سابق وزیر خارجہ جناب آغا شاہی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بتایا ہے کہ ڈنمارک کے جس اخبار نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے اور کارٹون شائع کر کے دنیائے اسلام کے غیظ و غضب کو دعوت دی ہے، اس اخبار کے مالکان نے مسلمانوں کے اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس اخبار میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بھی اتنے ہی خاکے اور کارٹون شائع کیے جائیں گے، جتنے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے شائع کیے گئے ہیں۔ جناب آغا شاہی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے غصے میں کمی نہیں ہو گی، بلکہ ان کے رنج و غصہ میں اضافہ ہو گا، اس لیے کہ مسلمان سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسے سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و احترام ان کے دل میں ہے۔
ڈنمارک کے اخبار ”جلینڈز پوسٹن“ نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ گستاخانہ کارٹون محض اتفاق کے طور پر شائع نہیں کیے تھے، بلکہ اس کے لیے کارٹونسٹوں میں باقاعدہ مقابلہ کرایا گیا اور دعوت دے کر بہت سے خاکے بنوائے گئے اور ان میں سے بارہ منتخب خاکے شائع کیے گئے۔ پھر اسی پر بس نہیں، بلکہ ان توہین آمیز کارٹونوں پر مسلمانوں کا ردعمل دیکھ کر بھی فرانس، ناروے، اسپین اور دوسرے ملکوں کے اخبارات نے ان خاکوں کو دوبارہ شائع کیا اور بہت سے انٹرنیٹ پروگراموں پر ان کی تشہیر کی گئی۔
یہ واضح طور پر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور ان کے ردعمل کی سطح اور کیفیت کو جانچنے کی ایک منظم کوشش ہے، جس پر دنیا بھر کے مسلمان بجا طور پر اپنے ایمانی جذبات اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کے ردعمل کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں اہل اسلام نے اس موقع پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا ایک بار پھر کھلم کھلا اظہار کیا ہے، جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ عالمی میڈیا، بین الاقوامی لابیوں، مغربی فکر و فلسفہ کی برتری کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹنے والے نام نہاد مسلمان دانشوروں اور مغرب نواز مسلمان حکومتوں کی تمام تر منفی کارروائیوں، پروپیگنڈے اور پالیسیوں کے باوجود دنیا بھر کے عام مسلمان آج بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں اور اس عقیدت و احترام میں کمی یا اسے کمزور کرنے کی کوئی کوشش کسی بھی حوالے سے کامیاب نہیں ہو رہی، جو کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز کا آج کے دور میں کھلا اظہار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مس کونڈو لیزا رائس کو شکایت ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے میں شام اور ایران کی حکومتیں سرگرم عمل ہیں اور مسلم ممالک کی حکومتیں ان جذبات کے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مسلم حکومتوں نے ان مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں محترمہ کونڈو لیزا رائس غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کسی کے سرگرم عمل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایسے سچے اور کھرے جذبات ہیں کہ توہین و گستاخی کے کسی شائبہ پر بھی خود بخود بھڑک اٹھتے ہیں اور کسی کو اس کے اہتمام کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ مسلمان حکومتیں مسلمانوں کے ان جذبات کو کنٹرول کر سکتی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ کسی مسلم حکومت نے ان مظاہروں کو روایتی طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو اس سے ان مظاہروں کی شدت میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کنٹرول کرنے کی خواہشمند حکومتوں کو بجائے لینے کے دینے پڑ جائیں۔
جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاکوں کی اشاعت کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے مسلمانوں کا غصہ کم ہونے کی بجائے بڑھے گا۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل برداشت ہے، اسی طرح سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام، بلکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی سچے پیغمبر کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور قرآن و سنت میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۳ میں یہ بتایا ہے کہ ہم نے انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اسی بنیاد پر ہم حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فضیلت اور درجات کی ترتیب کے قائل ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل مانتے ہیں۔ لیکن جہاں تک ایمان و عقیدہ اور محبت و احترام کی بات ہے، وہاں قرآن کریم نے سورۃ البقرہ ہی کی آیت ۱۳۶ میں ہمیں یہ عقیدہ بتایا ہے کہ ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ اس لیے کوئی مسلمان سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی بھی اور پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی پر اس کا ردعمل یہی ہو گا۔
اس موقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو علماء امت نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا تو تکفیر کی وجوہ میں یہ وجہ بھی تھی کہ مرزا قادیانی نے اپنی بعض تحریروں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے، جو مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے مطابق کفر ہے۔
اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کیا ہیں، اس کا اندازہ بخاری شریف کی دو روایتوں سے کیا جا سکتا ہے:
- ایک روایت میں ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک یہودی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ کے ایک صحابی نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ اس صحابی کو دربار نبویؐ میں طلب کیا گیا اور اس نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اس لیے کہ یہ شخص کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ فضیلت انہیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہے؟ اس نے ہاں میں جواب دیا تو میں نے اس پر غیرت میں آ کر اسے تھپڑ مار دیا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر غصہ کا اظہار فرمایا اور کہا کہ مجھے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر اس طرح فضیلت مت دو۔
- دوسری روایت میں اسی قسم کا ارشاد نبویؐ حضرت یونس علیہ السلام کے حوالہ سے ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت مت دو۔
اس پر محدثین کرامؒ کے ہاں بحث چلتی ہے کہ جب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی انبیاء کرام علیہم السلام پر فی الواقع فضیلت حاصل ہے تو امت کو اس سے منع کیوں کیا گیا ؟ اس بارے میں محدثین کرام کہتے ہیں کہ جہاں تک فضیلت اور درجہ کی بلندی کا تعلق ہے تو وہ تو ہمارے نبی کا حق ہے، لیکن اگر انبیائے کرام علیہم السلام کا باہمی تقابل کر کے فضیلت کا اس طرح اظہار کیا جائے گا تو اس سے کسی نہ کسی نبی کی توہین کا پہلو نکل سکتا ہے، جو ظاہر ہے کہ توہین ہی شمار ہو گا۔ اسی لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی انبیاء کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت کے اس تقابلی اظہار سے منع فرما دیا تاکہ کسی بھی پیغمبر کی توہین کا کوئی احتمال باقی نہ رہے۔
اس لیے جہاں تمام انبیاء کرامؑ کے سردار، قائد اور امام کے ساتھ کسی پیغمبر کے اس طرح کے تقابل کو گوارا نہیں کیا گیا، وہاں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ہمارے لیے صرف سابق پیغمبر ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ ہماری امت کا حصہ بھی ہیں اور مسلمانوں کے مستقبل کے قائد ہیں۔ کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی قتل نہیں کر سکے تھے، وہ سولی پر بھی نہیں چڑھائے گئے اور ان پر طبعی موت بھی ابھی تک وارد نہیں ہوئی، بلکہ وہ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے اور اسی حالت میں دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، مسلمانوں کی انتہائی زبوں حالی اور کسمپرسی کے دور میں ان کا سہارا بنیں گے، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کے اس وقت کے امیر حضرت امام مہدی کے ساتھ مل کر خلافت اسلامیہ کا عالمی سطح پر اَحیا کریں گے، ان کی شادی ہو گی، بچے ہوں گے، مدینہ منورہ میں ان کی وفات ہو گی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں ان کے ساتھ مدفون ہوں گے، جہاں آج بھی ایک قبر کی جگہ ان کے لیے موجود ہے۔
اس لیے اگر ڈنمارک کے گستاخِ رسولؐ اخبار کے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے شائع کر کے صورت حال کو متوازن کر سکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے اور وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ البتہ اس سے یہ دلچسپ صورت حال ضرور پیدا ہو جائے گی کہ مسیحی کہلانے والے لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر رہے ہوں گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے غیرت مند لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ناموس و تحفظ کا پرچم اٹھائے اس بیہودگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہوں گے۔
باقی رہی بات توہینِ رسالتؐ پر مسلمانوں کے جذبات کی، تو مغرب نے ایک بار پھر دیکھ لیا ہے کہ دنیا کا کوئی مسلمان اس معاملہ میں کسی لچک کا روادار نہیں ہے اور احتجاج و مذمت کا دائرہ امت مسلمہ کے تمام طبقات اور خطوں تک دن بدن وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہم اس حوالہ سے پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ”قومی مجلس مشاورت“ کی صورت میں متحد ہو کر مغرب سے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کے مسئلہ پر کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی اور مغرب کو بہرحال اپنے گستاخانہ اور معاندانہ طرز عمل سے دست برداری کا کوئی واضح راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
قومی مجلس مشاورت نے تین مارچ کو ملک گیر ہڑتال کا جو اعلان کیا ہے اسے منظم طریقہ سے کامیاب بنانے کے لیے محنت کی جائے، قومی مجلس مشاورت کے مطالبات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اور ہر جماعت اور ہر طبقہ کو ساتھ لے کر چلنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ مظاہروں کو ہر قیمت پر پرامن رکھا جائے اور اس بات سے ہر وقت چوکنا رہا جائے کہ کوئی شرپسند عنصر اس موقع سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانے پائے۔ ایسی تحریکیں پُرامن احتجاج سے کامیاب ہوتی ہیں، لیکن اگر تشدد کا رخ اختیار کر لیں تو ناکام ہو جایا کرتی ہیں۔