حضرت مولانا سید علی میاںؒ کی یاد میں ایک نشست

   
۶ مارچ ۲۰۰۰ء

۲۵ فروری کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کی طرف سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش نے شرکت کی۔ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر محمد عبد اللہ جمال نے نشست کی صدارت کی جبکہ گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ کے شعبہ امتحانات کے نگران پروفیسر غلام رسول عدیم مہمان خصوصی تھے، انہوں نے تفصیل کے ساتھ ندوۃ العلماء لکھنو کی ملی خدمات اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج وزیرآباد کے پروفیسر حافظ منیر احمد اور راقم الحروف نے بھی نشست سے خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض معروف صحافی اور استاد سید احمد حسین زید نے سرانجام دیے۔ قاری ملک عبد الواحد صاحب نے تلاوت کلام پاک سے حاضرین کو محظوظ کیا اور بزرگ عالم دین علامہ محمد احمد لدھیانوی کی دعا پر نشست اختتام پذیر ہوئی۔

سید احمد حسین زید نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اس بات کا شکوہ کیا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ جیسی عظیم علمی، دینی اور روحانی شخصیت کی جدائی پر اہل علم و دانش کی طرف سے تعزیتی پروگراموں کا جس طرح اہتمام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو رہا جو خود اہل علم و دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے تعزیتی پروگراموں کا انعقاد صرف جانے والے بزرگوں کا نہیں بلکہ نئی نسل کا بھی حق ہے کہ اسے ان بزرگوں کے بارے میں بتایا جائے اور اسے اس کے ماضی کے ساتھ ذہنی وابستگی کا ماحول مہیا کیا جائے۔

پروفیسر غلام رسول عدیم نے ندوۃ العلماء لکھنو کی خدمات اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی جدوجہد کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور بتایا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو سنبھالنے کے لیے دو نقطۂ نظر سامنے آئے۔ ایک نقطۂ نظر سر سید احمد خان مرحوم کا تھا کہ مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں انگریزی اور جدید علوم سے بہرہ ور کیا جائے تاکہ وہ ملک کے نظام میں عملاً شریک ہو سکیں او رمعاشی ابتری کا شکار نہ ہو جائیں۔ دوسرا نقطۂ نظر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء کا تھا کہ مسلمانوں کے زوال اور پستی کا سب سے بڑا سبب دین سے دوری ہے اس لیے دینی تعلیم کو عام کیا جائے۔ سید احمد خانؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے مگر دونوں نے الگ الگ راستہ اختیار کیا اور دونوں کے موقف اور پروگراموں میں واضح تضاد پایا جاتا تھا۔ جبکہ ان دونوں نقطۂ ہائے نظر کی خوبیوں کو جمع کرنے کے لیے ۱۸۹۸ء میں ایک تیسرا ادارہ ندوۃ العلماء کے نام سے وجود میں آیا جس کی بنیاد مولانا سید علی مونگیریؒ نے رکھی اور ان کے ساتھ مولانا شبلی نعمانیؒ، مولانا حکیم سید عبد الحئی حسنیؒ اور مولانا عبد الحقؒ حقانی جیسے سرکردہ علماء اور اہل دانش نے ندوہ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ ندوۃ العلماء کا موقف یہ تھا کہ مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے ان کا اپنے دین اور ماضی کے ساتھ وابستہ رہنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ جدید علوم و فنون سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ندوہ نے مسلمانوں کو ایک نیا اور متوازن راستہ دکھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک فکری و علمی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

پروفیسر غلام رسول عدیم نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے حدیث رسولؐ کی ترویج پر اپنی ساری توجہ مرکوز کر لی کہ دین کا اصل سرچشمہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و تعلیمات ہیں۔ مگر ندوہ کی توجہات اور جدوجہد کا مرکز تاریخ اسلام بنی کیونکہ اپنے ماضی سے پوری طرح آگاہی حاصل کیے بغیر نئی نسل کا صحیح طور پر مسلمان رہنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا شبلیؒ نعمانی، مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اسلامی تاریخ اور مسلم شخصیات پر جو تحقیقی کام کیا اور تاریخ اسلام کو جس اہتمام کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا اس نے ندوہ کو ملی تاریخ میں ایک امتیازی مقام عطا کر دیا۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی جبکہ ان کے والد محترم مولانا سید عبد الحئی حسنیؒ ندوۃ العلماء کے ناظم تھے۔ مولانا حکیم عبد الحی حسنیؒ خود بھی اپنے دور کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے، اردو ادب میں ان کی کتاب ’’گل رعنا‘‘ بلند پایہ کی کتاب ہے اور ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے آٹھ جلدوں میں ان کی ضخیم تحقیقی کتاب سے اہل علم مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔ مولانا علی میاںؒ ان کے فرزند ہیں اور انہوں نے ندوہ کے ماحول میں تعلیم حاصل کی اور پھر کم و بیش نصف صدی تک ندوہ کے سربراہ رہے۔ ندوہ کا ذوق تاریخ کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اعلیٰ سطح کا ہے اور عربی و اردو ادب میں ندوہ کی خدمات ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اقبالیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور عرب دنیا میں اقبالؒ کو متعارف کرانے میں سب سے نمایاں کردار مولانا ندویؒ کا ہے جو خود لکھتے ہیں کہ وہ جب عرب ممالک میں گئے تو دیکھا کہ وہاں برصغیر کے ہندو دانشور اور شاعر بندرناتھ ٹیگور کا تعارف تو ہے مگر مسلمان مفکر علامہ اقبالؒ کو وہاں کے لوگ نہیں جانتے۔ چنانچہ انہوں نے ۲۵ سال کی عمر میں خود اقبالؒ سے ملاقات کر کے ان کے کلام کی عربی میں ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی اور اپنے ارادے کا اظہار کیا جس پر علامہ اقبالؒ بہت خوش ہوئے اور انہیں اجازت دے دی۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے دور میں ندوہ کی علمی و فکری تحریک کا تعارف عالمی سطح پر ہوا اور خود مولانا مرحوم بھی پورے عالم اسلام کے قابل صد احترام فکری راہنما کے طور پر سامنے آئے۔ وہ صرف ندوہ کے سربراہ نہیں تھے بلکہ رابطہ عالم اسلامی کے بانی رکن بھی تھے اور متعدد عرب یونیورسٹیوں کی اعلیٰ کمیٹیوں کے رکن تھے۔ جبکہ ان کی عربی و اردو تصنیفات پورے عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں کے لیے راہنمائی کا مدتوں سرچشمہ رہیں گی۔

پروفیسر حافظ منیر احمد نے عربی ادب میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان میں عربی ادب کے فروغ کے سلسلہ میں ریاستی اداروں کی بے حسی کا شکوہ کیا اور توجہ دلائی کہ اہل دانش کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے کہ پاکستان کے سرکاری اداروں میں عربی ادب کی طرف توجہ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے کہ اب عربی ادب کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔

راقم الحروف نے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی خدمات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا اور حاضرین کو بتایا کہ مولانا علی میاںؒ صرف گفتگو اور تحریر کی دنیا کے بزرگ نہیں تھے بلکہ عملی میدان میں بھی انہوں نے مسلمانان ہند کی مجاہدانہ راہنمائی کی اور وہ مسلسل ہندوجارحیت کا شکار بھارت کی مسلم اقلیت کا بہت بڑا سہارا تھے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی خاندانی قوانین کے تحفظ کی جدوجہد کی آخر وقت تک جرأت مندانہ قیادت کی اور اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل مذہبی احکام سے دستبرداری اور مشترک خاندانی قوانین (کامن سول کوڈ) قبول کرنے کی دعوت کو ارتداد کی دعوت قرار دے کر مسترد کرنے کا اعلان کیا بلکہ یوپی کے مسلمانوں کے مذہبی تعلیم کے نظام کو بچانے اور مستحکم کرنے کے لیے بھی موثر کردار ادا کیا۔ اور یہ مولانا ندویؒ ہی کی شخصیت تھی کہ جب یوپی کے سرکاری سکولوں میں بی جے پی کی حکومت نے ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ روزانہ صبح تعلیم کے آغاز پر گانے کو لازمی قرار دیا تو اس ترانے کے بعض شرکیہ اشعار کی وجہ سے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس ترانے کے کچھ اشعار شرکیہ ہیں اور ہم ابراہیمیؑ ہیں اس لیے ہم موت تو قبول کر سکتے ہیں مگر ہمارے بچے یہ ترانہ نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ مولانا ندویؒ کے اس شدید احتجاج پر یوپی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

راقم الحروف نے عرض کیا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ہمارے علمی اور فکری راہنما تھے اور ان کی زندگی اور تگ و تاز رہتی دنیا تک علماء اور اہل دانش کے لیے علمی و فکری سرچشمہ اور مشعل راہ رہے گی۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بزرگوں کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرایا جائے اور ان کے مجاہدانہ کارناموں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter