہ چلا۔ سپریم کورٹ نے بالآخر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی، اور اس کے خلاف جو رٹ تھی وہ خارج کر دی کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ درست ہے اور اس کو نافذ کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہو گیا تو اب بظاہر اس کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تھی۔ اس میں پھر حکومت خود تو فریق نہیں بنی لیکن ایک بینک کی طرف سے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی۔ نظر ثانی کی اپیل یہ ہوتی ہے کہ جس بینچ نے فیصلہ کیا ہوتا ہے اس کو توجہ دلائی جائے کہ ایک دفعہ پھر غور کر لیں، ممکن ہے کوئی سقم رہ گیا ہو تو سیدھا کر لیا جائے۔ یہ فیصلہ کے خلاف اپیل نہیں ہوتی بلکہ نظر ثانی کی اپیل ہوتی ہے۔ یہ عدالتی روایت اور تاریخ چلی آ رہی ہے کہ جو بنچ فیصلہ کرتا ہے نظرثانی کی اپیل بھی وہی سنتا ہے۔
ہمارے ہاں رولنگ کلاس کی ایک بڑی مخصوص تکنیک ہے کہ جس معاملے کو لٹکانا ہو اس کو کھینچ تان کر سپریم کورٹ تک لے جاتے ہیں اور اس کے ڈیپ فریزر میں ڈال دیتے ہیں۔ قومی سطح کے بیسیوں فیصلے سپریم کورٹ کے ڈیپ فریزر میں پڑے ہوئے ہیں، کبھی ڈھکن اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو بڑی بڑی اہم چیزیں نظر آئیں گی۔ تکنیک یہ تھی کہ انتظار کیا جائے کہ جس بنچ نے فیصلہ کیا تھا وہ بنچ ختم ہو جائے۔ اصل میں ایک بات اور درمیان میں سمجھنے کی یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے ارکان کنٹریکٹ بیس پر ہوتے ہیں، باقاعدہ ججوں سے ان کی مراعات کم ہوتی ہیں، سٹیٹس کم ہوتا ہے اور تحفظ نہیں ہوتا۔ ایک بڑا تاریخی موقع آپ کو یاد ہوگا کہ لاہور کے ایک جسٹس صاحب کو وفاقی شرعی عدالت میں منتقل کیا گیا تو انہوں نے جانے سے انکار کر دیا کہ میں پکی ملازمت پر رسک کی ملازمت کو ترجیح نہیں دیتا۔
چنانچہ جن ججوں نے فیصلہ کیا تھا ان کی مدتِ ملازمت کے ختم ہونے کا انتظار کیا گیا، اور نیا کنٹریکٹ ان کی بجائے اور لوگوں سے کر لیا گیا، اور پھر اس نئے بنچ کے سامنے اپیل دائر کر دی گئی۔ ہمارے ہاں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی کو نکال دیا گیا تھا، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی کنٹریکٹ کی مدت پوری کی تھی اور اگلی مدت کی توثیق نہیں ہوئی، بلکہ کسی اور سے کنٹریکٹ کر لیا، تو فیصلہ کرنے والا بنچ اور تھا اور نظرثانی کی اپیل سننے والا بنچ اور تھا۔
نئے جج صاحبان نے بھی عجیب صورت اختیار کی کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ فیصلہ غلط ہوا ہے، بلکہ یہ کہا کہ چونکہ سماعت میں فلاں فلاں جگہ تھوڑا سا پروسیجر میں سقم رہ گیا ہے اس لیے ازسرنو سماعت کی جائے۔ یوں انہوں نے اٹھارہ سال پیچھے زیرو پوائنٹ پر لے جا کر کھڑا کر دیا جہاں سے دوبارہ سماعت کرنی تھی۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت میں پہلی دفعہ رٹ دائر ہونے کے بعد اس مرحلے تک پہنچنے میں اٹھارہ سال لگے تھے۔ اس پر میں نے لکھا تھا کہ ہمیں تو لڈو کا سانپ ڈس گیا ہے۔ میں نے یہ فیصلہ کرنے والے ایک جج صاحب سے بات کی کہ کیا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ غلط تھا؟ انہوں نے کہا صحیح تھا، ہم نے اس کو غلط کہہ کر کیا کافر ہونا تھا، ہم بھی مسلمان ہیں۔ ہم نے اس فیصلے کو غلط نہیں کہا لیکن فیصلہ روکنا تھا اس لیے ہم نے کہہ دیا کہ اس کی ازسرنو سماعت کی جائے۔ بہرحال اس کے ساتھ ہی اٹھارہ سال کی ساری محنت کنارے لگ گئی۔
وفاقی شرعی عدالت کے سامنے پھر وہ کیس رکھ دیا گیا کہ ازسرنو سماعت کریں۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے تو خاموش رہی، کئی سال گزر گئے۔ آج سے کئی سال پہلے وفاقی شرعی عدالت نے ’’فریزر‘‘ سے نکالا اور کہا کہ ہم سماعت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسائل اور سوالات و اشکالات جن پر اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ میں بحث و مباحثہ ہو چکا تھا، سارے مراحل طے ہو چکے تھے اور تین دفعہ چھلنیوں سے گزر چکے تھے، وہی سوالات پھر سوالنامہ بنا کر ازسرنو جاری کر دیا کہ یہ مفرد سود ہے یا مرکب سود ہے، تجارتی سود ہے یا قرضے کا سود ہے؟ یہ صورت کیا ہے وہ صورت کیا ہے؟ تیس سوالات پر مشتمل سوالنامہ سارے ملک کے علماء کو بھجوا دیا کہ اس کا جواب دیں۔
”ملی مجلس شرعی پاکستان“ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا علمی و فکری قسم کا مشترکہ فورم ہے جس میں بریلوی بھی ہیں، دیوبندی بھی ہیں، اہل حدیث بھی ہیں اور شیعہ بھی ہیں۔ اس میں مختلف مکاتب فکر کے پندرہ بیس سرکردہ علماء ہیں۔ کوئی ایسا مسئلہ ہوتا ہے تو ہم مل بیٹھ کر ایک مشترکہ رائے دے دیتے ہیں تاکہ جھگڑا نہ ہو۔ ہمارا اتنا ہی کام ہے۔ پہلے مفتی محمد خان قادری صاحب اس کے صدر تھے، میں نائب صدر تھا۔ ان کی وفات کے بعد اب صدارت کی ذمہ داری میرے پاس ہے۔ اس میں حافظ عبد الغفار روپڑی صاحب ہیں، ڈاکٹر محمد امین صاحب سیکرٹری جنرل ہیں، حافظ عاکف سعید صاحب، جماعت الدعوۃ والے حضرات اور المنتظر والے بھی ہیں۔ ہم نے کئی مسائل پر کام کیا ہے، مشترکہ رائے دی اور خلفشار کو روکا ہے۔
اس فورم پر الحمد للہ سب سے بڑا کام میں سمجھتا ہوں کہ جو اکتیس سرکردہ علماء کرام کے جو بائیس نکات تھے، ہم نے تمام مکاتب فکر کے ستاون اکابر علماء کو جمع کر کے اس کی دوبارہ توثیق کروائی کہ ہمارا موقف آج بھی یہی ہے۔ لاہور میں کانفرنس ہوئی جس میں توثیق کی گئی ہمارا موقف وہی ہے اور اسلامائزیشن پر ہمارا دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کا کوئی جھگڑا نہیں ہے اور ہم متفق ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی مجلس شرعی کا سب سے اہم کام یہ ہے۔
اس وقت سود کے معاملے پر بھی ہم نے دو کاموں کا فیصلہ کیا۔ سرکاری حلقوں کی تکنیک یہ تھی کہ ایک سوالنامہ جاری کریں گے، مختلف علماء کو بھجوا دیں گے تو ظاہر بات ہے کہ الگ الگ جواب لکھا جائے گا تو اس میں اختلاف یقیناً ہو گا، حالانکہ اختلاف سو میں سے ایک بات پر ہو گا باقی نناوے پر متفق ہوں گے، لیکن اتفاقات کو کوئی نہیں چھیڑے گا۔ اس لیے ہم نے طے کیا کہ جواب متفقہ دینا ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنائی، چھ مہینے محنت کی، متفقہ جوابات مرتب کیے اور تمام بڑے بڑے اداروں سے جامعہ اشرفیہ، جامعہ المنتظر اور جامعہ نعیمیہ طرز کے بڑے اداروں سے دستخط کروائے، اور تمام مکاتب فکر کا متفقہ جوابنامہ ہم نے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج کر ریکارڈ میں جمع کروایا۔
اس کے بعد سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کے لیے ’’تحریکِ انسداد سودپاکستان‘‘ کے نام سے مشترکہ فورم تشکیل پایا جس میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام شامل ہیں اور کنوینر کی ذمہ داری میرے سپرد ہے اور گزشتہ چند سالوں سے یہ فورم اس محاذ پر کام کر رہا ہے۔ حالیہ آئینی ترامیم میں سودی نظام کے خاتمہ کی حتمی تاریخ ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ء طے ہو جانے کے بعد اس محاذ اور فورم کو ازسرنو منظم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے گوجرانوالہ، لاہور، کراچی اور دیگر مقامات میں مشاورتی نشستیں ہو چکی ہیں۔ تحریک انسداد سود پاکستان کو ملک گیر سطح پر منظم کر کے حکومت کو دستوری فیصلہ کے مطابق تین سال میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے تیار کرنا اور اس کے لیے معاونت فراہم کرنا ہماری ذمہ داری بن گیا ہے۔ ملک بھر کے علماء کرام، کارکنوں، تاجر برادری اور وکلاء سے گزارش ہے کہ وہ ملک کو سودی نظام سے پاک کرنے کی اس جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوں تاکہ ہم اس اہم دینی و ملّی ضرورت کی تکمیل کی طرف مؤثر پیشرفت کر سکیں، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔