پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں ضروری ہے؟

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۵ نومبر ۲۰۱۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ”پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد“ ہے، میں اس کے عمومی تناظر پر مختصراً کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر ہم بحیثیت مسلمان اس بات کے پابند ہیں کہ ہمارے معاشرے میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا عملی نفاذ ہو، اس لیے کہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین پر عمل ہر مسلمان کا فریضہ اور ذمہ داری ہے، کیونکہ اسلام میں صرف شخصی احکام نہیں ہیں بلکہ خاندانی زندگی، عمومی معاشرت اور بین الاقوامی تعلقات و معاملات کے بارے میں بھی راہنمائی کی گئی ہے اور احکام دیے گئے ہیں، جن پر صحیح طور پر عمل اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ملک میں شریعت اسلامیہ کا نظام نافذ ہو اور دستور و قانون کے ذریعہ احکام شرعیہ کے نفاذ کا اہتمام کیا جائے۔ اس لیے ملک میں شریعت کے احکام و قوانین کی عملداری بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سمیت تحریک پاکستان کے کم و بیش سبھی قائدین نے اعلان کیا تھا کہ اسلام کے نام پر یہ نیا ملک اس لیے قائم کیا جا رہا ہے تاکہ قرآن و سنت کے احکام کو نافذ کیا جائے اور ایک فلاحی اسلامی ریاست اور معاشرت وجود میں لایا جائے۔ قیام پاکستان کے اس مقصد کو آج جس قدر بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی جائے مگر تاریخ کے ریکارڈ سے وہ اعلانات اور وعدے کسی صورت میں نہیں کھرچے جا سکتے جن میں اسلامی تہذیب کی بنیاد پر مسلمان معاشرے اور سوسائٹی کے قیام کو پاکستان کا نظریہ اور مقصد قرار دیا گیا تھا۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس خطہ میں جب برطانوی استعمار نے تسلط قائم کیا، ایک سو سال ایسٹ انڈیا کی صورت میں، اور اس کے بعد نوے برس تاج برطانیہ کی حکمرانی کے طور پر برطانیہ نے یہاں حکومت کی، تو ان سے پہلے مغل بادشاہت کے دور میں شرعی قوانین مسلسل نافذ چلے آرہے تھے۔ برطانوی حکمرانوں نے ”فتاویٰ عالمگیری“ کو منسوخ کر کے اس کی جگہ انگریزی قوانین اور نظام کا نفاذ کیا تھا۔ اس لیے برطانوی حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلم حکومت کی بحالی کی صورت میں فطری طور پر یہ تقاضہ تھا کہ انہی شرعی احکام و قوانین کو ملک کا نظام بنایا جائے جن کو جبراً منسوخ کر کے فرنگی عدالتی نظام نے یہاں قدم جمائے تھے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین آزادی نے تقریباً دو سو سالہ دور غلامی میں مزاحمت کے ذریعہ جب بھی کسی خطہ زمین پر کنٹرول حاصل کیا تو وہاں شرعی احکام نافذ کیے۔ شہدائے بالا کوٹ، مجاہدین شاملی، بنگال کی فرائضی تحریک، اور شمال مغربی سرحد میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ سمیت مجاہدین کے جس گروہ کو جب بھی کسی علاقہ پر کنٹرول ملا انہوں نے شرعی نظام نافذ کیا۔ اس طرح انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد اور جنگ آزادی کا ہدف طے کر دیا گیا کہ آزادی کی جدوجہد کا مقصد صرف آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ شرعی نظام نافذ کرنا بھی ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے جس تاریخی فتوے پر برصغیر میں جہاد آزادی اور تحریک مزاحمت کا آغاز ہوا تھا، اس فتویٰ میں متحدہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے اور جہاد کے فرض ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ یہاں فرنگی اور نصاریٰ کا غلبہ ہو گیا ہے اور اسلام کے احکام و قوانین منسوخ ہو گئے ہیں۔ گویا اس فتویٰ کی رو سے بھی تحریک آزادی صرف آزادی کے حصول کے لیے نہیں بلکہ شرعی نظام کے نفاذ کے لیے تھی، اس لیے جب تک اس خطہ میں شرعی نظام نافذ نہیں ہو جاتا، نہ صرف یہ کہ تحریک آزادی مکمل نہیں ہو گی بلکہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتویٰ بھی ادھورا رہے گا۔

پانچویں بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس کی پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ”قرار داد مقاصد“ منظور کر کے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا تھا کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ حاکمیت اعلیٰ ہو گی اور عوام کی منتخب حکومت قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کی پابند ہو گی۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں پوری صراحت کے ساتھ قوم کے منتخب نمائندوں نے طے کیا تھا کہ پاکستان میں عوام کی حاکمیت اور پارلیمنٹ کی خود مختاری والا نظام نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی پابند پارلیمنٹ کا نظام رائج ہو گا۔ یہ قرارداد مقاصد اور اسلامی دفعات آج بھی دستور کا حصہ ہیں مگر ان پر عملدرآمد میں مسلسل ٹال مٹول بلکہ منافقت سے کام لیا جا رہا ہے، اور اسی منافقت کے باعث ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ ابھی تک عمل نہیں آسکا۔

چھٹی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی بہت سی ریاستوں میں داخلی طور پر شرعی عدالتوں کا نظام اور اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ موجود رہا ہے۔ قلات، خیرپور، سندھ، بہاولپور، سوات اور دیر وغیرہ کی ریاستوں میں پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے قضا کا شرعی نظام موجود تھا جس کے تحت لوگوں کے تنازعات شرعی قوانین کے مطابق طے کیے جاتے تھے، پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا، اس لیے ان علاقوں کے عوام زیادہ پر جوش ہیں کہ ان کے ہاں جو شرعی قوانین موجود تھے انہیں کیوں ختم کیا گیا؟

ساتویں بات یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کی اکثریت اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً عام انتخابات کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ قرار داد مقاصد، دستور کی اسلامی دفعات اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلہ سمیت اس ملک میں نفاذ اسلام کے لیے جتنے اقدامات ہوئے ہیں وہ منتخب اسمبلیوں کے ذریعہ ہوئے ہیں اور عوام کے منتخب نمائندہ نے ان کی منظوری اور توثیق کی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ابھی چند ہفتے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک بین الاقوامی ادارے کے تعاون سے سودی نظام کے حوالہ سے جو سروے کرایا ہے اس کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پچانوے فیصد عوام سودی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں، اور اس سے قبل بھی متعدد سروے رپورٹوں میں بتایا جاتا رہا ہے کہ پاکستانی قوم اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے حق میں ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہم پر ایسے حکمران مسلط چلے آرہے ہیں جو عوام کی اکثریت کی اس خواہش اور مطالبہ کو پورا کرنے کی بجائے عالمی استعمار کی سازشوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دلدل سے نجات دلا کر نفاذِ شریعت کی منزل کی طرف گامزن فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ دسمبر ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter