گزشتہ ماہ کے دوران مختلف شہروں کے دینی مدارس میں ختم بخاری شریف کی تقریبات میں حاضری اور بخاری شریف کی آخری حدیث کے حوالہ سے معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، ان تمام مجالس میں ہونے والی گفتگو کا مجموعی خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری شریف کا آغاز اس روایت سے کیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، اور آخری حدیث یہ لائے ہیں کہ قیامت کے دن اقول و اعمال کا وزن ہوگا۔ اس سے امام بخاریؒ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ کسی بھی عمل کا ابتدائی مرحلہ اس کی نیت اور ارادہ ہوتا ہے مگر اس کی آخری منزل قیامت کے دن وزنِ اعمال ہے۔ درمیان میں بہت سے مراحل آتے ہیں، اگر ایک مسلمان کا عمل نیت کے اعتبار سے صحیح ہے اور وزنِ اعمال کے مرحلہ تک محفوظ رہا تو وہ اس کے کام آئے گا، لیکن اگر درمیان کے کسی مرحلہ میں ہی ضائع ہوگیا تو وہ عمل انسان کے کسی کام کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ جہاں بہت سے اعمال انسان کے لیے اجر و ثواب اور ترقیٔ درجات کا باعث بنتے ہیں وہاں ایسے اعمال بھی ہیں جو اچھے اعمال کو ضائع کر دینے والے وائرس ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے ’’حبط اعمال‘‘ اور ’’بطلان اعمال‘‘ کے حوالہ سے بہت سی باتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے اچھے اعمال کی بربادی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے امام بخاری کی اس ترتیب میں ہمارے لیے یہ اشارہ موجود ہے کہ جہاں عمل کی قبولیت کے لیے نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے وہاں اس کے اصل وقت میں کام آنے اور وزنِ اعمال تک اس کے باقی رہنے کے لیے اعمال کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے تصحیح نیت کی روایت کے بعد بدء الوحی سے کتاب کا آغاز کیا اور اس کے بعد ایمان و عقائد، اعمال و عبادات، معاملات و اخلاقیات، نکاح و طلاق، تجارت و معیشت، امارت و جہاد اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں روایات پیش کرتے چلے گئے ہیں۔ اس حوالہ سے دو باتیں آج کے عالمی تناظر میں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ امام بخاریؒ یہ فرما رہے ہیں کہ ہمارے تمام تر معاملات کی بنیاد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر ہے۔ جبکہ آج کا مغربی فلسفہ کہتا ہے کہ انسانی سوسائٹی اپنے مسائل و معاملات خود حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اسے کسی بیرونی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے راہنمائی حاصل کرنے کی محتاج ہے۔ اس کے برعکس امام بخاریؒ یہ بتا رہے ہیں کہ عقائد و ایمانیات سے لے کر آداب و اخلاق تک ہم ہر معاملہ میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے نہ صرف محتاج ہیں بلکہ اس کے پابند بھی ہیں۔
اسلام انسانی عقل کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا، عقل شخصی ہو یا اجتماعی اس کا احترام کرتا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے لیکن وہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی متبادل نہیں ہے۔ انسانی عقل کی جہاں انتہا ہوتی ہے وہاں سے وحی الٰہی کا آغاز ہوتا ہے، عقل انسانی بہت کچھ دیتی ہے لیکن اس کی کسی بات کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے کہ عقل اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتی ، وہ ایک اچھا آلہ ہے جو میسر معلومات و مشاہدات سے نتیجہ نکال دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک معیاری کمپیوٹر ہوتا ہے جو اپنی تمام تر خوبی اور کمال کے باوجود خود کچھ نہیں دیتا بلکہ جو پروگرام اس میں فیڈ کیا جاتا ہے اس کے مطابق رزلٹ دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی کمپیوٹر اس میں فیڈ کیے ہوئے پروگرام سے ہٹ کر کچھ نہیں دے پاتا۔ اسی طرح انسانی عقل بھی خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی اسے فیصلہ کرتے وقت جو معلومات اور مشاہدات میسر ہوتے ہیں اس کے مطابق نتیجہ فراہم کر دیتی ہے۔ اب انسانی معلومات، مشاہدات، محسوسات، تجربات اور مدرکات کو کسی ایک جگہ قرار تو نہیں ہے بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے اور قیامت تک مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس لیے عقل کے فیصلے اور اس کے غور و فکر کے نتائج بھی مختلف ہوتے رہتے ہیں اور قیامت تک مختلف ہوتے رہیں گے۔ اس وجہ سے انسانی عقل کے کسی فیصلے کو حتمی اور آخری قرار دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ جبکہ وحی جو بات کہتی ہے وہ یقین اور علم کا درجہ رکھتی ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کا علم ہر حال میں یکساں اور کائنات کے تمام امور پر محیط ہے۔ لہٰذا انسانی سوسائٹی یقین اور علمِ حقیقی کی منزل سے ہمکنار ہونے کے لیے کسی لمحہ بھی وحی الٰہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتی اور امام بخاریؒ نے انسانی زندگی سے متعلقہ مسائل و روایت بیان کرنے سے پہلے بدء الوحی سے کتاب کا آغاز کر کے یہ بتایا ہے کہ ہمارے تمام معاملات و مسائل کی بنیاد وحی پر ہے اور ہم قدم قدم پر آسمانی تعلیمات کے محتاج ہیں۔
دوسری بات یہ کہ بخاری شریف کو ’’الجامع الصحیح‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ یہ کتاب علم حدیث کی تمام اصناف کو جامع ہے۔ لیکن اس کا ایک مفہوم اور بھی ہے کہ یہ کتاب انسانی زندگی اور انسانی سوسائٹی کے تمام مسائل اور شعبوں کو محیط ہے۔ میں بخاری شریف کا اختتام کرنے والے طلبہ سے، جو آج کے بعد رسمی طور پر فضلاء اور علماء کہلائیں گے، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بخاری شریف کے ابواب کی فہرست پر ایک بار پھر نظر ڈال لیں اور اس کے بعد اس بات پر غور کریں کہ انسانی زندگی کا کون سا شعبہ اور کون سا مسئلہ ہے جس کے بارے میں امام بخاریؒ نے عنوان قائم نہیں کیا اور اس کے بارے میں قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پیش نہیں کیے۔ بخاری شریف کی جامعیت کا یہ پہلو آج کے تناظر میں بہت زیادہ توجہ کے قابل ہے اس لیے کہ آج کا عالمی فلسفہ یہ کہتا ہے کہ مذہب اور دین کا دائرہ صرف عقائد و عبادات یا زیادہ سے زیادہ اخلاقیات تک محدود ہے اس سے زیادہ دین و مذہب کا انسانی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ عقائد و عبادات اور اخلاقیات کے حوالہ سے بھی مذہب و دین ایک اختیاری چیز ہے کوئی شخص اسے اختیار کرے یا نہ کرے سوسائٹی کی اجتماعیت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ امام بخاریؒ اپنی کتاب کی جامعیت کے ذریعے یہ بتا رہے ہیں کہ دین و مذہب کا انسانی زندگی کے ہر معاملہ سے تعلق ہے اور یہ تعلق محض اختیاری نہیں ہے کیونکہ آسمانی تعلیمات کی خلاف ورزی پر دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا و جزا اور دیگر ثمرات کا تعین کیا گیا ہے۔
امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح کے آغاز میں ایمانیات کا ذکر کیا ہے اور اس کا اختتام بھی ایمانیات پر کیا ہے۔ آغاز میں کتاب الایمان ہے اور آخری کتاب ’’الرد علی الجہمیۃ وغیرھم التوحید‘‘ کے عنوان سے ہے۔ دونوں کا تعلق ایمان و عقیدہ سے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب الایمان میں ایمانیات کی فہرست بیان کی ہے کہ کون کون سے امور ایمان و عقائد میں شامل ہیں اور امام بخاریؒ چونکہ محدثین کے اصول پر اعمال کو ایمان کے حصے کے طور پر بیان کرتے ہیں اس لیے انہوں نے کتاب الایمان میں وہ روایات زیادہ بیان کی ہیں جن میں اعمال کو شعب الایمان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مگر آخری کتاب میں جو جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ کے رد میں ہے، عقائد کی تعبیر و تشریح کے اصول ذکر فرمائے ہیں اور چونکہ اس دور میں عقائد کی تعبیر و تشریح کے حوالہ سے زیادہ تر صفات باری تعالیٰ پر بحث ہوتی تھی اس لیے امام بخاریؒ نے وہ روایات کثرت کے ساتھ اس باب میں ذکر کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن میں ’’کتاب الرد علی الجہمیۃ وغیرھم التوحید‘‘ کے آخری باب اور آخری حدیث کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے اس کتاب کے مجموعی تناظر کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
- ایک تو یہ بات قابل توجہ ہے کہ امام بخاری نے کتاب الایمان میں توحید کے اثبات پر دلائل دیے ہیں لیکن آخری باب میں جہمیہ اور معتزلہ کی توحید کا رد کیا ہے۔ گویا آغاز میں توحید کا اثبات ہے اور آخر میں توحید کا رد ہے جس سے امام بخاریؒ یہ بتا رہے ہیں کہ توحید اور اس کی تعبیرات وہ قابل قبول نہیں ہیں جو لوگ اپنے ذہن اور عقل و فلسفہ کی بنیاد پر طے کرلیں بلکہ توحید اور اس کے تمام متعلقات کا تعین بھی وحی الٰہی کی بنیاد پر ہوگا اور وہی توحید قابل قبول ہوگی جو قرآن و سنت کی تشریحات کی روشنی میں سمجھی جائے گی۔
- دوسری بات جس کی طرف علماء کرام اور طلبہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے کتاب الایمان میں عقائد و ایمانیات کے تعین کے لیے بھی اور کتاب الرد علی الجہمیۃ میں عقائد کی تعبیرات و تشریحات میں بھی دلائل کے طور پر تین چیزیں پیش کی ہیں۔ پہلے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیا ہے، پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بیان کیے ہیں اور اس کے بعد جہاں ضرورت پڑی ہے وضاحت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال و آثار پیش کیے ہیں۔ اور اپنے اس طرز عمل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ عقائد و ایمانیات کا تعین بھی قرآن و سنت اور آثار صحابہؓ کی بنیاد پر ہوگا اور ان کی تعبیر و تشریح بھی ان تین دلائل کی بنیاد پر قابل قبول ہوگی۔
یہ بات بھی آج کے حالات میں بہت زیادہ توجہ کے قابل ہے اس لیے کہ جس طرح اعتزال قدیم نے یہ موقف اختیار کر رکھا تھا کہ جو بات عقل اور سمجھ میں نہیں آئے گی وہ قرآن کریم میں بھی ہو تو اس کی تاویل کریں گے اور اگر تاویل ممکن نہ ہو تو انکار کر دیں گے، اسی طرح اعتزال جدید نے بھی یہ موقف طے کر لیا ہے کہ عقائد و ایمانیات کے باب میں صرف وہ بات قبول ہوگی جو قرآن کریم میں صراحتاً مذکور ہوگی اور جو بات قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ موجود نہیں وہ عقیدے کے درجے میں قابل قبول نہیں ہے۔ یہ آج کے اعتزال جدید کا موقف ہے اور اس کی بنیاد پر ہمارے متجددین اور بہت سے دانشور اسلامی عقائد و احکام کی نئی تعبیر و تشریح میں شب و روز مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات انتہائی گمراہ کن ہے اور میں اس سلسلہ میں امام بخاریؒ کے اسلوب و ترتیب کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ امام بخاریؒ نے عقائد کے ثبوت اور ان کی تعبیر و تشریح دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ سنت نبویؐ اور آثار صحابہؓ کو ماخذ اور دلائل کے طور پر پیش کیا ہے۔
اور اہل السنۃ والجماعۃ کی اصطلاح کا بھی یہی مطلب ہے، ہم اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں اور یہ کوئی ٹائٹل یا تمغہ نہیں ہے جو کسی حکومت نے ہماری خدمات کے صلے میں عطا کیا ہو بلکہ یہ ہمارا علمی تعارف ہے کہ ہم قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں سنت رسولؐ اور آثار صحابہؓ دونوں کو حجت مانتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے ایک ارشاد کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا کہ اگر حدیث و سنت کی بات ہے تو علی الراس والعین (سر آنکھوں پر)، اگر اقوال و آثار صحابہ کرامؓ کی بات ہے تو ہم ان میں سے انتخاب کریں گے اور ان سے باہر نہیں جائیں گے، اور اگر بات ان کے بعد کے لوگوں کی ہے تو ہم رجال و نحن رجال (یعنی جیسے انہوں نے اجتہاد کیا ہم بھی کریں گے)۔ امام صاحب چونکہ تابعی ہیں اس لیے اپنے معاصر لوگوں کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ ’’ہم رجال و نحن رجال‘‘۔ جبکہ صحابہ کرامؓ کے اقوال و آثار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم ان کے دائرہ سے باہر نہیں جائیں گے اور کسی مسئلہ میں صحابہ کرامؓ کے اقوال مختلف ہونے کی صورت میں انہی سے انتخاب کریں گے۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی بنیاد اسی اصول پر ہے اور آج کے دور میں دین کی تعبیر و تشریح کے نئے فتنوں کا سامنا کرنے کے لیے اس اصول کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے۔
میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن کریم کی تعبیر و تشریح، سنت رسولؐ اور آثار صحابہؓ کی بنیاد پر کرنے کا یہ اصول بعد میں طے نہیں ہوا بلکہ خود حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں اصول و اسلوب یہی تھا جس کے لیے ان دو روایات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو امام مسلمؒ نے صحیح مسلم کی کتاب الایمان میں بیان فرمائی ہیں۔
ایک روایت حضرت یحیٰی بن یعمرؓ کی ہے جو فرماتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں بعض لوگوں نے تقدیر کا انکار شروع کر دیا تو میں نے اور میرے ایک ساتھی نے حج بیت اللہ کے لیے جاتے ہوئے یہ ارادہ کر لیا کہ اگر کسی صحابیٔ رسول سے ملاقات ہوگئی تو ان سے اس کے بارے میں دریافت کریں گے۔ حسن اتفاق سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی زیارت و ملاقات نصیب ہوگئی اور ہم نے ان سے عرض کیا تو انہوں نے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ کہا کہ جو لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں انہیں میری طرف سے پیغام دے دیں کہ جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہیں لائیں گے میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں ان سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ میں نے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپؐ نے حدیث جبریل میں جب ایمانیات کا ذکر کیا تو اس میں فرمایا ’’ان تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالٰی‘‘ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے کہ تم تقدیر پر ایمان لاؤ۔
دوسری روایت امام مسلمؒ نے حضرت یزید الفقیرؒ کی بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم کچھ دوست تھے جو خوارج کی اس بات سے متاثر ہوگئے تھے کہ جب قرآن کریم کہتا ’’کلما ارادوا ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا‘‘ کہ جہنم والے جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں واپس لوٹا دیے جائیں گے۔ تو پھر شفاعت کے اس عقیدے کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ بہت سے لوگوں کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے لوگ نکال کر جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ لیکن جب ایک حج یا عمرہ کے موقع پر ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو ہم نے مسجد نبویؐ میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ کو ایک مجلس میں شفاعت کی بات کرتے ہوئے سنا۔ یزید الفقیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابرؓ سے سوال کر دیا کہ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ جہنم سے کسی کو نکلنے نہیں دیا جائے گا تو آپ کس شفاعت کی بات کر رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے؟ حضرت جابرؓ نے اس کے جواب میں شفاعت کی وہ طویل روایت بیان کی جو بخاری شریف اور مسلم شریف دونوں میں موجود ہے۔ اور حضرت جابرؓ نے کہا کہ میں نے شفاعت کی یہ ساری تفصیلات خود جناب رسول اللہ سے سنی ہیں۔ یزید الفقیرؒ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابرؓ کی زبان سے یہ روایت سن کر آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ یہ بزرگ صحابیؓ آخر جھوٹ تو نہیں بولتے، چنانچہ ہم میں سے ایک شخص اپنی بات پر اڑا رہا اور باقی سب ساتھیوں نے غلط عقیدے سے توبہ کر لی۔
یہ دونوں واقعات صحابہ کرامؓ کے دور کے ہیں، دونوں میں عقیدہ کی بات ہے، عقیدہ کی اصلاح کے لیے صحابہ کرامؓ سے رجوع کیا گیا، صحابہ کرامؓ نے عقیدہ کے ثبوت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی پیش کیا اور پوچھنے والوں کا اطمینان ہوگیا۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا یہی اسلوب ہے، یہی حق ہے اور آج کے فتنوں کے دور میں اسی اسلوب کی طرف لوگوں کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
امام بخاریؒ نے اس میں معتزلہ وغیرہ کے اس قول کا رد کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وزنِ اعمال نہیں ہوگا اور اس کی ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اعمال جواہر میں سے نہیں بلکہ اعراض میں سے ہیں اور اعراض کا وزن نہیں کیا جا سکتا، اعراض کا کوئی الگ وجود نہیں ہے کہ انہیں تولا جا سکے۔ یہ بات اُس دور کے سائنسی مشاہدات کی روشنی میں درست ہو سکتی ہے کہ اس دور میں اعراض کو تولنے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا لیکن آج تو خود سائنس اعراض کو تول رہی ہے اور ایسے سائنسی آلات ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں جو اعراض و کیفیات کا وزن کرتے ہیں اور ان کا ریکارڈ رکھتے ہیں ۔مثال کے طور پر اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ محاورہ بولا جاتا تھا کہ ’’اذا تلفظ فتلاشی‘‘ لفظ جب منہ سے بول دیا جاتا ہے تو وہ لا شئ ہو جاتا ہے یعنی اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ لیکن آج کے آڈیو سسٹم نے اس محاورے کو غلط ثابت کر یا ہے، لفظ بولے جانے کے بعد نہ صرف باقی رہتا ہے بلکہ مستقل طور پر محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دور میں کہا جاتا تھا کہ انسان جب ایک عمل یا حرکت کرتا ہے تو وہ فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی نشان موجود نہیں رہتا لیکن آج کا ویڈیو سسٹم اس تصور کو جھٹلا رہا ہے، ہم ایک کام کرتے ہیں اور ویڈیو سسٹم کے ذریعے پھر کئی بار خود کو وہ کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور وہ عمل ریکارڈ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لیے امام بخاریؒ فرما رہے ہیں کہ قول اور عمل دونوں تولے جائیں گے، یہ بات اگر ایک صدی قبل کے سائنسی مشاہدات و تجربات کے دائرے میں قابل فہم نہیں تھی تو آج کی سائنس اس کو خود ایک حقیقت کے طور پر پیش کر رہی ہے اور میں یہ عرض کروں گا کہ وحی الٰہی کی بہت سی باتیں جو آج کے سائنسی مشاہدات کے دائرہ میں سمجھ میں نہیں آرہیں جوں جوں سائنس کے تجربات و مشاہدات بڑھتے جائیں گے وہ بھی یقیناً سمجھ میں آتی جائیں گی۔
اسی لیے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ عقائد و ایمانیات کی بنیاد سائنس اور عقل پر نہیں بلکہ وحی الٰہی پر ہے۔ اسی وجہ سے امام بخاریؒ اس بحث میں سرے سے نہیں پڑے کہ عقل و فلسفہ کیا کہتے ہیں اور سائنس اور مشاہدہ کیا کہتا ہے۔ انہوں نے عنوان قائم کیا ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کا وزن ہوگا اور دلیل کے طور پر قرآن کریم کی آیت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کیا ہے۔ قرآن کریم کی آیت میں ارشاد ربانی ہے کہ ہم قیامت کے دن انصاف کے لیے ترازو رکھیں گے۔ اور جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ دو کلمے (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) جو زبان پر ہلکے پھلکے ہیں قیامت کے دن ترازو پر بہت وزنی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کو یہ کلمے محبوب ہیں۔ یہ روایت امام بخاریؒ نے دو جگہ اور بھی ذکر کی ہے۔ ایک جگہ تو ذکر کی فضیلت میں اور دوسری جگہ اس مسئلہ کے پس منظر میں کہ اگر کوئی شخص قسم اٹھا لے کہ وہ کلام نہیں کرے گا تو کیا اللہ تعالیٰ کے ذکر کا کوئی کلمہ مثلاً سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر وغیر ذٰلک پڑھنے سے حانث ہوگا یا نہیں؟ فقہاء کرامؒ نے اس میں اختلاف کیا ہے، بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ نماز کلام کرنے سے ٹوٹ جاتی ہے مگر سبحان اللہ اور اس قسم کا جملہ کہنے سے نہیں ٹوٹتی، اس لیے ایسے جملوں پر کلام کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ چونکہ ان جملوں کو نبی اکرمؐ نے کلمہ قرار دیا ہے اور کلام کلمات ہی سے مرکب ہوتا ہے اس لیے یہ جملے کہنے سے بھی قسم اٹھانے والا حانث ہو جائے گا۔ امام بخاریؒ نے اس باب میں ’’کلمتان‘‘ کے لفظ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ ذکر اللہ کے جملوں پر بھی کلمہ اور کلام کا اطلاق ہوتا ہے۔
یہاں اس حدیث اور اس کے ترجمۃ الباب کے بارے میں طالب علمانہ طور پر بہت کچھ عرض کرنے کی گنجائش ہے اور بہت کچھ بیان کیا جاتا ہے لیکن میں چند اصولی باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہونے والے طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جتنا علم آپ حضرات نے حاصل کیا ہے اس سے اس غلط فہمی میں نہ پڑ جائیں کہ آپ لوگ عالم ہوگئے ہیں، جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اس سے صرف اتنا ہوا ہے کہ آپ علم کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں اور حصول علم کا راستہ آپ نے دیکھ لیا ہے۔ اب آپ لوگوں کی ہمت پر منحصر ہے کہ علم میں کتنا آگے بڑھتے ہیں اور اس میں سے کتنا حصہ حاصل کر پاتے ہیں۔ اس لیے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھیں، مطالعہ کا ذوق بڑھائیں اور علم و معلومات میں جس قدر اضافہ کا موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اور اس کے ساتھ اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات اور امت کے اجماعی تعامل کے دائرہ سے باہر نہ نکلیں جس کا ہمارے زمانے سے قریب تر دور اکابر علماء دیوبند کا دور ہے۔ امت کے اجماعی تعامل اور اہل سنت کے مسلمات کے دائرہ سے باہر نکلنا گمراہی ہے، اس لیے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اور علم کی خدمت کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔