دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ دینی مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے، اس کا معیار کیا ہے اور وہ قوم اور معاشرے کی کون سی ضروریات پوری کرتے ہیں؟ اس لیے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء معیار میں اسکولوں اور کالجوں کے فضلاء کے معیار پر پورا نہیں اترتے، اس لیے ان کی اسناد کو تعلیمی ضروریات کے علاوہ اور کسی مقصد کے لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس سلسلے میں کسی تفصیلی بحث میں جانے کے بجائے دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کا ایک خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس سے انہیں یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ دینی مدارس میں اس وقت جو مواد زیر درس ہے، اس کی نوعیت کیا ہے اور قومی و معاشرتی ضروریات کے ساتھ اس تعلیمی مواد کا کیا تعلق ہے؟
اس وقت ملک بھر میں قائم دینی مدارس کی غالب اکثریت پانچ وفاقوں کے ساتھ وابستہ ہے جس کی تقسیم مسلکی حوالے سے ہے:
- وفاق المدارس العربیہ حنفی، دیوبندی (اہل سنت) مسلک سے تعلق رکھتا ہے،
- تنظیم المدارس حنفی، بریلوی (اہل سنت) مسلک کے مدارس پر مشتمل ہے،
- وفاق المدارس السلفیہ کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے ہے،
- رابطۃ المدارس العربیہ میں جماعت اسلامی سے فکری تعلق رکھنے والے مدارس شامل ہیں،
- جبکہ وفاق المدارس الشیعہ، شیعہ مذہب کے دینی مدارس پر مشتمل ہے۔
ان میں مدارس کی تعداد کے لحاظ سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان سب سے بڑا وفاق ہے اور وفاقوں کے اتحاد میں سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے سربراہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور سیکرٹری جنرل جامعہ خیر المدارس ملتان کے سربراہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہیں۔ ان وفاقوں میں جن نصابوں کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کی تفصیلات و جزئیات میں جا بجا فرق موجود ہے لیکن جوہری حوالے سے ان میں کوئی نمایاں فرق نہیں، بلکہ مضامین کے ساتھ ساتھ ان نصابوں کی اکثر کتابیں بھی مشترکہ ہیں، اور اہداف کے حوالے سے بھی ان سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ معاشرے کے عام لوگوں کا تعلق قرآن و سنت اور دینی تعلیمات کے ساتھ قائم رہے اور دینی علوم کی معاشرے میں زیادہ سے زیادہ ترویج ہو۔ البتہ تعبیر و تشریح میں مسلکی ترجیحات بہرحال غالب ہیں جو بسا اوقات زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہیں اور باہر سے دیکھنے والوں کو وہ فرقہ واریت ہی کی عملی شکل دکھائی دیتی ہیں۔
اس وقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا نصاب ہمارے سامنے ہے جو وفاق کے ترجمان سہ ماہی وفاق میں ۲۰۰۳ء کے دوران میں شائع ہوا ہے اور اس کی مرحلہ وار تفصیلات ہم قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
طلباء اور طالبات کے لیے وفاق المدارس کے نصاب الگ الگ ہیں اور طلباء کا نصاب مجموعی طور پر سترہ سال پر مشتمل ہے جسے درج ذیل درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- پہلا درجہ پرائمری اور مڈل کے آٹھ سالوں پر مشتمل ہے اور اسے ’’ابتدائیہ اور متوسطہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
- دوسرا درجہ ’’ثانویہ عامہ‘‘ کے نام سے میٹرک کے تین سالوں پر مشتمل ہے۔
- تیسرا درجہ ’’ثانویہ خاصہ‘‘ کے عنوان سے ایف اے کے دو سالوں کو محیط ہے۔
- چوتھا درجہ ’’عالیہ‘‘ کے نام سے بی اے کے دو سالوں پر مشتمل ہے۔
- پانچواں درجہ ’’عالمیہ‘‘ کے عنوان سے ایم اے کے دو سالوں کو محیط ہے۔
درجہ ابتدائیہ اور متوسطہ کے آٹھ سالوں کے نصاب میں شامل مضامین کی تفصیل یہ ہے:
- قرآن کریم نورانی قاعدہ سے لے کر مکمل ناظرہ قرآن کریم مع تجوید اور آخری پارہ حفظ۔ یہ نصاب مرحلہ وار آٹھ سالوں میں مکمل کرایا جاتا ہے۔
- ضروریات دین میں کلمہ طیبہ و کلمہ شہادت یاد کرانے سے لے کر نماز حنفی، تعلیم الاسلام مکمل، سیرت خاتم الانبیاء اور بہشتی گوہر تک کے نصاب کو آٹھ سالوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
- اردو میں جماعت اول سے جماعت ہشتم تک کا نصاب شامل کیا گیا ہے۔
- حساب اور ریاضی میں گنتی اور پہاڑوں سے لے کر آٹھویں جماعت تک کی ریاضی نصاب میں شامل ہے۔
- انگریزی اول جماعت سے آٹھویں جماعت تک شامل نصاب ہے۔
- معاشرتی علوم کو سال سوم سے سال ہشتم تک نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
- سال پنجم میں سائنس شامل نصاب ہے، جبکہ اس کے بعد فارسی کے چند رسالے شامل نصاب ہیں۔
اس سلسلہ میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ اردو، انگلش، سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم میں ساتویں سال تک پشاور بورڈ، لاہور بورڈ، کراچی بورڈ اور کوئٹہ بورڈ کا منظور کردہ نصاب پڑھایا جائے گا، جبکہ آٹھویں سال کے لیے ان مضامین کے حوالے سے وفاق نے اپنا نصاب خود مرتب کیا ہے۔
میٹرک کو وفاق نے مڈل کے بعد تین سالوں تک وسیع کر دیا ہے جس میں سال اول کے دوران میں صرف سرکاری بورڈ کے نصاب کے مطابق انگلش، سائنس، ریاضی، اردو، اسلامیات، معاشرتی علوم، اور مطالعہ پاکستان کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور نہم دہم دونوں سالوں کا نصاب ایک سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دو سالوں میں عربی صرف و نحو، عربی لغت، تجوید و قراءت، تفسیر و حدیث، فقہ اور منطق کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور انشا کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس درجے یعنی میٹرک کے امتحان کے لیے مدارس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود امتحان لیں یا کسی متعلقہ سرکاری بورڈ سے امتحان دلوا دیں۔
ثانویہ خاصہ یعنی ایف اے کے دو سالوں میں تفسیر و حدیث، فقہ اور اصول فقہ، عربی نحو، سیرت و تاریخ، منطق، علم بلاغت اور ادب و انشا کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔
عالیہ یعنی بی اے کے درجے میں دو سال کے دوران میں تفسیر و حدیث، فقہ و اصول فقہ، بلاغت، فلسفہ و عقائد، لغت عربیہ، تاریخ، فرائض یعنی وراثت کے احکام، فلکیات اور عروض و قوافی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
عالمیہ کا درجہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا آخری درجہ ہے جسے ایم اے کے مساوی سمجھا جاتا ہے اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھی اسے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تسلیم کیا ہوا ہے، مگر اس صراحت کے ساتھ کہ یہ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے ہے۔ دوسرے مقاصد کے لیے اس سند کو تسلیم کرنے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے چند لازمی مضامین (مثلاً اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان، انگلش وغیرہ) کا امتحان دینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ عالمیہ کے سال اول میں قرآن کریم کی عربی تفسیر بیضاوی شریف کا پہلا پارہ پڑھایا جاتا ہے، جبکہ قرآن کریم کا ترجمہ اس سے قبل طالب علم مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ اس سال کے نصاب میں دو اور مضامین کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک معیشت کا جس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہے اور دوسرا مقارنۃ الادیان یعنی دوسرے معاصر مذاہب کا تعارف۔ جبکہ سال دوم میں حدیث نبوی کی نو بڑی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں: (۱) بخاری شریف (۲) مسلم شریف (۳) ترمذی شریف (۴) ابوداؤد شریف (۵) نسائی شریف (۶) ابن ماجہ شریف (۷) شمائل ترمذی (۸) موطا امام مالک، اور (۹) طحاوی شریف۔
آخری سال درس نظامی کا سب سے اہم سال ہوتا ہے جس میں ہزاروں احادیث نبویہ طالب علم کی نظر سے گزرتی ہیں اور وہ عقائد و عبادات سے لے کر نکاح و طلاق، تجارت و معیشت، زراعت، خلافت، جہاد، معاملات و معاشرت، اخلاق و آداب، امارت و سیاست اور علامات قیامت سمیت سینکڑوں عنوانات و مضامین کے حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و ارشادات کا علم حاصل کرتے ہیں۔ اور یہی درس نظامی کا اصلی مقصد ہے، کیونکہ اس سے قبل مسلسل پندرہ سال تک جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ قرآن کریم اور سنت نبوی کے مفہوم تک رسائی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے دی جاتی ہیں، اور جب یہ استعداد ایک خاص درجے تک پہنچ جاتی ہے تو پھر طالب علم کو تفسیر قرآن کریم اور احادیث کے ذخیرے سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ اگر حدیث نبوی کی ان نو کتابوں کے مضامین اور عنوانات پر ایک نظر ڈال لی جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کس قدر متنوع اور ہمہ گیر نصاب ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور پہلو کا احاطہ کرتا ہے اور قدیم و جدید کا کوئی مسئلہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جو ان احادیث کے ضمن میں طالب علم کے سامنے نہ آ جاتا ہو، البتہ اس جامعیت اور تنوع کا احاطہ استاد اور شاگرد کے ذوق اور استعداد پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک اس کا ادراک رکھتے ہیں اور کس حد تک اس کا فہم حاصل کر پاتے ہیں۔
آخری سال کا نصاب اس قدر بھاری بھر کم ہے کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ دورۂ حدیث کے سال طالب علم کو پورا سال سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی، مگر اس کے باوجود راقم الحروف نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں، جہاں دورہ حدیث کے منتہی اسباق میرے ذمے ہوتے ہیں، ایک اور اہم مضمون کا اضافہ کر رکھا ہے جس میں طلبہ کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام اور مغرب کی تعلیمات کا فرق سمجھایا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا تاریخی اور معاشرتی پس منظر بتایا جاتا ہے، اس کی مختلف دفعات پر قرآن و سنت کی روشنی میں تبصرہ کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور اسلامی احکام و قوانین سے جہاں جہاں متصادم ہے، اس کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
یہ ہے ان مضامین اور تعلیمی مواد کا ایک ہلکا سا خاکہ جو سترہ سال کے دوران میں دینی مدارس کے طلبا کو پڑھایا جاتا ہے اور جسے مرحلہ وار پڑھ کر شہادۃ العالمیہ کے عنوان سے وہ اس ڈگری کے مستحق قرار پاتے ہیں جو آج کل قومی حلقوں میں متنازعہ حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔