توہینِ رسالت کی سزا کی بحث

   
یکم و ۲ مئی ۲۰۱۱ء

محترم مولانا محمد احمد حافظ نے ’’فکری دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے جس بحث کا آغاز کیا ہے، وہ اگر روزنامہ اسلام کے صفحات پر نہ چھیڑی جاتی تو بہتر ہوتا۔ اس قسم کے مباحثوں کے لیے اور بھی بہت سے فورم موجود ہیں، لیکن اب یہ بحث چھڑ گئی ہے تو اسے یکطرفہ نہیں رہنا چاہیے، بلکہ دوسری طرف کا موقف بھی قارئین کے سامنے آنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ العالی کا ایک حالیہ مضمون پیش خدمت کر رہے ہیں، یہ بتانے کے لیے کہ یہ صرف ایک ’’نوجوان کی تحقیق‘‘ نہیں ہے، بلکہ بعض کہنہ مشق مفتیان کرام اور بزرگ علماء کا موقف بھی یہی ہے۔ ضرورت پڑنے پر اس پر مزید گزارشات بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ (راشدی)

”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی اقوام سے واسطہ پڑا۔ مشرکینِ عرب، یہودی کینہ پرور، دیہاتی، ایسے لوگ جن کی فطرت اور خمیر میں فساد تھا، ان کے رگ و ریشہ میں شر کا غلبہ تھا اور خیر کا پہلو ناپید۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے حسبِ وعدہ ان کو ہلاک کر دیا۔

  • وہ بیماری میں مبتلا ہوئے جیسے ابولہب، یا میدانِ جنگ میں مارے گئے جیسے ابوجہل، عتبہ، عتیبہ، شیبہ، امیہ، عقبہ بن ابی معیط وغیرہم۔
  • چند اپنی زندگی میں ناکامی، رسوائی اور مایوسی کے عالم میں طبعی موت مر گئے، جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کا گروہ۔
  • یہود مدنی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی روز افزوں ترقی دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور صحابہ کرامؓ کے درپے ایذا تھے، اس کے لیے باقاعدہ خفیہ محافل قائم کرتے اور باندیوں کو حکم دیتے کہ آپؐ کی ہجو میں گانے گائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار میں کمی آئے تو باذنِ خداوندی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کے ہاتھوں خفیہ طریقوں سے ان کا کام تمام کر دیا، جیسے کعب بن اشرف اور ابو رافع جن کا قصہ احادیث میں تفصیل سے مذکور ہے۔ صحابہ کرامؓ نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے ان یہودی امراء کو ان کے بلند و بالا محفوظ قلعہ جات میں جا کر قتل کیا۔
  • بعض لوگ خاندانی روایات کے مطابق کبر و نخوت اور انانیت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کے ہاں ہدایت ان کے مقدر میں نہیں تھی۔ انہوں نے آخر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا، خدا و رسول کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئے اور قتل کیے گئے، جیسے ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا تھا کہ قتل کر دیا گیا۔

اس کے برعکس خدا تعالیٰ کے ہاں جن کی جان بخشی مقدر تھی، رحمتِ خداوندی نے ان کی یاوری کی، جیسے ابو سفیانؓ اور ان کے رفقاء اور وحشی بن حربؓ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ہاتھوں جنگِ احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے لوگوں کے حق میں بددعا کرنے سے روک دیا:

”تیرا اختیار کچھ نہیں۔ یا ان پر رجوع کرے یا ان کو عذاب دے کہ وہ ناحق پر ہیں۔“ (آل عمران: ۱۲۸)

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں:

”احد میں ستر صحابہؓ شہید ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مشرکین نے نہایت وحشیانہ طور پر شہداء کا مثلہ کیا (ناک کان وغیرہ کاٹے)، پیٹ چاک کیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس لڑائی میں چشم زخم پہنچا۔ سامنے کے چار دانتوں میں سے نیچے کا دایاں دانت شہید ہوا، خود کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں گھس گئیں، پیشانی زخمی ہوئی اور بدن مبارک لہولہان تھا۔ اسی حالت میں آپ کا پاؤں لڑکھڑایا اور زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئے۔ کفار نے مشہور کر دیا: ”ان محمدا قد قتل“ (محمد مارے گئے) اس سے مجمع بدحواس ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا، اس وقت زبانِ مبارک سے نکلا کہ ”وہ قوم کیوں کر فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ زخمی کیا جو ان کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔“ مشرکین کے وحشیانہ شدائد و مظالم کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہا نہ گیا اور ان میں سے چند نامور اشخاص کے حق میں آپ نے بددعا کا ارادہ کیا یا شروع کر دی۔ جس میں ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح حق بجانب تھے، مگر حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ آپ اپنے منصب جلیل کے موافق اس سے بھی بلند مقام پر کھڑے ہوں۔ وہ ظلم کرتے جائیں، آپ خاموش رہیں۔ جتنی بات کا آپ کو حکم ہے (مثلاً دعوت و تبلیغ اور جہاد وغیرہ) اسے انجام دیتے رہیں، باقی ان کا انجام خدا کے حوالے کریں۔ اس کی جو حکمت ہو گی، وہ کرے گا۔ آپ کی بددعا سے وہ ہلاک کر دیے جائیں گے، کیا اس کی جگہ یہ بہتر نہیں کہ ان ہی دشمنوں کو اسلام کا محافظ اور آپ کا جاں نثار عاشق بنا دیا جائے؟ چنانچہ جن لوگوں کے حق میں آپ بددعا کرتے تھے، چند روز کے بعد سب کو خدا تعالیٰ نے آپ کے قدموں پر لا ڈالا اور اسلام کا جاں باز سپاہی بنا دیا۔ غرض لیس لک من الامر شیء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ فرمایا کہ بندہ کو اختیار نہیں، نہ اس کا علم محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے، سو کرے۔ اگرچہ کافر تمہارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں، لیکن چاہے وہ ان کو ہدایت دے، چاہے عذاب کرے۔ تم اپنی طرف سے بددعا نہ کرو۔“

اللہ تعالی کی شان کریمی دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کٹر دشمن، آپ اور آپ کے صحابہؓ کے خلاف سازشیں کرنے والے یہودی اور منافق، جن کے ہاتھوں آپ بے حد تکالیف اٹھا چکے تھے، انہیں کہا گیا کہ اب بھی دروازے کھلے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں، اللہ سے معافی مانگیں اور رسول اللہؐ بھی ان کے حق میں دعا کریں تو ان کے سب گناہوں کی تلافی ہو سکتی ہے۔ وہ اللہ کو بار بار معافی دینے والا مہربان پائیں گے:

”اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا، آتے تیرے پاس، پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے تو البتہ اللہ کو پاتے مہربان معاف کرنے والا۔“ (النساء: ۶۴)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو ابو سفیان کو جان کے لالے پڑ گئے۔ حضرت عباسؓ سے کہا بچاؤ کی کیا تدبیر ہے؟ انہوں نے کہا میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے پہچان لیا، تلوار لے کر پیچھا کیا، حضرت عباسؓ جلدی سے آنحضرتؐ کی اقامت گاہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ نے بغیر عقد و صلح کے آپ کے دشمن پر قدرت دی ہے، مجھے اس کو قتل کرنے دیں۔ حضرت عباسؓ نے کہا: چھوڑ دو، میں نے اسے پناہ دی ہے۔ حضرت عباسؓ کی فہمائش پر ابو سفیانؓ ایمان لائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، وہ امن والا ہے۔ ابو سفیانؓ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے گھر میں کتنے لوگ آ سکتے ہیں! اس پر آپؐ نے فرمایا: جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے، وہ امن والا ہے۔ جو ہتھیار پھینک دے، وہ امن والا ہے۔ جو کعبے کے پردوں سے لپٹ جائے، وہ امن والا ہے، سوائے ابن خطل اور یعیش بن صبابہ اور ابن خطل کی دو لونڈیوں کے، جو آپؐ کی ہجو میں گانا گایا کرتی تھیں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے دروازے کے سامنے تشریف لائے۔ اس میں قریش کے امراء موجود تھے۔ آپؐ نے بیت اللہ کی دونوں چوکھٹیں پکڑ کر کہا: تمہارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا: ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہو۔ تیرا اختیار ہے، پس برتاؤ میں نرمی اختیار کیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے وہ بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی۔ آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں بخش دے، وہ ارحم الراحمین ہے۔ تم آزاد ہو، تمہارے مال تمہارے ہی ہیں۔“ (المبسوط لشمس الائمۃ السرخسی، ج ۱۰، ص ۴۰،۳۹، طبع دارالمعرفۃ، بیروت لبنان)

کعب بن زہیر نامی شخص اہل نجد سے خاندانی شاعر تھا، جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تھی اور مسلمانوں کی عورتوں سے اپنا معاشقہ جتلاتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا، وہ روپوش ہو گیا۔ اسی حال میں مدینہ حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور کہا: کعب بن زہیر کے لیے معافی ہے؟ آپؐ نے اثبات میں جواب دیا تو کہا میں کعب بن زہیر ہوں۔ اسلام قبول کیا۔ وقتی طور پر آپؐ کو غصہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وقد قلت كذا و كذا؟“ تم نے ایسے ایسے کہا ہے؟ اس نے اسی مجلس میں آپؐ کی اور آپ کے اصحاب کی مدح میں ایک طویل قصیدہ پڑھا، جس کا ترجمہ یہ ہے:

”مجھے بتلایا گیا ہے کہ رسول اللہ نے مجھے دھمکی دی ہے۔ رسول اللہ کے ہاں معافی کی امید کی جا سکتی ہے۔ چغل خور لوگوں کی باتوں پر مجھ سے مواخذہ نہ کیجیے۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ میرے بارے میں بہت باتیں کہی گئیں۔ اللہ کے رسول ایسا نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے، آپ اللہ کی تلواروں میں سے ایک قاطع تلوار ہیں۔“

امام سبکی الشافعیؒ نے ”السیف المسلول“ میں ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبار بن اسود بن عبد المطلب کے قتل کا حکم دیا۔ وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کلمہ شہادت پڑھا اور کہا کہ میں آپ کو ایذا اور گالی دینے پر حریص تھا، میں شرمسار ہوں، مجھ سے درگزر فرمائیے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں: میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا تھا، آپ نے اس کی معذرت کے باعث سر جھکا لیا اور آپؐ فرما رہے تھے: ”میں نے تمہیں معاف کیا اور اسلام پہلی غلطیوں کو ختم کر دیتا ہے۔“ (تنبیہ الولاۃ، مجموعہ رسائل ابن عابدین، ص ۳۴۶)

فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں کے قتل کا حکم دیا۔ ان میں ایک ابن ابی سرح تھا، جو کاتبِ وحی تھا، پھر مرتد ہو کر مشرک ہو گیا اور قریش مکہ سے جا ملا۔ کہا کہ میں محمد کو جیسے چاہوں پھیر لیتا ہوں، میں کہتا ہوں: عزیز حکیم یا علیم حکیم تو وہ کہتا ہے: ”نعم، کل صواب“ ہر لفظ صحیح ہے۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا۔ وہ اسے بطور سفارش آپؐ کے سامنے لائے اور کہا یا رسول اللہ! عبد اللہ کو بیعت کر لیں۔ آپ نے تھوڑی دیر بعد اس کی طرف سر اٹھایا، ہر دفعہ انکار کیا۔ حضرت عثمانؓ کی وجاہت و عظمت کے پیش نظر اور ان کے اصرار اور سفارش پر تین مرتبہ انکار کے بعد آپؐ نے اسے بیعت کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر متوجہ ہوئے اور کہا کہ ”تم میں کوئی ایسا سمجھ دار اور ہوشیار شخص نہ تھا کہ جب میں نے اپنا ہاتھ بیعت سے روک لیا تو وہ اسے قتل کر دیتا؟“ عباد بن بشیرؓ نے کہا ”یا رسول اللہ! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، اشارے سے بتلا دیتے۔“ فرمایا: ”پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ اس کی آنکھوں میں خیانت ہو۔“ (سنن ابی داؤد، ج ۲، ص ۹)

یہ واقعہ قطعی دلیل ہے کہ سب و شتم کرنے والے کو توبہ کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا۔

ان چار میں سے دوسرے عکرمہ تھے، جو فتح مکہ کے موقع پر بھاگ گئے۔ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے شوہر کو اسلام کی دعوت دی تو وہ اسلام کی طرف راغب ہو کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ”مرحبا بالراکب“ کہہ کر استقبال کیا۔

القصہ انہی لوگوں میں سے بعض نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگی، کہیں معافی مانگنے والے کی عاجزی اور الحاح و زاری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤف و رحیم ذات کو معاف کرنے پر مجبور کر دیا، کچھ لوگ سفارش لائے اور دیگر لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امن کا پیغام ملا۔ ان لوگوں نے صدقِ دل سے اسلام قبول کر لیا اور قتل ہونے سے بچ گئے۔

ائمہ احناف اور جمہور علماء کا موقف:

جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے یا آپ کو گالی دے، اسے قتل کیا جائے۔ یہ مذہب امام مالکؒ، امام لیثؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ کا ہے اور یہی مذہب امام شافعیؒ کا ہے۔ تاہم ہمارے متقدمین ائمہ احناف نے ردۃ کے باب میں اپنی عام کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور پھر توبہ کر لے تو اس کی توبہ قتل کی سزا معاف کرنے کے حق میں قبول کی جائے گی۔

”قال ابو یوسف ایما رجل سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر باللہ تعالیٰ وبانت منہ امراتہ، فان تاب و الا قتل و كذالك المراۃ الا ان اباحنیفۃ قال لا تقتل المراۃ و تجبر علی الاسلام“ (تنبیہ الولاۃ، مجموعہ رسائل ابن عابدین، ج ۱، ص ۳۲۴، مکتبہ عثمانیہ کوئٹہ)

ترجمہ: ”امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں: جو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے یا تکذیب کرے یا آپ پر عیب لگائے یا تنقیص کرے، اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ اس کی عورت بھی اس سے جدا ہو گئی۔ اگر توبہ کرے تو بہتر، ورنہ اسے قتل کیا جائے گا۔ اسی طرح عورت کا حکم ہے، لیکن امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے اسلام پر مجبور کیا جائے گا۔“

الحاصل دینِ اسلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر سب و شتم کرنے والے غیر مسلم ذمی کو سزا دی جائے اور اگر علانیہ سب و شتم سے باز نہ آئے اور توبہ نہ کرے تو قتل کیا جائے۔ اسی طرح مرتد کی سزا، جبکہ وہ عاقل بالغ ہو، بالاجماع قتل ہے اور اس کی توبہ قابلِ قبول ہے۔ مرتد کو اسلام پر مجبور کیا جائے، اگر انکار کرے تو اس کی حد قتل ہے۔ نہ اسے امن دیا جائے گا، نہ اسے غلام بنایا جائے گا اور نہ ہی اس پر جزیہ عائد کیا جائے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ قتل کی علت محض کفر نہیں، بلکہ بالخصوص ردۃ ہی اس کی علت ہے۔ قتل ایک عقوبتِ خاصہ ہے، اللہ تعالیٰ کے خاص حق کے لیے واجب ہے اور بالخصوص ردۃ پر واجب ہوتی ہے، جس طرح شادی شدہ کے زنا پر رجم ہے۔ مرتد کا قتل کیا جانا ”حد“ ہے۔ ”حد“ لغت میں منع کو کہتے ہیں، جیسے چوکیدار کو ”حداد“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ گھر میں داخل ہونے سے مانع ہے۔ جیل کے داروغہ کو ”سجان“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ جیل سے باہر جانے سے مانع ہے۔ عقوباتِ خاصہ کو ”حدود“ کا نام دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ حدود معاصی کے دوبارہ ارتکاب سے رکاوٹ بنتی ہیں۔

”حد“ ثابت ہو جانے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں سفارش چل سکتی ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زیدؓ کو زجر فرمایا، جب انہوں نے مخزومیہ عورت کی، جس نے چوری کی تھی، سفارش کی۔ فرمایا: ”اتشفع فی حد من حدود اللہ؟“ کیا تو اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں سفارش کرتا ہے؟ فی الحقیقت ”حدود“ ارتکابِ معاصی سے پہلے مانع اور ارتکاب کے بعد ”زاجر“ ہیں، یعنی معاصی کی طرف لوٹنے سے باز رکھتی ہیں۔ (تنبیہ الولاۃ مع الاختصار، ص ۳۱۸)“

   
2016ء سے
Flag Counter