(’’اجتماع السالکین‘‘ کے عنوان سے روحانی اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ مولانا میاں عبد الوحید اشرفی صاحب کی مہربانی ہے کہ اپنے روحانی سلسلہ کے ان اجتماعات میں وقتاً فوقتاً یاد کرتے ہیں، کچھ بزرگوں کی زیارت ہوتی ہے، دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور چند گزارشات پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔
آج کا یہ اجتماع ’’سالکین‘‘ کے عنوان سے ہے۔ سلوک، احسان اور تزکیہ تصوف کی اصطلاحات میں ہیں جو اصلاحِ نفس کے حوالہ سے صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے دائروں میں اپنا اپنا مفہوم اور دائرہ کار رکھتی ہیں۔ میں تفصیلات میں جائے بغیر اس سلسلہ کے دو پہلوؤں پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ نسبت کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ اصلاح اور تزکیہ کے لیے قرآن کریم نے کیا نصاب بیان فرمایا ہے؟
بزرگوں کے ساتھ نسبت ہمارے ہاں بہت اعزاز، برکت اور اعتماد کی بات سمجھی جاتی ہے اور اس کا بڑے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ فی الواقع یہ اعتماد اور اعزاز کی بات ہے اور اس کی بے حد برکات ہوتی ہیں، لیکن یہ نسبت دو دھاری تلوار ہے جو دونوں طرف چلتی ہے، اس کے فائدے اور برکات بھی بہت زیادہ ہیں لیکن اگر اس کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں تو دوسری طرف بات چلی جاتی ہے۔
دنیا میں محبت رازداری، اعتماد اور بے تکلفی کے حوالہ سے ہے وہ بڑی نسبت میاں بیوی کی ہوتی ہے، اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دونوں پہلوؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا تذکرہ کیا جو مسلمانوں کی مائیں ہیں اور امت کی بزرگ ترین خواتین ہیں۔ اسی طرح اصلاح، تزکیہ اور طہارت کے لیے ضروری اعمال کا ذکر فرمایا ہے اور یہ دونوں سورۃ الاحزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ کی مختلف آیات کریمہ کا خلاصہ اپنی ترتیب اور اسلوب کے ساتھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق چلو گی تو تمہیں دوہرا اجر ملے گا، لیکن اگر کسی غلط حرکت کا ارتکاب کرو گی تو عذاب بھی ڈبل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی نسبت بڑی نعمت ہے اگر اس کے تقاضے پورے ہوں تو دوہرے اجر کا باعث بن جاتی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یہی نسبت دوہرے عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
اسی طرح فرمایا ’’لستن کأحد من النسآء ان اتقیتن‘‘ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو مگر اس وقت جب تم تقویٰ اختیار کرو۔ یعنی نسبت کی برکات اور فوائد کے لیے تقویٰ شرط ہے، اگر ایمان اور تقویٰ نہ ہو تو یہ نسبت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے کام بھی نہیں آتی۔ گویا نسبت کا اعزاز اور برکات دونوں ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط ہیں۔ یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ماحول کی بات بیان کی گئی ہے تو وہاں سے ہٹ کر اپنی نسبت کیسے کام کر سکتی ہے؟
اس حوالہ سے ایک اور حساس بات اور بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھریلو زندگی کے لیے بہتر سہولتوں کا تقاضہ کیا تھا، جو ناجائز نہیں تھا اور بظاہر ان کا حق بھی تھا، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا اور کہا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جس حالت میں ہو اسی طرح رہنا ہوگا، اور اگر اس سے زیادہ کا تقاضہ ہے تو وہ سہولتیں اس گھر میں نہیں ملیں گی، اس کے لیے نبی اکرم اصلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نسبت سے متعلقہ معاملات میں صرف جواز عدم جواز کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس ماحول کے تقاضوں کا لحاظ بھی ضروری ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ماحول جس فقر و فاقہ کا عادی ہے، اس کے مطابق رہنا ہی وہاں کا تقاضہ ہے۔ اس کی آسان تعبیر کے لیے مثال دے رہا ہوں کہ گو یا یہ کہا جا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہنا ہے تو وہاں کی ’’ایس او پیز‘‘ کی پابندی کرنا ہوگی ورنہ اس گھر میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
اسی طرح روحانی نسبتوں کی بات ہے کہ ہر سلسلہ کا اپنا ماحول اور دائرہ ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کے ساتھ منسلک ہونے والوں کے لیے وہاں کے ’’ایس او پیز‘‘ یعنی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رضا ضروری ہے، دوسرے کسی سلسلہ کے قواعد و ضوابط ناجائز اور غیر شرعی نہیں ہیں۔ لیکن جس سلسلہ سے تعلق ہے وہاں کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے جس بزرگ کی نسبت سے تعارف اور برکات حاصل کرنا مقصود ہے ان کے ماحول کو بھی قبول کرنا ہو گا ورنہ نسبت کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ گزارشات تو نسبت کے حوالہ سے ہیں کہ
(۱) نسبت سے فائدہ اور برکات حاصل کرنے کے لیے ایمان اور تقویٰ شرط ہے۔
(۲) نسبت سے جہاں ثواب ڈبل ہوتا ہے وہاں اس کی ناقدری سے عذاب بھی ڈبل ہو جاتا ہے۔
(۳) جس بزرگ سے نسبت ہے اس کے ماحول اور قواعد و ضوابط کی پاسداری بھی ضروری ہوتی ہے۔
اب تزکیہ و طہارت کے ضروری اعمال کی طرف توجہ فرما لیں جو انہیں آیات میں مذکور ہیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو ’’یطھرکم تطھیرا‘‘ پاکیزگی کا ماحول دینا چاہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے ان پر ایک نظر ڈال لیں:
(۱) ’’ فلا تخضعن بالقول‘‘ اپنی آواز میں ایسی لچک نہ پیدا کریں جس سے بیمار دل والے شخص کے دل میں طمع پیدا ہو۔
(۲) ’’قلن قولاً معروفا‘‘ آواز اور لہجے کو کنٹرول رکھتے ہوئے ہی گفتگو سلیقہ اور معروف طریقہ سے کریں۔
(۳) ’’قرن فی بیوتکن‘‘ اپنے گھروں میں رہیں اور بلا ضرورت نہ گھومیں پھریں۔
(۴) ’’لا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ‘‘ جاھلیت اولیٰ کے ماحول کی طرح اپنی زینت کی نمائش اور اظہار نہ کریں۔
(۵) ’’اقمن الصلوٰۃ‘‘ نماز کی پابندی کریں۔
(۶) ’’اٰتین الزکوٰۃ‘‘ زکوٰۃ ادا کرتی رہیں۔
(۷) ’’اطعن اللّٰہ و رسولہ‘‘ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کریں۔
(۸) ’’واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من آیات اللّٰہ والحکمۃ‘‘ تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی جو آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ اور اسی طرح حکمت بھی یاد کرو اور یاد رکھو۔ قرآن کریم میں عام طور پر جہاں حکمت کا لفظ قرآن کریم کے ساتھ بیان ہوا ہے مفسرین نے اس سے مراد سنت لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور قرآن و سنت کو یاد بھی رکھیں اور ان کا تذکرہ بھی کرتی رہیں۔
یہ اعمال وہ ہیں جن کا ذکر ’’ویطھرکم تطھیرا‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ طہارت حاصل کرنے اور تزکیہ و اصلاح سے ہمکنار ہونے کے لیے ان آٹھ اعمال کا اہتمام ضروری ہے۔ احسان و سلوک کے ماحول میں نسبت اور تزکیہ و طہارت دو بڑے تقاضے ہیں جن کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ان سے فوائد و برکات کے حصول کا اہتمام کیا جاتا ہے جو ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے جو طریقِ کار اور اعمال و قواعد قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان کا ایک ہلکا سا خاکہ میں نے آپ کے سامنے مختصراً بیان کیا ہے۔ تفصیلات کا موقع نہیں ہے اس لیے ان گزراشات پر اکتفا کرتے ہوئے سب دوستوں سے اس دعا کا خواستگار ہوں کہ ان میں سے جو بات صحیح ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔