۱۸ جون ۲۰۰۰ء کو دھیر کوٹ آزاد کشمیر کے مقامی صحافیوں کی تنظیم ’’گروپ آف ایسوسی ایٹڈ جرنلسٹس‘‘ نے ایک ہوٹل میں ’’مسئلہ کشمیر اور عالمی سازشوں کا آغاز‘‘ کے عنوان پر سیمینار کا اہتمام کیا جس میں آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عبد القیوم خان اور راقم الحروف کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ جبکہ گروپ کے چیئرمین جناب عابد علی عابد اور سیکرٹری جناب محمد ندیم نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔ گروپ کے منتظمین کی طرف سے شرکاء کو بتایا گیا کہ مسئلہ کشمیر نے مجاہدین کی قربانیوں کی وجہ سے کارگل کے معرکہ کے بعد پھر سے عالمی سطح پر ایک اہم ایشو کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اس کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچانے کے لیے کشمیری عوام کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اس قسم کی فکری نشستوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور کشمیری عوام کے خلاف سازشوں سے ارباب علم و دانش اور عوام کی آگاہی کا سامان ہوتا رہے اور اسی مقصد کے لیے یہ سیمینار منعقد کیا گیا ہے۔ سردار محمد عبد القیوم خان نے زیر بحث موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی اور بعد میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے جن میں سے زیادہ تر سوالات ان کے بعض متنازعہ بیانات کے بارے میں تھے۔ جبکہ اگلے روز سردار صاحب سے ان کے گھر غازی آباد میں ناشتے کی میز پر بھی مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔ سردار عبد القیوم خان موجودہ حالات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر، عالمی سازشوں، جہاد اور بین الاقوامی سرگرمیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اس کے بارے میں اگلے کالم میں کچھ گزارشات پیش کی جائیں گی، سردست ان معروضات کو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے جو مذکورہ سیمینار میں راقم الحروف نے شرکاء کے گوش گزار کی ہیں۔
راقم الحروف نے اس سیمینار میں اظہار خیال کی دعوت دینے پر ’’گروپ آف ایسوسی ایٹڈ جرنلسٹس دھیر کوٹ‘‘ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا کہ کشمیری عوام اور خطۂ کشمیر کے خلاف عالمی سازشوں کے آغاز والی بات مجھے عجیب سی لگی ہے اس لیے کہ ان سازشوں کا آغاز آج نہیں ہوا بلکہ ان کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے بلکہ انہی سازشوں کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر پیدا ہوا اور اس مقام تک پہنچا ہے۔
- کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے اور یہاں صدیوں تک مسلم اقتدار قائم رہا ہے لیکن کشمیر کے مسلم تشخص کو نظر انداز کرتے ہوئے اس خطہ جنت نظیر کو چند ٹکوں کے عوض ہندو ڈوگروں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا جو کشمیری عوام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی۔
- تقسیم ہند کے موقع پر نظریاتی، جغرافیائی، اور ثقافتی ہر لحاظ سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھا جا رہا تھا لیکن تقسیم پنجاب کے فارمولا میں جان بوجھ کر گورداس پور کو بھارت کے حوالہ کرنے کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد انڈیا کو کشمیر تک زمینی راستہ فراہم کرنا اور اسے فوجی دخل اندازی کا موقع دینا تھا۔ اگر گورداس پور بھارت کے حصہ میں نہ جاتا تو کشمیر کا مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن انگریزوں نے سازش کر کے اس مسئلہ کو کھڑا کیا اور یہ سازش صرف کشمیری عوام کے خلاف نہیں تھی بلکہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے تمام لوگوں کے خلاف تھی جس کے ذریعہ اس خطہ کے ممالک کو آمنے سامنے کھڑا کر کے ان کے وسائل اور توانائیوں کو ترقی و خوشحالی میں صرف ہونے کی بجائے باہمی محاذ آرائی کی آگ میں نصف صدی سے جھونکا جا رہا ہے۔
- پھر یہ بھی کشمیری عوام کے خلاف سازش تھی جب ۱۹۴۸ء کی جنگ میں سیز فائر قبول کر کے مجاہدین کشمیر کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور عالمی قوتوں اور برادری نے اس مسئلہ کو کشمیری عوام کے ہاتھ سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کے بعد اسے دھیرے دھیرے سرد خانے میں ڈال دیا۔ عالمی برادری نے اس مسئلہ کو ہاتھ میں لے کر کشمیری عوام سے وعدہ کیا کہ یہ مسئلہ ان کی آزادانہ رائے کے ذریعہ حل کیا جائے گا مگر اس وعدہ کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اقوام متحدہ یا عالمی برادری کشمیری عوام کو ان کا یہ مسلمہ حق دلوانے کے لیے ابھی تک سنجیدہ نہیں ہے۔
- آج اگر کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی سطح پر اہم حیثیت اختیار کر گیا ہے تو اس کے پیچھے مجاہدین کشمیر کی عظیم قربانیاں، کم و بیش ستر ہزار شہداء کی جانوں کا نذرانہ، اور جہاد کشمیر کی وہ صبر آزما جدوجہد ہے جس میں نہ صرف مجاہدین بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عام کشمیری مسلمان بھی ایثار اور قربانی کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر رہے ہیں۔ اس جہاد کا اصل سرچشمہ جہاد افغانستان ہے جس نے کشمیر، فلسطین، کسووو، بوسنیا، چیچنیا، صومالیہ، اری ٹیریا، مورو، اراکان اور دنیائے اسلام کے دیگر علاقوں کے حریت پسندوں کو ہتھیار پکڑنا اور ظالم و غاصب کفار کے مقابلہ میں صف آراء ہونا سکھایا ہے اور اسی کی کوکھ سے جہاد کشمیر نے بھی جنم لیا ہے جو آج پورے جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کی توجہات کو اپنی جانب مبذول کیے ہوئے ہے۔
- عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت میں اضافہ کے لیے کارگل کے معرکہ اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے مگر اس میں بنیادی کردار مجاہدین کشمیر کا ہے جو اپنی جانوں پر کھیل کر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کی اہمیت میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔
اس پس منظر میں بین الاقوامی سطح پر جو قوتیں اور ادارے مسئلہ کشمیر میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کے حل کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں متحرک نظر آتے ہیں ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
- وہ ممالک جن کے مفادات اس مسئلہ کے ساتھ وابستہ ہیں، مثلاً امریکہ، چین، وسطی و جنوبی ایشیا کے ممالک، اور دیگر علاقائی قوتیں جو ظاہر ہے کہ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کریں گی۔ ان کے مفادات میں ٹکراؤ بھی ہوگا اور یہ مفادات اور ان کا ٹکراؤ مسئلہ کشمیر کے حل پر اثر انداز بھی ہوگا۔
- وہ قوتیں جو جہاد افغانستان کے عالمی اثرات بالخصوص دنیائے اسلام میں جہادی تحریکات کے آغاز اور اسلامی گروپوں کی بیداری سے پریشان ہیں اور اس میں اضافہ کو ہر قیمت پر روکنا چاہتی ہیں۔ ان قوتوں کی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کو جہاد کے حوالہ سے الگ کر دیا جائے اور کشمیر کی اسلامی حیثیت اور مجاہدین کشمیر کی جدوجہد کے حوالے سے کاٹ کر مسئلہ کشمیر کو ایک علاقائی مسئلہ کے طور پر حل کیا جائے۔
- کچھ ادارے اور گروپ مخلص بھی ہوں گے جو فی الواقع اس مسئلہ کو حل کر کے علاقائی کشیدگی کو کم کرنا چاہتے ہیں اور کشمیری عوام کے حقوق اور آزادی سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں بین الاقوامی طور پر متحرک سب گروپوں کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ہر ایک کی کوشش کو سازش تصور کر لینا چاہیے بلکہ ان کے پس منظر، دلچسپی کی وجوہ اور مقاصد و عزائم کا تجزیہ کر کے انہیں ڈیل کرنا چاہیے۔
البتہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سازش، مفادات اور خیر خواہی کے عوامل میں فرق معلوم کرنے کے لیے ہمیں کوئی نہ کوئی حد فاصل اور اصول ضرور قائم کر لینا چاہیے اور میرے خیال میں اس سلسلہ میں دو نکتے کسوٹی کا کام دے سکتے ہیں اور انہیں بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے۔
- جموں و کشمیر کی وحدت کا برقرار رہنا اس خطہ کے عوام کا تاریخی حق ہے، اس لیے جو فارمولا یا کوشش کشمیر کی وحدت کو ختم کرنے اور اس خطہ جنت نظیر کو تقسیم کرنے کے حوالہ سے ہو میرے نزدیک وہ کشمیری عوام کے خلاف سازش ہے اور ایسی ہر کوشش کو مسترد کرنا چاہیے۔
- کشمیر کی اسلامی نظریاتی حیثیت ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے جہاد کشمیر کے دوران لاکھوں کشمیری عوام کی مختلف النوع اور بے پناہ قربانیوں بالخصوص کم و بیش ستر ہزار شہداء کے خون نے اور زیادہ مستحکم کر دیا ہے، اس لیے جو فارمولا یا کوشش کشمیر کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے یا کمزور کرنے کی غرض سے سامنے آئے وہ بھی کشمیر اور کشمیری عوام کے خلاف سازش ہے اور اسے سازش کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔