بڑی طاقتیں کہلانے والے چھ ملکوں کے ساتھ ایران کا ایٹمی معاہدہ اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ان چھ ملکوں نے ایران کو اس بات پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو دس سال تک ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال نہیں کر سکے گا۔ اور اس سلسلہ میں عالمی سطح پر نگرانی کرنے والے اداروں کو اپنی ایٹمی تنصیبات اور اثاثوں تک رسائی فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ جبکہ بڑی طاقتوں نے سلامتی کونسل کے ذریعہ ایران کو اس بات پر مجبور کرنے کے لیے جو اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں وہ پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ سلامتی کونسل نے اس معاہدہ کی منظوری دے دی ہے مگر امریکی کانگریس میں اس کی منظوری کا مرحلہ ابھی باقی ہے جسے رکوانے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ اور انہیں توقع ہے کہ چونکہ امریکی کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے جو صدر اوباما کے اس اقدام کی مخالفت کر رہی ہے اور خود صدر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی اس معاہدہ کے مخالفین موجود ہیں، اس لیے وہ امریکی کانگریس سے اس معاہدہ کو منظور نہ کرنے کا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جبکہ صدر اوباما نے کہہ دیا ہے کہ اگر کانگریس نے یہ معاہدہ منظور نہ کیا تو وہ کانگریس کے اس فیصلے کو ویٹو کر دیں گے جس کا انہیں دستوری طور پر اختیار حاصل ہے اور اس طرح یہ معاہدہ بدستور نافذ العمل رہے گا۔
اس معاہدہ پر اسرائیل کے ساتھ ساتھ خلیجی تعاون کونسل نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور امریکی وزیر دفاع نے اسرائیل کا دورہ کر کے ان تحفظات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ وزیر خارجہ جان کیری اسی سلسلہ میں قطر کا دورہ کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف اس معاہدہ پر عمل درآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال میں جن تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی ہے وہ اس مسئلہ کا ایک مستقل پہلو ہے اور اس کا الگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک معاہدہ کا تعلق ہے، اصولی حوالہ سے اس میں سب سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس معاہدہ کے ذریعہ چند ملکوں کا یہ حق ایک بار پھر عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ عسکری قوت اور ہتھیاروں کے بارے میں انہیں یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ جن ہتھیاروں کو ممنوع قرار دے دیں وہ ان کے علاوہ باقی سب ملکوں کے لیے ممنوع قرار پائیں گے۔ اور اپنے سوا دیگر ممالک کے لیے وہ جن ہتھیاروں کا رکھنا اور تیار کرنا جائز قرار دیں گے انہیں صرف وہی ہتھیار تیار کرنے، رکھنے اور استعمال کرنے کا حق ہوگا۔
ایٹم بم کے بارے میں بھی یہی فلسفہ کار فرما ہے کہ جن کے پاس موجود ہیں اور جنہیں ایٹمی قوت تسلیم کر لیا گیا ہے ان کے پاس ایٹم بموں کے ذخیرے تو جائز ہیں مگر ان کے علاوہ کسی ملک کے پاس ایک ایٹم بم کی موجودگی بھی ناقابل برداشت جرم ہے۔ ایٹم بم کے علاوہ چند دوسرے ہتھیار بھی اس فہرست میں شمار ہوتے ہیں اور انہی ’’ممنوعہ ہتھیاروں‘‘ کی موجودگی کی جھوٹی اطلاعات پر حال میں ہی ان اجارہ دار قوتوں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ مگر لاکھوں افراد کے قتل کے بعد بھی وہ عراق میں ممنوعہ ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی اپنی اس ڈھٹائی پر کسی قسم کی شرمساری کے اظہار کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ انہوں نے فتویٰ دے رکھا ہے کہ ایٹم بم کا شمار شرعی طور پر جائز ہتھیاروں میں نہیں ہوتا اس لیے ایران کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا پہلے سے ہی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ ان کا یہ فتویٰ شرعی اصولوں کے مطابق کہاں تک درست ہے، یہ بات سمجھنا باقی ہے کہ اگر ایرانی قیادت کے نزدیک ایٹمی ہتھیاروں کو شرعاً جواز کا درجہ حاصل نہیں ہے تو پھر ایٹم بم نہ بنانے کے وعدہ کو دس سال تک محدود کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اور کیا دس سال کے بعد ایٹم بم کی تیاری شرعاً جائز ہو جائے گی؟ اس معمہ کو ایرانی قیادت ہی حل کر سکتی ہے، ہماری سمجھ سے تو یہ بہرحال بالاتر ہے۔
اس سلسلہ میں شمالی کوریا کا یہ موقف زیادہ اصولی لگتا ہے جس میں اس کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس قسم کے کسی معاہدہ کے لیے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ وہ ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ملک کہلوانا پسند کرتا ہے۔ گویا شمالی کوریا چند اجارہ دار ملکوں کی اس اجارہ داری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ ایٹم بم بنانا اور رکھنا صرف چند ملکوں کا ہی حق ہے اور ان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔
اس مسئلہ کا دوسرا اور ہمارے نزدیک زیادہ اہم پہلو یہ ہے جس کا اظہار خلیجی ممالک کی باہمی تعاون کی تنظیم نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ پر تشویش کی صورت میں کیا ہے اور اس تشویش کو دور کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری چند روز میں قطر کا دورہ کرنے والے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ کی معروضی صورت حال یہ ہے کہ عراق، شام، لبنان اور یمن اس کی سیاسی و عسکری مداخلت کی براہ راست جولان گاہ بنے ہوئے ہیں، جبکہ سعودی عرب بھی ایران کے تیار کردہ عسکری گروپوں کی یلغار کی مسلسل زد میں ہے جس کا اظہار یمن کی سرحد کے ساتھ ساتھ سعودی خطہ میں روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ اس صورت حال کا ایک رخ علاقائی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیادت کے لیے ایران اور سعودی عرب کی واضح طور پر نظر آنے والی کشمکش میں ایران کا پلڑا بھاری ہوتا جا رہا ہے اور چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کے بعد ایران اپنے عالمی ایجنڈے کو سردست موقوف کرتے ہوئے اپنے مشرق وسطیٰ والے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے فارغ ہو گیا ہے۔ اور اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد اس کی معیشت کے مضبوط و مستحکم ہونے سے اس کے مواقع بھی اسے پہلے سے کہیں زیادہ میسر آنے والے ہیں۔ جبکہ اس معاہدہ کو اگر مشرق وسطیٰ کے بارے میں ان چھ بڑے ملکوں کی پالیسی اور کردار میں نئے رجحانات کا پیش خیمہ سمجھا جائے تو خلیجی تعاون تنظیم کی طرف سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اس کی سنگینی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
جبکہ اس معروضی تناظر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے مسلکی منظر میں ممکنہ تبدیلیوں کا باعث سمجھا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اہل سنت اور اہل تشیع کی کشمکش ایک نئے راؤنڈ میں داخل ہو رہی ہے۔ ہمارے بعض دوست اس سنی شیعہ کشمکش کی موجودگی سے انکاری ہیں جو ہمارے خیال میں شتر مرغ کی طرح صحرا میں طوفان آتا دیکھ کر ریت میں سر دبا لینے کے مترادف ہے، یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کی طرح ہے۔ اس لیے کہ اگر عراق، لبنان، شام اور یمن میں ایک عرصہ سے جاری کشمکش اب سعودی عرب اور بحرین کا رخ کرتی ہے تو حرمین شریفین کو درپیش خطرات و خدشات کو غیر حقیقی قرار دینے اور وحدت امت کے نام پر اسے نظر انداز کر دینے کا کوئی جواز اور موقع باقی نہیں رہے گا۔ مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا یہی وہ اہم ترین پہلو ہے جس کی طرف ہم اہل سنت کی دینی و سیاسی دانش کو توجہ دلانے کی ایک عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر وہاں تو ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین یا رب العالمین۔