جنوبی افریقہ سے واپسی پر لاہور ایئر پورٹ پر اترتے ہی موبائل فون آن کیا تو پہلا میسج مولانا شمس الرحمن معاویہؒ کی شہادت کے بارے میں تھا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جوھانسبرگ سے میں اور صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اکٹھے جدہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے عمرہ کے لیے ٹرانزٹ ویزا حاصل کر رکھا تھا اس لیے وہ وہیں رک گئے جبکہ میں نے رات جدہ ایئر پورٹ پر گزاری اور دوسرے دن شام کو لاہو رپہنچا۔ مولانا شمس الرحمن معاویہؒ کی شہادت کی خبر سے بے حد صدمہ ہوا۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کو فون کر کے صورت حال معلوم کی اور انتہائی افسردہ دل کے ساتھ گوجرانوالہ پہنچ گیا۔
مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ کالعدم سپاہ صحابہؓ کے سرگرم اور باہمت راہ نماؤں میں سے تھے، عمدہ خطیب تھے، اپنے موقف اور مشن کے ساتھ ان کی وابستگی بے لچک تھی، لیکن مشترکہ دینی تحریکات میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ تحریک ختم نبوت، تحریک ناموس رسالتؐ اور دیگر تحریکات میں برابر شریک رہے۔ مختلف مجالس اور اسفار میں رفاقت رہی، ان کا عزم و حوصلہ اور تحمل و بردباری نوجوانوں کے لیے لائق تقلید تھا۔ گرم و سرد ہر قسم کے حالات میں کام کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے اور ہر اسٹیج پر اپنی بات سلیقے کے ساتھ کہنے کے ذوق سے بہرہ ور تھے۔ وہ تو اپنے مشن کی خاطر شہادت کا مرتبہ پا کر سرخرو ہوگئے ہیں مگر بے شمار دوستوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں اور ان کے پسماندگان اور رفقاء کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔