قرآن کریم کا خصوصی اعجاز

   
بزم حفاظ کرام، گوجرانوالہ
چیمبر آف کامرس، گوجرانوالہ
۱۱ جنوری ۲۰۱۵ء

(چیمبر آف کامرس گوجرانوالہ کے ہال میں بزم حفاظ کرام گوجرانوالہ کی سالانہ تقریب سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزم حفاظ قرآن کریم کے امیر قاری محمد فاروق شاہد صاحب (مدرس جامعہ نصرۃ العلوم) اور ان کے رفقاء کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ سالہا سال سے اس تقریب کا تسلسل کے ساتھ اہتمام کر رہے ہیں اور حفاظ کرام کی حوصلہ افزائی کے اس پروگرام میں مجھے بھی شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔

قرآن کریم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کے اعجاز کا اظہار اس کے نزول سے اب تک مسلسل ہو رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ قرآن کریم کے اعجاز کے بہت سے پہلو ہیں جن کی طرف اہلِ علم توجہ دلاتے آرہے ہیں اور ہر زمانے میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن کریم کے اعجاز کے کسی نئے پہلو کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔

یہ بھی قرآن کریم کے اعجاز کا ایک نمایاں پہلو ہے کہ یہ انسان کے سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے اور محفوظ رہتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، سنتے ہیں، سناتے ہیں، پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں اور نمازوں میں اس کی قرأت کرتے ہیں۔ اس وقت بھی میرے سامنے اس ہال میں سینکڑوں حفاظ موجود ہیں جو اکثر نو عمر بچے ہیں، یہ اپنی اپنی باری پر قرآن کریم کی تلاوت کریں گے اور سنائیں گے۔ یہ اعزاز اور اعجاز قرآن کریم کی خصوصیت ہے جو اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے اور اس پر میں عزیز طلبہ اور حفاظ کو دور حاضر کے ایک دو واقعات ایمان کی تازگی کے لیے آج سنانا چاہتا ہوں۔

سرگودھا ہمارے ملک کا اہم شہر ہے، اس کے ساتھ ایک قصبہ ’’دودہ‘‘ کہلاتا ہے، پاکستان کے قیام کے وقت جب یہاں سے ہندو اور سکھ خاندانوں کی اکثریت ترک وطن کر کے بھارت چلی گئی تو کچھ خاندان یہاں بھی رہ گئے تھے اور دودہ میں بعض سکھ خاندان ایسے تھے جنہوں نے یہیں رہنا پسند کیا تھا۔ ان میں سے کسی خاندان کا ایک لڑکا سکول میں مسلمان لڑکوں کے ساتھ پڑھتا تھا اور انہیں قرآن کریم پڑھتے اور یاد کرتے ہوئے دیکھ کر اس کے دل میں شوق پیدا ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنی مذہبی کتاب ’’گرو گرنتھ‘‘ یاد کرے۔ اس کا کہنا ہے کہ بڑی محنت کے باوجود اسے گرنتھ کا کوئی حصہ یاد نہیں ہوتا تھا، اور اگر کچھ یاد کر لیتا تو وہ یاد رہتا نہیں تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ ہائی سکول میں پڑھنے والے مسلمان طلبہ کو قرآن کریم کا کوئی نہ کوئی حصہ یاد ہوتا تھا بلکہ بعض قرآن کریم کے حافظ بھی تھے جو رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن کریم سناتے تھے۔ یہ دیکھ کر اسے اپنے ان ساتھیوں پر رشک اور خود پر غصہ آتا تھا مگر کافی عرصہ محنت کرنے کے باوجود وہ گرنتھ کا کچھ حصہ بھی یاد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

اس سے اس کے دل میں قرآن کریم کی عظمت کا احساس پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے قبولِ اسلام تک پہنچ گیا۔ اس لڑکے نے اسلام قبول کیا اور دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی جامعہ دار العلوم کراچی میں دورۂ حدیث کیا اور پھر وہیں فقہ میں تخصص کا کورس کر کے مفتی بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ نوجوان آج کل امریکہ کے شہر ہیوسٹن کے ایک مدرسہ میں مولانا مفتی عبد الواحد کے نام سے دینی خدمات سرانجام دے رہا ہے، میری اس سے ملاقات ہیوسٹن میں ہی ہوئی تھی اور اس سے قبولِ اسلام کے واقعہ سن کر قرآن کریم کے اعجاز پر ایمان میں اضافہ ہوا تھا۔

یہ قرآن کریم کا اعجاز بھی ہے اور اعزاز بھی کہ وہ یاد ہوتا ہے اور یاد رہتا ہے اور اس وقت دنیا میں ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ حفاظ کرام موجود ہیں۔ میں بچوں کو ایک اور واقعہ بھی سنانا چاہتا ہوں کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہمارے ایک بزرگ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب رہتے تھے، حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے اور حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے شاگردوں میں سے تھے۔ پیرس میں انہوں نے دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، فرانسیسی زبان میں انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا تھا اور ان کے ہاتھ پر ہزاروں فرانسیسیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے ایک فرانسیسی نے اپنے قبولِ اسلام کا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ وہ فرانسیسی زبان کا مقبول ترین گلو کار تھا اور موسیقی کے فن سے گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ اسے ایک بار پیرس میں کسی عرب ملک کے سفارت خانے کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں ایک مجلس میں کسی کو قرآن کریم پڑھتے سُنا، اسے پڑھنے والے کی آواز اور لہجہ بہت اچھا لگا مگر یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون سی زبان میں اور کون سا کلام پڑھ رہا ہے۔ پھر تلاش کر کے وہ ایسی بعض مجالس میں شریک ہوا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کلام کیا ہے اور کونسی میوزک میں پڑھا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کی مختلف موسیقیوں سے واقف تھا لیکن اس پڑھنے والے کا لہجہ کسی میوزک کے دائرے میں فٹ نہیں ہو رہا تھا مگر اسی سے سکونت بہت محسوس ہوتا تھا اور بہت لطف آتا تھا۔ اس فرانسیسی نے بتایا کہ ایک بار اس نے یہ کلام پڑھنے والے سے ملاقات کی اور کہا کہ میں بہت کوشش کے باوجود یہ نہیں طے کر سکا کہ آپ یہ کلام کون سی موسیقی کے مطابق پڑھتے ہیں جبکہ میں دنیا کی اکثر موسیقیوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو یہ موسیقی ہے اور نہ ہی یہ کلام گانا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے اور اسے پڑھنے کا طریقہ بھی ہمیں انہوں نے ہی بتایا ہے۔

فرانسیسی موسیقار کا کہنا ہے کہ پڑھنے والے کے لہجے اور طرز کے بارے میں تو میرا دل پہلے ہی فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ کسی انسان کی تخلیق نہیں بلکہ الہامی لگتا ہے، جبکہ پڑھنے والے کی یہ فصاحت سن کر میرے دل نے گواہی دی کہ اگر یہ لہجہ الہامی ہے تو پھر کلام بھی انسانی نہیں بلکہ الہامی ہے اور میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آج کی اس بابرکت محفل میں عزیز طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آپ کے سینوں میں محفوظ ہے اور اسے آپ کو بار بار پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ آپ سب کے اس اعزاز کو قائم رکھیں اور دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter