کمبوڈیا کے مسلمانوں کا قتلِ عام

   
مئی ۱۹۹۶ء

کمبوڈیا مشرقی ایشیا کا ملک ہے جہاں بودھ ازم کے پیروکاروں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ اور مسلمانوں کی تعداد کم و بیش دس لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ ویسے تو اس ملک کی مسلم اقلیت ہمیشہ بودھ اکثریت کے دباؤ اور مظالم کا شکار رہی ہے لیکن سابقہ کمیونسٹ حکومت کے وحشیانہ مظالم کی تفصیلات اب دھیرے دھیرے منظر عام پر آ رہی ہیں۔

کمیونسٹ لیڈر پال پوٹ کی سربراہی میں اس حکومت نے مسلمانوں کو جس درندگی اور بہیمیت کا نشانہ بنایا اس کے بارے میں ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ نے ۱۸ مارچ ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں کچھ تفصیلات شائع کی ہیں۔ جن کے مطابق ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۹ء تک کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں سات ہزار کے قریب مسلمان شہید ہوئے اور علماء کرام اس تشدد کا بطور خاص نشانہ بنے۔ مسلمانوں کے بڑے مفتی حاجی رئیس لوئس شہیدؒ کو ابلتے ہوئے پانی میں پھینکا گیا اور جب گوشت گل گیا تو مزبوحہ جانور کی طرح درخت سے لٹکا دیا گیا۔ ایک اور مذہبی راہنما الشیخ سلی سلیمان شہیدؒ کا پیٹ پھاڑ کر انہیں انتڑیاں ہاتھوں میں اٹھائے بازار میں چلنے پر مجبور کیا گیا۔ متعدد علماء اور غیور مسلمان ہجرت کر کے ملائیشیا، امریکہ اور فرانس چلے گئے۔ رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا میں مسلمانوں کی ایک ہی مسجد تھی جو موریطانیہ کی حکومت نے تعمیر کرائی تھی لیکن اسے بھی ناچ گانے اور کھیل کود کے مرکز میں تبدیل کر دیا گیا۔

پال پوٹ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اب تشدد کی وہ کیفیت تو نہیں ہے لیکن کمبوڈیا کے مظلوم مسلمان اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ، بچوں کی دینی تعلیم و تربیت، اور مذہبی مراکز کے قیام کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ کے مستحق ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter