قومی سیاست میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دھماکہ خیز واپسی کے دیگر نتائج تو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہیں گے، لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ وہ قومی سیاست میں واپس آ گئے ہیں اور انہوں نے قومی سیاست دانوں اور میڈیا کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ یہ توجہ مثبت ہو یا منفی، بہرحال توجہ ہے اور سیاست میں بسا اوقات منفی توجہ زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
ہمارے ہاں اصل میں سیاسی کلچر اور مزاج یہ بن گیا ہے کہ موافقت یا مخالفت میں ہمارے پاس درمیان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ کسی کی حمایت کرتے ہیں تو وہ انتہا پر ہوتی ہے اور اگر کسی سے اختلاف یا اس کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا لیول بھی آخری انتہا سے نیچے نہیں ہوتا۔ جس زمانے میں عراق کویت پر حملے کی تیاری کر رہا تھا، اس دور کی بات ہے کہ لاہور سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ کے مدیر محترم نے اپنے اداریہ میں صدر صدام حسین مرحوم کی اس حد تک قصیدہ خوانی کی کہ انہیں اس دور کا صلاح الدین ایوبیؒ قرار دے ڈالا اور پیش گوئی فرمائی کہ بیت المقدس انہی کے ہاتھوں آزاد ہو گا۔ لیکن اس سے اگلا شمارہ شائع ہونے سے پہلے صدام حسین مرحوم کویت پر قبضہ کر چکے تھے اور عالمی صورت حال خاصی تبدیل ہو چکی تھی، چنانچہ ان مدیر محترم نے (جو اب فوت ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، آمین) کوئی درمیان کا گیئر لگائے بغیر صدام حسین مرحوم کے بارے میں تحریر فرما دیا کہ وہ اس دور کا سب سے بڑا دجال ہے۔
اس کے بعد ان سے ایک ملاقات کا موقع ملا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے دونوں اداریے پڑھ کر مجھے فیض احمد فیض مرحوم کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
میں نے گزارش کی کہ کیا آپ کو صدام حسین کے لیے صلاح الدین ایوبیؒ اور دجال کے درمیان کوئی جگہ نہیں ملی، جہاں پر آپ اس غریب کو کھڑا کر سکیں؟
قومی سیاست میں ہمارا یہی رویہ سیاسی ماحول میں توازن اور سنجیدگی کے فروغ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جب تک ہم اس مزاج میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوتے، قومی سیاست کا اُتار چڑھاؤ اسی طرح بے ہنگم رہے گا۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنے کے بارے میں بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے رہے ہیں اور اب بھی مختلف حوالوں سے سوالات ہوتے ہیں، اس لیے اب جبکہ طوفان تھم گیا ہے اور معاملات نارمل ہوتے جا رہے ہیں، کچھ معروضات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قومی سیاست میں اس تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ انتخابی نظام کے بارے میں بے اطمینانی اور بے چینی تو بہت سے حلقوں میں پائی جاتی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے، لیکن اسے کھلم کھلا چیلنج کرنے اور اس کے خلاف عوام کی ایک بڑی تعداد کو سڑکوں پر لانے کی بات پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔ میرے لیے اس میں تعجب کا پہلو یہ بھی ہے کہ سسٹم کو چیلنج کرنے کی بات ایک ایسے حلقے کی طرف سے سامنے آئی ہے، جس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جبکہ موجودہ سسٹم پر مسلسل ناراضی اور بے چینی کا اظہار کرنے والے حلقے موجودہ تناظر میں سسٹم کے دفاع میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کا نام بھی لے لوں، تو اس میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
۱۹۸۰ء سے پہلے کی بات ہے، پاکستان قومی اتحاد کا دور تھا، مولانا مفتی محمودؒ اتحاد کے صدر تھے اور میں جمعیت علمائے اسلام میں ان کے معاونین میں شمار ہوتا تھا۔ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں مولانا مفتی محمودؒ تشریف فرما تھے۔ ایک معروف اخبار نویس نے، جو اسلام آباد میں ایک قومی اخبار کے سینئر رپورٹر تھے، سوال کیا کہ جب تک آپ کو مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت نہ مل جائے، کیا آپ کو اپنے پروگرام کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی توقع ہے؟ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا موجودہ سسٹم میں آپ کو مکمل اختیارات والی حکومت ملنے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے؟ مفتی صاحبؒ نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر اس اخبار نویس نے سوال کیا کہ پھر آپ یہ سب کچھ کیا کر رہے ہیں؟ مفتی صاحبؒ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ بات طے ہے کہ موجودہ سسٹم میں ہمارے ہاتھ میں حکومت آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ جب تک علماء کی حکومت اس ملک میں قائم نہیں ہوتی ، نفاذِ اسلام کی توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن ہم ایک بات ضرور کر سکتے ہیں کہ جو لوگ نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انہیں آرام سے حکومت نہ کرنے دیں اور یہ کام ہم بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں۔
یہ اب سے تین عشرے پہلے کی بات ہے، اب تو وہ پوزیشن بھی باقی نہیں رہی اور قومی سیاست میں اپنی موجودگی کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ہمیں ہر مرحلے میں کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ قومی سیاست میں اسلام اور اسلامی نظام کا حوالہ دھیرے دھیرے ثانوی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور وہ ملک جو اسلام اور جمہوریت کے مشترکہ نعرے پر وجود میں آیا تھا اور جس کے قیام کی تحریک سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ تک ”اسلام اور جمہوریت“ دو ہی قومی سیاست کے بڑے حوالے تھے، مگر اب کچھ عرصے سے اسلام کا حوالہ پس منظر میں چلا گیا ہے اور وہ جماعتیں بھی اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات صرف دفاع کے لہجے میں کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد ہی اسلام، شریعت اور نظامِ مصطفیٰ کا نفاذ بتایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ موجودہ سسٹم کو چیلنج کرتے ہوئے اس میں انقلابی اصلاحات کا نعرہ لگانے والے اور منہاج القرآن کے ٹائٹل کے ساتھ لوگوں کو سڑکوں پر لانے والے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زبان سے بھی اسلام، نفاذِ شریعت یا نظامِ مصطفیٰ کے الفاظ سننے میں نہیں آ رہے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس نعرے کا تعلق ہے کہ موجودہ انتخابی سسٹم ملک میں عوام کی امنگوں کے مطابق اور ملک کی نظریاتی اساس کے تقاضوں کے مطابق صحیح قیادت سامنے لانے میں رکاوٹ ہے، اس لیے اسے بہرحال تبدیل ہونا چاہیے، ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں تمام تر تحفظات کے باوجود ان کے اس نعرے اور موقف سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا اور اسے منفی پروپیگنڈے کے غبار میں نظروں سے اوجھل کر دینا انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ میری رائے میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی قیادت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور موجودہ سسٹم پر قناعت کا تاثر دینے کی بجائے اس میں تبدیلی کا پرچم خود اٹھانا چاہیے۔
اس حوالے سے یہ ذکر کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ چند ماہ قبل مجھے ایک صاحب ملے، جو قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور مجھے بھی اس کی حمایت کے لیے آمادہ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے پاکستان کی حدود میں عسکری سرگرمیوں سے قطعی طور پر اتفاق نہیں۔ میں افغان جہاد کو جہادِ شرعی سمجھتا ہوں، لیکن پاکستان میں عسکری جدوجہد کو درست نہیں سمجھتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے حق میں نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ صرف حق میں نہیں، بلکہ میں خود اس کا داعی ہوں کہ پاکستان میں اسلامی شریعت کا نفاذ قیامِ پاکستان کا تقاضہ ہے اور ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے لیے ہتھیار اٹھانے کے حق میں نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے علمبردار ہیں اور ہتھیار اٹھانے کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کے پاس نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے لیے کون سا متبادل عملی پروگرام ہے؟ اور کیا وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ موجودہ انتخابی طریق کار سے ملک میں اسلام نافذ ہو جائے گا؟ میرے پاس تو اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے، اگر دینی جماعتوں کی قیادتیں اس سوال کا جواب دے سکیں تو ان کی بے حد نوازش ہو گی۔