متحدہ مجلس عمل کی تشکیل نو

   
سوشل میڈیا
۱۹ نومبر ۲۰۱۷ء

غلام نبی مدنی: اس وقت ہمیں جوائن کیا ہے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو معروف مذہبی سکالر ہیں، بہت شکریہ مولانا صاحب! آپ نے ہمیں وقت دیا۔

سوال: مولانا صاحب! ہمارے پاس وقت کی کمی ہے، میں آپ سے براہ راست ٹاپک پر آؤں گا کہ متحدہ مجلس عمل ماضی میں بھی بنی اور اب بھی بن رہی ہے۔ ماضی کی جو ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ تھی، اس نے کسی حوالے سے دینی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے، ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت بڑے کام کیے، لیکن بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو انہوں نے نہیں کیں۔ ان میں سے ایک لال مسجد کا واقعہ بھی ہے کہ اس حوالے سے اس جماعت کی طرف سے کوئی بڑا کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ماضی کی متحدہ مجلس عمل، یا جو اَب بننے جا رہی ہے، ان دونوں کا مقارنہ اور آپس میں تقابل کر کے ان کا مستقبل کیا ہوگا کہ دینی سیاسی جماعتیں اسلام کی حفاظت کے لیے اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے کچھ کام کر پائیں گی یا نہیں کر پائیں گی؟

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ گزارش یہ ہے کہ جب دینی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں متحد ہوتی ہیں تو حالات کے تقاضوں کے تحت ہوتی ہیں۔ اُس زمانے میں متحدہ مجلس عمل بنی تھی تو اس وقت کے حالات و ضروریات کو سامنے رکھ کر بنی تھی اور ان حالات میں جو کردار وہ ادا کر سکتی تھی اس نے کیا تھا۔ اب جو متحدہ مجلس عمل دوبارہ بنے گی یہ آج کے حالات کے مطابق بنے گی اور میرا اندازہ ہے کہ ان شاءاللہ حالات کو فیس کرے گی۔

ہر زمانے میں، ہمارا پاکستان میں ہمیشہ سے یہ تجربہ رہا ہے کہ کسی دینی یا سیاسی مقصد کے لیے جب دینی جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں تو کبھی انہیں ناکامی نہیں ہوئی، بلکہ انہوں نے ہمیشہ پیش رفت کی ہے۔ یہ اتحاد ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور دینی ضرورت بھی ہے۔ نیز اتحاد کسی امتیاز کے بغیر ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس میں امتیازات رکھیں گے تو اتحاد نہیں ہوگا۔ اگر ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی طرز کا یا ’’تحریک تحفظ ختم نبوت‘‘ کی طرز کا اتحاد ہوگا، تو جب ہم متحد ہوں گے تو قومی اور دینی مقاصد حاصل کر پائیں گے۔ اس وقت جو متحدہ مجلس عمل دوبارہ متحدہ ہونے جا رہی ہے یہ اچھی بات اور اچھا شگون ہے۔ میں یہ بات بھی عرض کروں گا کہ تجربات تو ہوتے ہیں، پچھلے دور میں جو تجربات ہوئے اور ان میں جہاں جہاں خلا محسوس ہوا ہے اور کمزوری محسوس ہوئی ہے، تو نئی تشکیل میں اس خلا پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سوال: مولانا صاحب! جو متحدہ مجلس عمل ماضی میں بنی اور اب بھی بن رہی ہے اس میں صرف چند ایک جماعتیں شامل ہیں، دیگر دینی سیاسی جماعتیں اس میں شامل کیوں نہیں ہوتیں، مثلاً‌ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ابھی حالیہ دنوں بڑی کارکردگی دکھائی اور ملّی مسلم لیگ وغیرہ۔

جواب: میرے بھائی! کسی ایک ایجنڈے پر ساری جماعتوں کا متحد ہونا کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ایجنڈا ہے، جو متفق ہو جائے ٹھیک ہے۔ سیاست میں ساری جماعتیں کبھی متحد نہیں ہو سکتیں، انتخابی پروگرام پر جتنی زیادہ سے زیادہ جمع ہو جائیں اور جتنا زیادہ مشترکہ ایجنڈا ہو جائے وہ بہتر ہے۔

سوال: مولانا صاحب! آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ سیاست کے لیے اور ایک سیاسی ایجنڈے کے لیے تو متحد ہو رہی ہیں، لیکن حالیہ دنوں جو ختم نبوت کے حوالے سے ایک سازش کی گئی، اس حوالے سے یہی متحدہ مجلس عمل والی جماعتیں متحد نہیں ہوئیں اور صرف ایک مکتبہ فکر کے لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور وہ اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔

جواب: یہ مسئلہ اگر صرف دھرنے سے حل ہوا ہے تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن دھرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرنے سے حل ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو دینی جماعتیں موجود ہیں جمعیت علماء اسلام وغیرہ ان کے متحرک ہونے سے اور ان کے منظم ہو کر احتجاج کرنے سے مسئلہ حل ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کردار کو نظر انداز کر دینا ٹھیک بات نہیں ہے۔ دھرنا ابھی تک جاری ہے، دھرنے کے مطالبات منظور نہیں ہو رہے، ویسے میں ان مطالبات کے حق میں ہوں لیکن دھرنے کی وجہ سے یہ نہیں ہوا، یہ پارلیمنٹ کے اندر پارلیمنٹ پارٹیوں کے مشترکہ رول کی وجہ سے ہوا ہے کہ جو خرابی ہوئی تھی اس کی اصلاح ہوئی ہے۔

سوال: مولانا صاحب! پارلیمنٹ کے اندر جو جماعتیں ہیں ان کو ایسا چکمہ دیا گیا کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اتنی بڑی سازش ہو گئی ہے اور بعد میں راجہ ظفر الحق صاحب خود اقرار کر رہے ہیں اس کا۔ ۔ ۔

جواب: میرے بھائی! جب پتہ چلا ہے تو سنبھالا بھی انہوں نے ہی ہے۔

غلام نبی مدنی: چلیں ٹھیک ہے، مولانا صاحب! آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔

2016ء سے
Flag Counter