مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ

   
تاریخ : 
۴ جون ۲۰۰۴ء

مفتی نظام الدین شامزئی کا تعلق سوات سے تھا، انہوں نے دینی علوم کی تکمیل جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں کر کے وہیں تدریسی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کا نام میں نے پہلی بار اس وقت سنا جب انہوں نے حضرت امام مہدی کے بارے میں کتاب لکھی۔ امام مہدی کے ظہور کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں ہر دور میں گمراہی پھیلانے والے گروہوں کا نشانہ مشق رہی ہیں اور سینکڑوں افراد نے اب تک امام مہدی ہونے کا دعویٰ کر کے ان پیش گوئیوں کو خود پر فٹ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے رد عمل میں کچھ اہل علم نے سرے سے ان پیش گوئیوں کی صحت کو ہی موضوع بحث بنا لیا۔ہمارے ایک دوست مولانا اختر کاشمیری جو ہمارے ساتھیوں میں سے ہیں، ہفت روزہ خدام الدین لاہور اور ہفت روزہ چٹان لاہور کی ادارت کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، اچھا لکھنے اور بولنے والوں میں سے تھے، انہوں نے ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد وہاں کا دورہ کر کے اپنا سفرنامہ ’’آتش کدہ ایران’’ کے نام سے لکھا جس نے خاصی شہرت حاصل کی، لیکن حضرت مہدی کے بارے میں ان کا قلم افراط وتفریط کا شکار ہو گیا اور انہوں نے اس سلسلے میں احادیث و روایات کو ایک مقالہ میں ہدف تنقید بنایا ۔ ۔ ۔

مولانا مفتی نظام الدینؒ شامزئی نے جو ان دنوں جامعہ فاروقیہ کراچی میں مدرس تھے، اس کا جواب لکھا اور معقول استدلال کے ساتھ اس سلسلے میں اہل السنۃ والجماعۃ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کیا کہ حضرت مہدی کے بارے میں آنحضرتؐ کی پیش گوئی والی روایات صحیح ہیں اور انہیں ہدف تنقید بنانا درست نہیں ہے۔ مفتی صاحبؒ نے امت کواعتدال کا راستہ دکھایا اور واضح کیا کہ ان پیش گوئیوں کو غلط طور پر استعمال کرنے والے خود ساختہ مہدیوں کا موقف غلط اور گمراہی پر مبنی ہے، لیکن اس کے رد عمل میں سرے سے ان پیش گوئیوں اور احادیث کا انکار کرنا یا انہیں مجروح ثابت کرنے کی کوشش کرنا درست طرز عمل نہیں ہے۔ امام مہدی اپنے وقت پر آئیں گے اور جناب رسول اللہؐ کی پیش گوئیوں کے مطابق ہی آئیں گے، اسی بات پر جمہور اہل سنت کا اتفاق ہے۔ مفتی نظام الدینؒ شامزئی کے ساتھ میرا پہلا تعارف جو غائبانہ تھا، ان کی اس کتاب کے ذریعے ہوا اور ان کا مقالہ پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ علمی انداز میں انہوں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔

اس کے بعد کراچی میں حاضری کے ایک موقع پر مفتی صاحبؒ سے ملاقات ہوئی تو ان کی سادگی اور علمی ذوق دیکھ کر اور زیادہ متاثر ہوا کہ پرانے اسلاف اور بزرگوں کی روایات کو قائم رکھنے کا جذبہ نوجوان علماء میں موجود ہے اور یہ بات جہاں بھی دیکھتا ہوں، اطمینان اور حوصلے میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور جمعیۃ علماء اسلام کے بہت سے امور میں وقتاً‌ فوقتاً‌ باہمی مشاورت ہوتی رہی۔ وہ افتاء اور تدریس کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے اور جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے۔

ایک موقع ایسا آیا کہ ایک بیرونی سفر میں چند روز کے لیے ان کے ساتھ رفاقت ہو گئی۔ جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے خاتمے اور وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کی آزادی کے بعد ان ریاستوں کے علماء کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان سے علماء کرام اور دینی رہنماؤں کے متعدد وفود نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کا دورہ کیا۔ ایک وفد میں مجھے بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ میں معمول کے مطابق موسم گرما میں لندن جا رہا تھا اور میں نے ازبک ایئر لائن کے ذریعے سفر کا ارادہ کیا، خیال تھا کہ راستے میں چند روز تاشقند میں رہنے کا موقع مل جائے گا۔ وہاں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ علماء کا ایک وفد ازبکستان جا رہا ہے، آپ بھی اس کے ساتھ ہی پروگرام بنا لیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وفد میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا فداء الرحمن درخواستی اور مولانا مفتی نظا م الدینؒ شامزئی بھی شامل تھے ،جبکہ مفتی جمیل خان شہیدؒ وفد کے منتظم تھے۔ اس سفر میں تاشقند کے علاوہ سمرقند اور خرتنگ بھی جانا ہوا۔ خرتنگ میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر ہے۔ وہاں حاضری ہوئی اور فاتحہ خوانی اور دعا کے علاوہ ایک بات اور ہوئی کہ حضرت مولانا مفتی نظام الدینؒ شامزئی بخاری شریف ساتھ لے گئے تھے، انہوں نے حضرت امام بخاریؒ کی قبر کے ساتھ بیٹھ کر امام بخاریؒ تک اپنی سند کے ساتھ ایک روایت بلند آواز سے پڑھی اور بتایا کہ پرانے بزرگوں کا یہ معمول رہا ہے کہ جب امام بخاریؒ کی قبر پر حاضری ہوتی تو ان تک اپنی سند کے ساتھ بخاری شریف کی ایک روایت پڑھتے۔ مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ نے بھی اس موقع پر یہ روایت پوری کی اور ہم سب ان کے ساتھ شریک تھے۔

اس سفر میں مفتی صاحبؒ کی ایک او رخصوصیت سامنے آئی کہ وہ دوران سفر اور شور وشغب میں بھی اپنا عمل شغل جاری رکھ سکتے ہیں۔ میرا مزاج اس سے بالکل مختلف ہے کہ شور و شغب اور دیگر مصروفیا ت کے ماحول میں لکھنے پڑھنے کا کام میرے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے اس کام کے لیے خاموشی اور تنہائی درکار ہوتی ہے مگر مفتی صاحب کو دیکھا کہ کتابوں کا بستہ ساتھ ہے، جہاں موقع ملا کھول کر بیٹھ گئے اور قلم کاغذ سنبھال لیا۔ باقی دوست گپ شپ میں مصروف ہیں اور مفتی صاحب اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا سعید الرحمن علویؒ کا بھی یہی معمول تھا، وہ دوران مجلس لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہتے اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں بھی پوری طرح شریک ہوتے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت رشک ہوتا کہ میں اس صلاحیت سے محروم ہوں۔ بعض حضرات کو دیکھتا ہوں کہ سفر کے دوران مطالعہ کر لیتے ہیں، ان پر بھی مجھے رشک آتا ہے کہ وہ اپنا بہت سا کام دوران سفر ہی نمٹا لیتے ہیں، جبکہ مجھ سے ایسا نہیں ہو سکتا، بمشکل اخبار وغیرہ پڑھ پاتا ہوں۔ بہرحال ازبکستان کے سفر میں مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ کے ساتھ اچھی رفاقت رہی اور اس سفر کی بہت سی یادیں ذہن میں وقتاً‌ فوقتاً‌ تازہ ہوتی رہتی ہیں۔

طبیعت میں سادگی اور زندہ دلی تھی، دوستوں کے ساتھ بے تکلف رہتے تھے اور ہنسی مزاح کا شغل چلتا رہتا تھا۔ پہلے میرے ذہن میں تھا کہ عمر میں شاید مجھ سے بڑے ہوں گے مگر ایک مرتبہ سن ولادت دریافت کی تو غالباً‌ ۱۹۵۲ء بتائی۔ میں نے دل لگی سے کہا کہ مفتی صاحب! یہ بات آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی، میں خواہ مخواہ اب تک آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھتا رہا ہوں۔ آپ تو میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن سے بھی عمر میں چھوٹے ہیں۔ یہ سن کر بہت ہنسے لیکن یہ بہرحال دل لگی کی بات تھی۔ مفتی صاحب عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود علم وفضل اور دینی جدوجہد کے جذبہ وحوصلہ میں مجھ سے کہیں آگے تھے اور آخری عمر میں تو ان کی جدوجہد ہم سب کے لیے قابل رشک تھی۔

قومی سطح پر مفتی نظام الدین شامزئی اس وقت ابھرے جب انہوں نے خلیج عرب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج کی موجودگی کے خلاف عرب علماء کی احتجاجی تحریک کی حمایت میں فتویٰ دیا اور ملک کے مختلف حصوں میں سیمینار منعقد کر کے اہل دانش کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ جو عرب علماء سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف احتجاج اور خلیج عرب سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا موقف درست ہے اور ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسامہ بن لادن نے اس موقف کا پرچم بعد میں بلند کیا جبکہ ڈاکٹر سفر الحوالیؒ، الشیخ سلمان عودہؒ،ڈاکٹر سعد الفقیہ اور ڈاکٹر محمد المسعری جیسے ممتاز عرب علماء ودانش ور پہلے سے ہی اس کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔ ایک موقع پر حرمین شریفین کے امام محترم الشیخ علی حذیفی نے بھی مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کے خطبے کے دوران اہل دین کے اس موقف کی ترجمانی کی تھی۔

خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی آمد اور اس کے خلاف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے علماء کی دینی جدوجہد کے آغا ز کا مرحلہ بہت اضطراب انگیز تھا اور پاکستان میں اس کے بارے میں آواز بلند کرنے میں بظاہر بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنے دو تین کالموں کے ذریعے اس مسئلے کو چھیڑا اور پاکستان کے دینی حلقوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا تو مجھے بعض دوستوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ کس آگ میں ہاتھ ڈال رہے ہو؟ مگر میر ےلیے بالکل خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔ البتہ اسے میری کمزوری سمجھ لیں یا حکمت عملی کہ کوئی مسئلہ سامنے آئے تو اس کی نشان دہی، اس کے بارے میں دینی حلقوں کو توجہ دلانے اور متعلقہ حضرات کی ضروری بریفنگ تک اپنے کام کو محدود رکھتا ہوں۔ اس کے بعد میری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا حلقہ اس کام کو سنبھال لے جو اس کے لیے عملی جدوجہد کے تقاضے پورے کر سکتا ہو، کیونکہ بہت سے ایسے تقاضوں کو عملاً پورا کرنا میرے بس میں نہیں ہوتا اس لیے جب کوئی حلقہ یا بزرگ اس کام کو سنبھال لیتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور میں حتی الوسع تعاون بھی کرتا ہوں۔

خلیج عرب میں امریکی افواج کی آمد اور سعودی عرب کے علماء حق کی احتجاجی جدوجہد کے حوالے سے مجھے یہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی اور مسرت ہوئی کہ اسے مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے حلقے نے اور پھر حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ نے سنبھال لیا اور اس خوبی کے ساتھ سنبھالا کہ اس کا حق ادا کر دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ جب ان بزرگوں نے خلیجی ممالک میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف علم احتجاج بلند کیا اور پاکستان کے دینی حلقوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی تو مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔مفتی نظام الدین شامزئی نے مختلف سیمیناروں میں ملک کے سرکردہ دانش وروں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا اور ان کے سامنے خلیج میں امریکی افواج کی موجودگی اور ان سے عالم اسلام اور حرمین شریفین کو درپیش خطرات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ پورے ملک میں بیداری کی لہر پید اکر دی اور جس مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے تک زبانیں رک رک جایا کرتی تھیں، وہ ملک کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی روزمرہ گفتگو کا موضوع بن گیا۔

اس موقع پر علماء کرام کی طرف سے ایک فتویٰ بھی سامنے آیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری وصیتوں میں تلقین فرمائی تھی کہ یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دو۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے اسی وصیت پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے دور خلافت میں خیبر سے یہود کو اور نجران سے نصاریٰ کو جلا وطن کر دیا تھا، اس لیے جزیرۂ عرب اور خلیج عرب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج کی موجودگی اور اس خطے کے ممالک میں امریکہ کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی اور وصیت کی خلاف ورزی ہے۔ اس فتوے اور موقف کی وضاحت اور قومی سطح پر اسے اجاگر کرنے میں مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ نے متحرک اور بھرپور کردار ادا کیا۔

مفتی شامزئی شہیدؒ جہاد افغانستان اور طالبان کی اسلامی حکومت کے عملی سرپرستوں میں سے تھے۔ انہوں نے طالبان حکومت کے دفاع اور پشت پناہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ہر ممکن ذریعے سے جہاد افغانستان کے منطقی نتائج کے تحفظ اور طالبان حکومت کی پشت پناہی میں مصروف رہے۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور امریکی جارحیت کے حوالے سے حکومت پاکستان کا کردار عالم اسلام کے بڑے سانحات میں سے ہے جن پر دینی حلقوں نے ہمیشہ شدید غم وغصہ کا اظہار کیا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں مفتی نظام الدین شامزئی کی آواز سب سے زیادہ بلند اور توانا رہی ہے۔ مفتی نظام الدین شامزئی صرف روایتی عالم دین نہیں تھے بلکہ ملت اسلامیہ کے مصائب پر کڑھنے والے اور امت کی مشکلات کے حل کی تلاش میں مضطرب وبے چین رہنے والے حق گو راہنما بھی تھے، حتیٰ کہ اسی راہ میں انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ پاکستان، ۴ جون ۲۰۰۴ء۔ روزنامہ اسلام، ۲۲ جون ۲۰۰۵ء)
   
2016ء سے
Flag Counter