ٹیکس کے دو اسلامی اصول

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۷ جولائی ۲۰۲۴ء

(ہفتہ وار درس)

بعد الحمد الصلوٰۃ۔ آج کل پورا ملک مصائب کا شکار ہے لیکن دو تین مسئلے بڑی اہمیت کے ساتھ ہر طبقے اور ماحول میں ڈسکس ہو رہے ہیں۔ ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو گئے ہیں اور مہنگائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ آج ہمارے ہاں جامع مسجد میں تاجربرادری اور علماء کرام کی میٹنگ تھی ، مشاورت کا آغاز ہوا ہے کہ اس کو روکنے کی، اس پر احتجاج کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ آج ابتدائی مشاورت کے لیے علماء کرام،تاجر برادری اور مختلف طبقات کے حضرات تھوڑی دیر بیٹھے رہے ہیں۔ جوکچھ بس میں ہوا کریں گے ان شاءاللہ العزیز، لیکن ٹیکسوں کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا ہے؟ ہم نے تو اپنا سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔ قرآن چھوڑ دیا،سنت چھوڑ دی، خلافت راشدہ چھوڑ دی، جو آئی ایم ایف کہتا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں، بس وہ ہم کرتے جا رہے ہیں، اپنی ہر بنیاد ہم نے چھوڑ دی ہے۔

ٹیکس کیا ہے اور اس کا اصول کیا ہے؟ بیسیوں واقعات میں سے دو عرض کروں گا۔

(۱) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت عمرؓ بازار میں جا رہے تھے، ایک بوڑھے آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا، اِس دکان سے مانگ رہا ہے، اُس دکان سے مانگ رہا ہے، دوچار جگہ مانگتے دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے۔ فرمایا: عبدالرحمٰن!پتہ کرو یہ بھیک کیوں مانگ رہا ہے؟ حضرت عمرؓ نے جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے تو اپنے نظام میں کوئی ایسی کمزوری نہیں رہنے دی کہ کسی کو کسی سے مانگنے کی ضرورت پڑے، یہ کیوں مانگ رہا ہے؟ بوڑھا آدمی تھا، اسے بلایا اور پوچھا کہ بابا کون ہو؟ اس نے کہا، یہودی ہوں۔ بھیک مانگ رہے ہو؟ کہا، جی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟جی دیتا ہے۔ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتا؟کہا، ہوتا ہے۔ جب تمہیں بیت المال سے وظیفہ بھی ملتا ہے اور تمہاری ضروریات کے مطابق ہوتا ہے تو بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا جناب بات یہ ہے کہ مجھے سال کے بعد ایک ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے جس کو جِزیہ کہتے ہیں، اس کی تاریخ قریب آرہی ہے اس کے پیسے میرے پاس نہیں ہے۔ دوچار سے مانگوں گا اور ٹیکس دے دوں گا۔

یہ جزیہ کیا ہے؟ ایک اسلامی ریاست میں جو غیر مسلم رہتے ہیں، یہ شہری تو ہیں لیکن فوجی ذمہ داری سے مستثنیٰ ہوتے ہیں کیونکہ ہماری جنگ جہاد کے نام سے ہوتی ہے، عقیدے کے نام پر ہوتی ہے، دین کے نام پر ہوتی ہے، اس لیے اسلام نے یہ لحاظ رکھا ہے کہ جو غیر مسلم ہیں ان کو اپنے عقیدے کی جنگ میں شریک نہ کیا جائے۔ یہ ہماری مذہبی جنگ میں، عقیدے کی جنگ میں،دین کی جنگ میں غیر مسلم کا کیا عمل ہے؟ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری فوجی ذمہ داریوں سےمستثنیٰ ہوتے ہیں اس کے عوض میں جزیہ والا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

اس نے کہا جناب مجھے ٹیکس دینا پڑتا ہے، وہ تاریخ آرہی ہے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے نہیں پہچاناکہ پوچھ کون رہا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: عبد الرحمٰن! یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ جوانی میں یہ غیر مسلم محنت مزدوری کر کے ہمیں ٹیکس دیں اور ہم استعمال کریں، اور بڑھاپے میں ان کو لوگوں کے دروازے پر ہاتھ پھیلانے کے لیے چھوڑ دیں ۔ فرمایا: بابا! میں ہی عمرؓ ہوں صبح آنا تمہارا مسئلہ حل کر دیں گے۔ صبح باقاعدہ مشاورت ہوئی۔ فرمایا : بھائی یہ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے یہ ٹیکس دیتے ہیں اور ہم لیتے ہیں لیکن جب کماتے ہوں تب۔ جب بوڑھا ہوگیا ہے کمانے کے قابل نہیں رہا تو اب وہ بے چارہ کیا کرے گا؟ قانون تبدیل کر دیا کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہیں رہا اس پر ٹیکس ختم۔

یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کر رہا ہوں، تاریخ کا واقعہ عرض کر رہا ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کمانے والے پر ہے اور کمائی میں سے ہے، اور اگر کوئی کمانے کے قابل نہیں ہے تو اس پر ٹیکس بھی نہیں ہے۔

(۲) دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ ہی کے زمانے کا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بڑےصحابی ہیں، جرنیل ہیں، مصر انہوں نے فتح کیا تھا اس لیے انہیں فاتح مصر کہا جاتا ہے۔ مصر کی بڑی آبادی قبطی عیسائیوں کی تھی۔ آج بھی قبطی عیسائی وہاں بہت ہیں۔ جب علاقہ فتح کر لیا اور ان سے سالانہ جزیہ وصول کر لیا ، یہ سال کا جزیہ ہوتا ہے، اتنے میں امیر المومنین کی طرف سے آرڈر آگیا کہ ہمیں تمہاری ضرورت فلاں محاذ پر ہے مصر چھوڑ کہ آجاؤ۔

عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ امیر المومنین کا آرڈر ہے اور ہم نے علاقہ خالی کر کے دوسری جگہ جانا ہے، جبکہ ہم نے ان سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور سال کا ٹیکس وصول کر رکھا ہے، اب کیا کریں؟ ہم نے جو جزیہ لے کر ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی ہے، اب یہاں سے جائیں گے تو وہ ذمہ داری کدھر جائے گی؟ تاریخ یہ کہتی ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علاقے کے بڑے لوگوں کو بلاکر کہا کہ بھائی یہ مسئلہ ہے، ہم نے آپ کے علاقے پر قبضہ کیا، ٹھیک ہے ہم فاتح ہیں، ہم نے آپ سےٹیکس بھی وصول کر لیا ہے جو سال کا ہوتا ہے، لیکن اب امیر المومن کا آرڈر آگیا ہے کہ ہم نے کسی اور محاذ پر جانا ہے اور یہ علاقہ ہم نے خالی کرنا ہے۔ ہم نے سال بھر کے لیے آپ حضرات سے جو ٹیکس لیا ہوا ہے کیونکہ ہم سال بھر آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ٹیکس واپس کر رہے ہیں۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ سارے غیر مسلم کھڑے ہو کر رو رو کے دعائیں کرنے لگے کہ یا اللہ ان کو واپس لاؤ ۔

میں نے یہ دو واقعات مختصراً‌ اس لیے عرض کیے ہیں کہ ٹیکس کا اصول کیا ہے: (۱) جو کماتا ہے وہ کمائی میں سے ٹیکس دے۔ (۲) اور ٹیکس کے بدلے جو ہماری ذمہ داری ہے اگر ہم نہیں پوری کر رہے تو ٹیکس واپس کریں گے۔ یہ نہیں کہ جس کا جی چاہے جہاں داؤ لگے جتنا لگے وہ لگا لے، ٹیکس کا اسلامی اصول یہ نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے ،میں اس بحث میں نہیں جاتا، لیکن میں نے دو اصول عرض کیے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے عرض کیے ہیں کہ ٹیکس اس پر لگے گا جو کماتا ہے اور کمائی میں سے دیتا ہے۔ اور اس ٹیکس کے اندر ہم نے بھی کچھ دینا ہے۔ یہ ون وے ٹریفک تو نہیں ہے کہ لیتے جانا اور کھاتے جانا۔

یہ باتیں ہماری تاریخ میں لکھی ہوئی ہیں، لیکن ہم نے استاد بنا رکھا ہے امریکہ کو، ورلڈ بینک کو، آئی ایم ایف کو، جو وہ کہتے ہیں ہم کرتے جا رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ ہلنے کی پوزیشن میں بھی ہم نہیں ہے۔ اس لیے سادہ سی گزارش ہے کہ ہمیں اپنے اصولوں پر واپس جانا ہو گا، اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہمیں ان جکڑ بندیوں سےاس معاشی غلامی سے نکلنا ہوگا، اپنے اصولوں پر واپس جانا ہوگا، قرآن پاک پر واپس جانا ہوگا، سنت رسولؐ پر واپس جانا ہوگا، خلفائے راشدینؓ کے دور حکومت پر واپس جانا ہوگا، جب تک ہم قومی سطح پر اس کا فیصلہ نہیں کریں گے یہ جکڑ بندی بڑھتی جائے گی، لوٹ مار بڑھتی جائے گی۔ ڈاکوؤں نے تو ڈاکہ ڈالنا ہے۔ اور گھر میں سے کوئی مخبر ہوتاہے تو ڈاکہ پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ جنگ لڑنا ہوگی، ڈاکوؤں کے خلاف اور ان کے مخبروں کے خلاف جو اندر بیٹھ کر ڈاکوؤں کو راستہ بتا رہے ہیں کہ یہاں پیسے ہیں ،یہاں یہ ہے یہاں وہ ہے۔ اس لیے ہم نے باہمی مشورہ یہی کیا ہے کہ اس ڈاکے کے احساس کو بیدار کریں، اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

2016ء سے
Flag Counter