۱۲ ربیع الاول کو حسب سابق اسلام آباد میں وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیرا ہتمام قومی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وزیر اعظم جناب شوکت عزیز اور وفاقی وزراء سمیت متعدد راہنماؤں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا، راقم الحروف کو بھی وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے شرکت کی دعوت موصول ہوئی مگر جمعتہ المبارک اور پہلے سے طے شدہ دیگر مصروفیات کے باعث شرکت سے معذرت کر دی۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والے مختلف علماء کرام نے موجودہ حالات کے تناظر میں سیرت نبوی علٰی صاحبہا التحیۃ والسلام کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا اور بعض علماء نے جرأت و حوصلہ کے ساتھ مغربی ثقافت کی یلغار اور روشن خیالی کے نام پر اسلامی اقدار و روایات سے انحراف کی روش کو ہدف تنقید بنایا اور اس سلسلہ میں اپنا فرض ادا کیا۔ جبکہ وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے اپنے خطاب میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کے دور میں اعتدال پسندی اور روشن خیالی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ہمارے علماء کرام کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
اعتدال پسندی اور روشن خیالی کا تذکرہ ہمارے حکمران افراد اور ان کے ہمنوا دانشوروں کی طرف سے کچھ عرصہ سے تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے، جہاں تک ان اصطلاحات کے لفظی مفہوم کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی خوش آئند ہیں اور اگر انہیں اپنے اصلی مفہوم میں استعمال کیا جائے تو کسی مسلمان کو اس سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اسلام ہی دنیا کا سب سے زیادہ اعتدال پسند دین ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی یکساں بات کرتا ہے، رہبانیت اور دنیا پرستی کی دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال اور توازن کا فلسفہ پیش کرتا ہے، اور اسی طرح قرآن کریم کے ارشادات کے مطابق اسلام نسل انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف لانے کا علمبردار ہے۔ لیکن آج کل روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی اصطلاح جن معنوں میں استعمال ہو رہی ہے اس سے اسلام کے دور اول کے خوارج کا وہ نعرہ یاد آجاتا ہے جس میں وہ قرآن کریم ہی کے ایک جملہ ’’ان الحکم الا للّٰہ‘‘ کا نعرہ لگا کر اسے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور جمہور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے تھے، اور ان کے اس نعرہ کے بارے میں غالباً حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا تھا کہ ’’کلمۃ حق ارید بہا الباطل‘‘ یہ کلمہ تو حق ہے مگر اس سے جو مفہوم مراد لیا جا رہا ہے وہ باطل ہے۔ یہی صورتحال روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی خوبصورت اصطلاحات کے حوالہ سے درپیش ہے کیونکہ اس کے مفہوم میں ایجنڈے کے طور پر جو باتیں شامل ہیں اور اس نعرہ کی آڑ میں جن امور کو عملاً قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے وہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل نظر آرہے ہیں:
- مذاہب عالم کے درمیان اس طرح کی رواداری کو فروغ دیا جائے کہ کسی مذہب اور اس کے پیروکاروں کی نفی نہ کی جائے اور انہیں غلط قرار نہ دیا جائے، مثبت بات کی جائے اور منفی بات سے گریز کیا جائے، اور دنیا کی کسی بھی قوم کے عقیدہ و مذہب کو غلط قرار دے کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے۔
- اسلامی احکام و فرائض پر عمل درآمد کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال نہ کیا جائے۔ نماز ، روزہ، پردہ، حیا اور دیگر شرعی واجبات کو لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، ان کے لیے کسی کو فورس نہ کیا جائے اور کسی پر اس سلسلہ میں دباؤ نہ ڈالا جائے۔
- مغربی تہذیب و ثقافت کو عالمی ثقافت اور بین الاقوامی کلچر سمجھ کر قبول کر لیا جائے اور اس میں مذہبی احکام و تعلیمات کو رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی اصطلاحات کو جس نئے مفہوم میں متعارف کرایا جا رہا ہے اور اس نام پر جن کاموں کا تقاضہ کیا جا رہا ہے ان کی عملی صورت یہی بنتی ہے جس کا ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ عرض کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی یہ اصطلاح بھی ’’کلمۃ حق ارید بہا الباطل‘‘ ہی کی ایک نئی صورت ہے جو قرآن و سنت کی صریح تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ سے صریحاً متصادم ہے۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی ’’اوور ہالنگ‘‘ اور اسلامی تعلیمات و احکام کو مغربی فلسفہ و ثقافت کے فریم ورک میں فٹ کرنے کے ایجنڈے پر وقت ضائع نہ کریں۔ اس کام پر گزشتہ چودہ صدیوں میں خوارج، معتزلہ اور اکبر بادشاہ سمیت بہت سے حکمرانوں اور طاقتور گروہوں نے بڑا وقت خرچ کیا ہے مگر اسلام کے فکری، اعتقادی اور ثقافتی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس لیے کہ اسلام ایک مستقل عقیدہ و ثقافت اور نظام حیات کا نام ہے اور کسی اور عقیدہ و ثقافت کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ قبول نہیں کر سکتا۔