میسج ٹی وی کے محمد بلال فاروقی کا انٹرویو

   
میسج ٹی وی
۳ اکتوبر ۲۰۱۶ء

تمہید از محمد بلال فاروقی

السلام علیکم، ناظرین! میسج ٹی وی کے ساتھ محمد بلال ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آج سے تقریباً بیالیس سال قبل پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک بڑا اہم فیصلہ کیا کہ جس میں مرزا غلام احمد کے پیرو کاروں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک یہ فیصلہ مختلف فورمز پر زیر بحث آتا رہا ہے۔ کبھی تو یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ غیر منصفانہ تھا، کبھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ ریاست کو کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ وہ کسی کو مسلم یا کسی کو غیر مسلم قرار دے یہ ریاست کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے، اور بھی مختلف حوالوں سے اس پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ عالمی طاقتیں، مختلف فورمز، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سب اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ نے ہمارے ساتھ جو معاہدات کیے ہوئے ہیں، یہ فیصلہ ان معاہدات کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ بات بڑی واضح نظر آتی ہے، مختلف فورمز پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ، مرزا غلام احمد کے پیروکار احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جو کہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس حوالے سے جو مختلف سوال اٹھتے ہیں ان پر ہم آج بحث کریں گے اور ہمارے ساتھ ایک بار پھر حاضر ہیں مولانا زاہد الراشدی صاحب جو مفکر ہیں، شیخ الحدیث ہیں، صحافت سے بھی منسلک ہیں اور ختم نبوت کی جو تحریک چلی ہے جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا، اس میں آپ عرصہ دراز تک شریک رہے بلکہ نمایاں لوگوں میں رہے۔ جو لوگ اس سارے پراسیس سے واقف ہیں اور اس مرحلے کو جنہوں نے قریب سے دیکھا ہے ان لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

انٹرویو

سوال: مولانا! ہم آپ کی تشریف آوری کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم آج اس حوالے سے گفتگو کریں گے کہ کیا وجہ ہے کہ اس فیصلہ پر بارہا بحثیں ہوتی ہیں اور ہر سال کوئی نہ کوئی موقع ایسا آتا ہے کہ یہ سوال پھر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار غیر مسلم ہیں یا ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے یا ان کے خلاف یہ فیصلہ متفقہ نہیں ہوا، تو میں سب سے پہلا سوال آپ سے یہ کرنا چاہوں گا کہ ہمارا اور احمدی حضرات کا اصل جھگڑا کیا ہے؟

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہم صل علی سیدنا محمد ن النبی الامی وعلی اٰلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ قادیانی حضرات کے ساتھ ہمارا بنیادی تنازعہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ان دعاوی سے پیدا ہوا تھا جب انہوں نے پہلے تو ایک مسلمان مناظر کے طور پر ہندوؤں، عیسائیوں اور آریہ سماج سے مناظروں کا سلسلہ شروع کیا اور خود کو اسلام کے ایک متکلم کے طور پر پیش کیا، اپنا ایک حلقہ بنایا۔ لیکن آہستہ آہستہ جب وہ دعووں کی طرف بڑھنے لگے کہ میں مہدی ہوں، میں مسیح موعود ہوں، میں عیسیٰ ثانی ہوں، میں پیغمبر ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ یہ بتدریج دعوے کیے، تو اس سے مسلمان علماء تشویش کا شکار ہونے لگے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں! یہ بات کبھی بھی تسلیم نہیں کی گئی اور مرزا صاحب کا دعوے کے ساتھ یہ بات کرنا ہماری روایت کے بھی خلاف ہے اور ہمارے عقائد کے خلاف ہے۔

اس کے بعد جب مرزا غلام احمد نے صراحتاً نبوت کا دعویٰ کر دیا کہ میں نبی ہوں، رسول ہوں، مجھ پر وحی آتی ہے اور ساتھ یہ کہا کہ جو میری وحی کو نہیں مانتے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر یہ بات واضح رخ اختیار کر گئی کہ مسلمان الگ ہیں اور مرزا صاحب کے پیروکار الگ۔ مرزا صاحب نے خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیا۔ جب یہ کہا کہ جو مجھے نبی نہیں مانتا یا میرے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے تو مرزا صاحب نے خود ملت اسلامیہ سے علیحدگی اختیار کی کہ ملت اسلامیہ جو انہیں نبی نہیں مانتی، ان کی وحی کو تسلیم نہیں کرتی، وہ ان سے الگ ہے۔ اس پر پہلے کچھ علماء کو تردد بھی تھا، لیکن پھر بالآخر آہستہ آہستہ تمام مکاتب فکر کے علماء اس پر متفق ہو گئے کہ ان دعاوی کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی مسلمان نہیں ہیں اور جو ان کو کسی بھی حوالے سے ماننے والے ہوں، نبی مانیں یا مہدی مانیں، وہ بھی ان کے ساتھ ہی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہمارا بنیادی جھگڑا مرزا صاحب کے ان دعاوی پر ہے جو انہوں نے کیے اور جن دعووں کی بنیاد پر انہوں نے ملت اسلامیہ کی تکفیر کر کے خود کو الگ قرار دیا۔

جھگڑا صرف یہاں پڑا ہے کہ جب مرزا صاحب نے خود کہا کہ ہم ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں تو اب مسلمان کون ہے اور کافر کون ہے، اس کا فیصلہ ضروری تھا۔ پارلیمنٹ کا فیصلہ یہ نہیں تھا کہ یہ ایک ہیں یا الگ الگ ہیں، یہ تو قادیانی بھی مانتے ہیں کہ دونوں الگ الگ ہیں۔ فیصلہ اس بات پر آیا کہ مسلمان کون ہے اور غیر مسلم کون ہے؟ چنانچہ ملت اسلامیہ نے اجماعی فیصلہ کر لیا کہ ملت اسلامیہ تو مسلمان ہے، البتہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ یہ صورتحال قادیانی اب تک قبول نہیں کر رہے اور ملت اسلامیہ کو کافر کہہ رہے ہیں، خود کو مسلمان کہہ رہے ہیں جبکہ علیحدگی پر دونوں متفق ہیں۔ وہ بھی مانتے ہیں کہ وہ ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ ہمارا حصہ نہیں ہیں۔ ہم دونوں ایک نہیں ہیں اس پر ہم دونوں متفق ہیں، اب مسئلہ یہ ہے ان دونوں میں سے مسلمان کون ہے اور کافر کون ہے؟ پوری دنیا کی ملت اسلامیہ اور تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق تھے، اور اب بھی ہیں کہ قادیانی اپنے دعووں کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ سے کٹ کر علیحدہ ہوئے ہیں، ملت اسلامیہ ان سے نہیں کٹی۔

قادیانی مرزا غلام احمد کے دعاوی پر قائم ہیں، اپنی تکفیر پر قائم ہیں، اپنے موقف پر قائم ہیں اور ملت اسلامیہ کو مسلمان نہ ماننے کے بھی قائل ہیں اور اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ صرف ہمیں ہی مسلمان سمجھا جائے۔ یہ دنیا میں ایک عام آدمی کامن سینس سے بھی سوچے تو اس کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ ایک بات تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کسی آدمی سے پوچھ لیں کہ پونے دو ارب کی ملت اسلامیہ سے دو چار لاکھ لوگ الگ ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور یہ کافر ہیں تو کامن سینس کا آدمی یہی کہے گا کہ علیحدہ یہ ہوئے ہیں یا علیحدہ وہ ہوئے ہیں۔ ایک ہمارا بنیادی جھگڑا یہ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء کا جو فیصلہ ہے ہم اسے غلط تعبیر کرتے ہیں۔ ہم یہ تعبیر کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تو اس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے یا نہیں ہے۔

سوال: یہ میرا دوسرا سوال ہے، مولانا! اس سے پہلے ایک اور سوال میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ریاست کھڑی ہو اور اس نے آ کر کسی کو کافر قرار دیا ہو، غیر مسلم قرار دیا ہو۔ عام طور پر ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک فرقہ نے دوسرے فرقے کو کافر قرار دیا یا ایک مذہب والوں نے دوسرے مذہب والے کو کافر قرار دیا یا عقائد پر بات ہوئی کہ یہ عقیدہ کفریہ ہے اور یہ عقیدہ شرکیہ ہے، تو اس بنا پر لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف فتوی دیا، لیکن کیا ایسا کبھی تاریخ میں ہوا یا اس کا کیا جواز بنتا ہے کہ ریاست بطور ریاست ایک قانون بنائے اور فیصلہ کرے کہ یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور یہ اسلام میں داخل ہیں۔

جواب: میرا سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ کیا ریاست ہم نے شروع کرنی ہے؟ نہیں، بلکہ ریاست کا آغاز جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا، جس کو ہم ریاست مدینہ کہتے ہیں۔ ریاست مدینہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو سب سے پہلے حضورؐ کی جانشین بیٹھے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، انہوں نے سب سے پہلا فیصلہ ہی یہ کیا ہے کہ منکرین ختم نبوت کافر ہیں اور منکرین زکوۃ کافر ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا مکالمہ بھی ہوا۔ حضرت عمرؓ کو منکرین زکوٰۃ کو کافر قرار دینے پر تردد تھا، لیکن بالآخر حضرت عمرؓ بھی حضرت صدیق اکبرؓ سے متفق ہوئے اور اسلامی ریاست نے سب سے پہلا کام یہ کیا ہے کہ منکرین ختم نبوت اور منکرین زکوۃ کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے، اور جہاد کیا ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ یہ سوال اٹھانے کا کہاں سے محل نکل آیا کہ ریاست کو یہ اختیار ہے یا نہیں؟ اگر ریاست سے مراد حضرت صدیق اکبرؓ والی خلافت ہے تو ریاست کا تو پہلا کام ہی یہ ہے۔

سوال: یہاں پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت تھی یا جو حکومت اور ریاست تھی، کیا پاکستان بھی اسی طرح کی اسلامی ریاست ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں جو حضرات ہیں وہ تو اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ یہ اسلامی ریاست ہے۔ تو جب یہ ایک غیر اسلامی ریاست ہے اور غیر اسلامی ریاست کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ وہ مسلمان ہے یا کافر ہے، اسے اس کا اختیار ہے؟

جواب: میں پاکستان کو غیر اسلامی ریاست نہیں کہتا، بلکہ یہ دو وجہ سے اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم کرے اور حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کو قرآن و سنت کا پابند قرار دے۔ یہ اسلامی ریاست کی دو بنیادیں ہیں۔ جو ریاست ان دو بنیادوں کو تسلیم کرتی ہے وہ آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست ہے۔ جبکہ پاکستان ان دونوں بنیادوں کو دستوری طور پر تسلیم کرتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ عوام کی نہیں، بلکہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور پارلیمنٹ قرآن و سنت تابع ہو گی۔ لہٰذا پاکستان دستوری اعتبار سے اسلامی ریاست ہے، اس میں کلام کی گنجائش کوئی نہیں ہے۔

حضرت صدیق اکبر نے یہی کہا تھا، حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت کا آغاز ان جملوں سے کیا تھا کہ اگر میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت کرو اور اگر قرآن و سنت سے ہٹوں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو، اگر اس کے مطابق نہ چلوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ اسلامی ریاست کی وہ بنیاد جس کا حضرت صدیق اکبرؓ نے اعلان کیا تھا، پاکستان میں عملی طور پر جو کچھ بھی ہے وہ میں بات الگ کرتا ہوں، لیکن پاکستان دستوری طور پر اللہ تعالیٰ کے حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے اور قرآن و سنت کی پابندی کو قبول کرتا ہے۔ میرے خیال میں اسلامی ریاست ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے۔

سوال: مولانا! جیسے آپ نے فرمایا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تو دنیا کے اندر جو باقی اسلامی ریاستیں ہیں، مثلا سب سے بڑی ریاست سعودی عرب جس کو اسلامی دنیا میں ایک مقام حاصل ہے، مسلمانوں کا مرکز ہے، وہاں احمدی حضرات کے لیے کیا پوزیشن ہے؟

جواب: یہ صرف ایک سعودی عرب میں نہیں ہے، سعودی عرب نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہوا ہے، اس کے علاوہ مصر، شام وغیرہ تمام عرب ممالک نے، انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ تمام اسلامی ریاستوں نے اور تمام عالم اسلام کے نمائندے کے طور پر رابطہ عالم اسلامی نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی جو کہ تمام کی نمائندہ تنظیم ہے، اس نے پہلے اعلان کیا ہے، اور پاکستان نے بعد میں اعلان کیا ہے۔

سوال: مولانا! جب یہ فیصلہ ہو رہا تھا تو آپ کو معلوم ہے کہ اس سے پہلے ایک تحریک چل پڑی تھی۔ کسی ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ ہوا تھا اور پھر وہاں سے یہ تحریک چل پڑی اور پارلیمنٹ پر دباؤ تھا، پارلیمنٹ کے جو افراد تھے ان پر کافی دباؤ تھا اور پارلیمنٹ میں پہلے سے ایک لابنگ ہو چکی تھی کہ یہ غیر مسلم ہیں، اس کے بعد جب احمدیوں کو بلایا گیا تو ان کی طرف سے دو آدمی تھے، دو نمائندے تھے اور دوسری طرف پوری پارلیمنٹ بیٹھی تھی تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ منصفانہ فیصلہ ہوا؟

جواب: ہاں بالکل منصفانہ ہے اور یہی مغالطہ میں دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے کافر ہونے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ان کے کافر ہونے کا فیصلہ پہلے سے موجود تھا، پارلیمنٹ سے مطالبہ یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کے اس اجتماعی فیصلے کو دستوری حیثیت دیں۔ جب ملت اسلامیہ ایک طرف تھی تو پارلیمنٹ کیا کرتی؟ اس کے پیچھے تحریک تو ہوتی ہے، جیسا کہ پاکستان کی تحریک آزادی کے پیچھے عوامی دباؤ تھا تو کیا پاکستان ناجائز ہو جائے گا، اس کی آزادی غلط ہو جائے گی؟ تحریکوں میں عوامی دباؤ ہوتا ہے، آپ عوامی دباؤ کی نفی کیسے کریں گے؟ کیا جس تحریک کے پیچھے عوامی دباؤ ہو وہ غلط ہو جاتی ہے؟ نہیں، بلکہ آج کے دور میں جس تحریک کے پیچھے عوامی دباؤ ہو وہ جائز تصور ہوتی ہے کہ یہ رائے عامہ کا مطالبہ ہے، متفقہ مطالبہ ہے اور جمہوری مطالبہ ہے، اس کو آپ الٹ کیسے کر رہے ہیں؟

سوال: نہیں، اس پر سوال یہ ہے کہ آپ جو تحریک کر رہے ہیں یا جس حوالے سے دباؤ آ رہا ہے، وہ پورے پاکستان کی طرف سے تو نہیں ہے، چند لوگ ہیں جو اس تحریک کو اٹھا رہے ہیں مدارس والے ہیں یا علماء ہیں، باقی پوری سول سوسائٹی…
جواب: بتائیں کہ ذوالفقار علی بھٹو، محمود علی قصوری، پارلیمنٹ اور چودھری ظہور الٰہی سوسائٹی کا حصہ تھے یا نہیں تھے؟ یہ کون سے مدرسے کے طالب علم تھے؟ یہ ساری امت کا اجتماعی فیصلہ ہے، آپ بھٹو کی تقریر پڑھ لیں جو انہوں نے اسمبلی میں کی ہے، اس میں انہوں نے اس کے جو اسباب بیان کیے ان میں کہا کہ پوری امت اور پوری ملت ایک طرف ہے۔ ملت ایک طرف ہو اور دو چار لاکھ آدمی دوسری طرف ہوں تو کیا آپ ملت کے اجتماعی موقف کو دباؤ قرار دیں گے اور اس کو دباؤ کہہ کر مسترد کر دیں گے؟ پوری ملت اور پوری قوم ایک طرف ہے اس میں وکلاء بھی ہیں سپریم کورٹ بار سے لے کر گوجرانوالہ بار تک، تاجر برادری ساری کی ساری، طلباء برادری ساری کی ساری، اس کو کس طرح مدرسے کے کھاتے میں ڈالیں گے، جبکہ پوری قوم متحد تھی۔

مولانا! ایک سوال یہ ہے کہ دستور میں قادیانیوں کے لیے کیا کیٹاگری طے کی گئی ہے؟ ایسا ہے کہ جب بھی آپ کسی کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں یا کافر قرار دیتے ہیں تو اگر تو وہ پہلے سے مسلمان تھا تو آپ اس کو مرتد قرار دیں گے۔ پھر فقہ کے اندر مختلف چیزیں ہیں کہ اگر وہ باطل تاویل کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے تو آپ اس کو زندیق قرار دیتے ہیں۔ تو علماء نے احمدیوں کے لیے کیا کیٹاگری طے کی تھی؟

جواب: یہ طے کیا تھا کہ وہ مسلم اقلیت کے طور پر شہری حقوق رکھیں گے۔ یہ اُس کیٹاگری میں شمار نہیں ہوں گے، یہ فیصلہ علماء ۱۹۷۴ء سے بیس سال پہلے ۱۹۵۳ء میں کر چکے تھے اور یہ فیصلہ بھی علامہ اقبال نے کیا تھا کہ ان کو کس کیٹاگری میں رکھنا ہے؟ ان کو ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اس کیٹاگری میں رکھنا ہے، جو ان کے حقوق ہیں ان کے حقوق تسلیم کرنے ہیں، ان کو قتل نہیں کرنا، ان کو شہریت سے محروم نہیں کرنا، ان کو ملک سے نہیں نکالنا، یہ کیٹاگری پاکستان بننے سے پہلے طے ہو چکی تھی اور اس کی تجویز کرنے والے اقبالؒ تھے، اور علماء نے یہ فیصلہ ۱۹۷۴ء میں نہیں کیا، بلکہ ۱۹۵۳ء میں علماء نے مطالبہ کیا تھا کہ ہم ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتے لیکن غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کا سوسائٹی سٹیٹس طے کر دیا جائے۔ ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے وہ ۱۹۵۳ء کا مطالبہ منظور کیا ہے، پارلیمنٹ نے کافر قرار نہیں دیا۔

سوال: انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا جو فیصلہ کیا تو کیا اس کی کوئی فقہی اور دینی بنیادیں تھیں؟ یا صرف اس حد تک کیا گیا ہے کہ چونکہ ہم اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کو زندیق اور مرتد قرار دے کر ہم ان کو قتل کروا سکیں، اس لیے ہم اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتے ہیں؟

جواب: اس کی بنیاد یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کچھ لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، قرآن پاک نے ’’وما ہم بمؤمنین‘‘ کہہ کر غیر مسلم قرار دیا تھا، لیکن ان کے خلاف قتل کی کاروائی نہیں کی گئی تھی۔ اس ماحول کے مطابق ان سے احتیاط کی گئی اور انہیں الگ کیا گیا تھا، لیکن انہیں الگ قرار دے کر قتل کی کاروائی نہیں کی گئی تھی۔ میرے خیال میں اس کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ ایسی گنجائش موجود ہے کہ غیر مسلم تو قرار دے دیں، ’’وما ہم بمؤمنین‘‘ کا فیصلہ تو کر لیں، لیکن قتل اور شہریت سے محروم کرنے کے درمیان کا راستہ بھی ہے، وہی راستہ اختیار کیا کہ غیر مسلم اقلیت کے طور پر جیسے باقی اقلیتیں رہیں یہ بھی رہیں۔

سوال: جب آپ نے احمدی حضرات کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو جس طرح پاکستان میں دوسری غیر مسلم اقلیتیں رہ رہی ہیں جیسے عیسائی، ہندو اور یہودی وغیرہ، تو کیا واقعی ان کا سٹیٹس اس طرح ہے؟ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۸۴ء میں ایک اور قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نام سے صدر ضیاء الحق صاحب کی جانب سے اِمپوز کیا گیا کہ جس کے مطابق وہ نہ اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں، نہ وہ اپنے شعائر استعمال کر سکتے ہیں، نہ وہ اپنی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ ایک طرف تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ غیر مسلم اقلیت ہیں، لیکن جو غیر مسلم اقلیت کو حقوق حاصل ہیں وہ آپ ان کو نہیں دے رہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: اس کی وجہ قادیانی خود ہیں، حالانکہ ان کی تو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سیٹ تھی، بشیر طاہر احمدی قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں، لیکن انہوں نے ۱۹۷۴ء کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا، فیصلہ تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا، بائیکاٹ کیا اور اب تک بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں تو ان کی ضد کی وجہ سے یہ قانون نافذ کرنا پڑا کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہ کریں۔ اس کا باعث ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بنی ہے اب عدالت کیا کرے گی۔

سوال: تو عدالت ان کو سزا دے۔

جواب: ان کی یہی سزا ہے۔ جب وہ فیصلہ ماننے سے انکاری ہیں تو پارلیمنٹ کچھ تو کرے گی، کھلا تو نہیں چھوڑ دے گی۔ یہ ان کی ہٹ دھرمی تھی۔ دس سال انہوں نے ہٹ دھرمی اختیار کی، تو اس کے بعد پارلیمنٹ نے کہا کہ چونکہ آپ باز نہیں آتے لہٰذا آپ اسلام کا نام اور اسلامی شعائر استعمال نہیں کریں گے۔ شعائر کا مطلب ہے علامت، تو علامت کسی ایک نے ہی استعمال کرنی ہے۔ میڈل جس کا ہے وہ اسی نے استعمال کرنا ہے، کسی کا مونوگرام ہے تو جس کا ہے وہی استعمال کرے گا۔ اسی طرح اسلام کا لفظ کوئی ایک ہی استعمال کرے گا یا وہ کریں گے یا ہم کریں گے۔ اگر وہ بضد ہیں کہ اسلام کا نام ہم استعمال کریں گے تو پارلیمنٹ کو روکنے کا حق ہے اور پارلیمنٹ نے وہی حق استعمال کیا ہے۔

سوال: مولانا !ایک سوال یہ ہے کہ ہمارے اس ملک کے اندر جو قادیانی، احمدی کمیونٹی رہتی ہے تو کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پچھلے چند سالوں سے توہین رسالت کے قانون کو استعمال کر کے یا اس کو بنیاد بنا کر ان کے اوپر زیادتیاں کی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ مختلف کاروائیاں کی جاتی ہیں جن کا حق نہیں بنتا؟

جواب: میرا خیال ہے کہ توہین رسالت کے زیادہ کیس مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہیں، قادیانیوں کا تناسب ایک آدھ ہوگا، یہ خواہ مخواہ یعنی گھڑی ہوئی بات ہے۔ اگر شکایت عیسائیوں کو ہے یا خود مسلمانوں کو ہے تو وہ الگ مسئلہ ہے، لیکن قادیانیوں کے خلاف کاروائیاں امتناع قادیانیت آرڈیننس کی وجہ سے ہوتی ہیں اور امتناع قادیانیت آرڈیننس ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آیا ہے۔ وہ آج ہٹ دھرمی چھوڑ دیں، ہمیں ان کے حقوق سے کوئی انکار نہیں ہے۔ دستور میں، مسلم برادری کے فیصلے پر، ملت اسلامیہ کے اجتماعی فیصلے پر جو ان کا سٹیٹس بنتا ہے اس کو تسلیم کریں، اس سٹیٹس کے تقاضوں کو پورا کریں اور جو ان کے حقوق بنتے ہیں، ہمیں ایک حق سے بھی انکار نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنا سٹیٹس تو تسلیم نہ کریں اور مسلمانوں کا سٹیٹس اختیار کر کے ان حقوق کا مطالبہ کریں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

سوال: مولانا! جب یہ فیصلہ ہوا تو اس وقت جیسے آپ نے کہا کہ ان کی پارلیمنٹ میں، قومی اور صوبائی اسمبلی میں سیٹ تھی تو کیا اس وقت آپ انہیں سیٹ دینے کو تیار ہیں؟

جواب: ہاں بالکل آئیں، اپنا دستوری سٹیٹس تسلیم کریں، اپنی سیٹیں لیں اور سارے حقوق لیں، میں ان کے حقوق کا سب سے بڑا داعی ہوں گا۔ لیکن بائیکاٹ تو ختم کریں۔ ہم نے ان کا بائیکاٹ نہیں کیا ہوا، بلکہ انہوں نے ہمارا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور ۱۹۷۴ء سے کیا ہوا ہے۔

سوال: نہیں، پاکستان میں جتنی بھی جماعتیں ہیں، بائیکاٹ کے فتوے تو وہ دیتی ہیں۔

جواب: میں کہہ رہا ہوں کہ عملاً بائیکاٹ انہوں نے کیا ہوا ہے، وہ اپنا ووٹ درج نہیں کروا رہے، اپنا الیکشن کا حق استعمال نہیں کر رہے۔ اس الیکشن میں بھی مرزا مسرور احمد نے اعلان کیا ہے جو عمران خان کے ساتھ ان کی وہ جو (بات) چلی تھی، اس میں صاف کہا کہ ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے، اسی لیے ہم ووٹ درج نہیں کروا رہے اور اس لیے ہم الیکشن کا حصہ نہیں بن رہے۔ بائیکاٹ تو انہوں نے کیا ہوا ہے، وہ بائیکاٹ ختم کر دیں، واپس آئیں، سٹیٹس تسلیم کریں اور جو ان کا حق بنتا ہے لیں۔

سوال: قادیانی اور احمدی حضرات کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیونکہ اب تو ان کی پوزیشن اگر کسی درجے میں بھی تسلیم کی جائے تو مرتدوں والی نہیں ہے، ارتداد والی نہیں ہے، تو اب مسلمانوں کا معاشرتی رویہ ان کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے؟ مسلمان داعی کا ان کے ساتھ رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

جواب: داعی کا رویہ تو دعوت دینے کا ہوگا لیکن وہ بھی تو ضد چھوڑیں۔ نارمل آدمی کے ساتھ رویہ اور ہوتا ہے، مگر ہٹ دھرم کے ساتھ رویہ اور ہوتا ہے۔ جو ہٹ دھرمی کے ساتھ کہے کہ میں نہیں مانتا، میں کسی بات کو نہیں مانتا، نہ عالم اسلام کے فیصلے کو مانتا ہوں، نہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو مانتا ہوں، نہ امت کے فیصلے کو مانتا ہوں اور نہ رابطہ عالم اسلامی کے فیصلے کو مانتا ہوں، کسی کے فیصلے کو نہیں مانتا تو اس کے ساتھ نارمل آدمی والا رویہ نہیں ہوگا، بلکہ ہٹ دھرم والا رویہ ہوگا۔

سوال: جیسے دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کو دعوت دیتے ہیں تو آگے سے تکلیفیں ملتی ہیں، ان کی طرف سے زیادتیاں کی جاتی ہیں، وہ ماننے سے انکار کرتے ہیں، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے ساتھ معاشرتی تعلق رکھتے ہیں، ان کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ان کو دعوت دیتے ہیں تو یہاں پر آپ کیوں…؟

جواب: ان کے ساتھ معاشرتی تعلق سے کون انکار کرتا ہے؟ لیکن وہ آئیں تو سہی۔

سوال: نہیں، جو بائیکاٹ کے …

جواب: میں کہتا ہوں کہ بائیکاٹ انہوں نے کیا ہوا ہے۔ میرا اس بات پر اصرار ہے کہ بائیکاٹ ہم نے نہیں کیا، بائیکاٹ عملاً انہوں نے کیا ہوا ہے۔ وہ اپنا بائیکاٹ ختم کریں، واپس آئیں اور اپنے حقوق لیں۔

محمد بلال فاروقی: مولانا! آپ کی تشریف آوری کا بہت شکریہ۔ بہت اہم سوالات کے جواب ہمیں آج موصول ہوئے اور ان شاء اللہ بہت سارے ذہنوں کی کنفیوژن اس سے دور ہوگی۔ ہم آپ سے پھر بھی درخواست کریں گے کہ آپ ہمیں وقت دیتے رہیں۔ بہت شکریہ۔

2016ء سے
Flag Counter