مزارعین سے انتقام ‒ سامان تعیش ‒ غیر منصفانہ نظام ‒ پولیس تشدد ‒ اساتذہ کی آسامیاں

   
تاریخ : 
۲۸ مئی ۱۹۷۱ء

حالیہ انتخابات میں ناکامی کے بعد بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں نے مزارعین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا وسیع سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس ظلم و ستم کو روکنے کے لیے پنجاب کی حکومت نے اور غالباً سندھ کی حکومت نے بھی کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن صوبہ سرحد میں غریب مزارعین کو ظالم خوانین کے پنجہ سے نجات دلانے اور ان شکست خوردہ خوانین کے انتقام سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جن کا سلسلہ ظلم و ستم اور جابرانہ تسلط بہت سخت اور ناقابل برداشت ہے۔ ہم حکومت سرحد سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ صوبہ سرحد میں غریب مزارعین کی بے دخلیاں روکنے کے لیے مؤثر کارروائی کرے۔

سامان تعیش کی درآمد

مشرقی پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران کے نتیجہ میں اقتصادی طور پر جو مشکلات ہوئی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے مرکزی حکومت نے درآمدی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے اور بہت سی اشیاء کی، جن میں ادویات بھی شامل ہیں، درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی چونکہ ملکی حالات کے پیش نظر ناگزیر ہے اس لیے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنا ہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ مگر اتنی گزارش ہم اپنے حکمرانوں کی خدمت میں ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں بعض ضروری اشیاء پر پابندی قومی مفاد کا تقاضا ہے وہاں غیر ملکی شراب اور سامانِ تعیش پر پابندی لگانا بھی بے حد ضروری ہے۔ سامان تعیش اور شراب پر کروڑوں روپے زرمبادلہ خرچ آتا ہے اور زرمبادلہ کے اس بحران میں محض عیاشی پر کروڑوں روپے ضائع کر دینا عقلمندی نہیں ہے۔

ہم حکومت پاکستان سے ملتمس ہیں کہ وہ قومی مفاد کے پیش نظر شراب اور سامان تعیش کی درآمد پر پابندی لگا کر کروڑوں روپے کے زرمبادلہ کو قومی مصارف میں لگائے۔

غیر منصفانہ اقتصادی نظام

گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان صاحب نے لاہور میں ملک کے تیسرے اسٹاک ایکسچینج کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ موجودہ اقتصادی نظام غیرمنصفانہ ہے اور عوام اب اس نظام کو برداشت نہیں کریں گے۔ گورنر صاحب کا یہ ارشاد موجودہ نظام کی تباہ کاریوں کے بارے میں ملک کی ایک ذمہ دار سرکاری شخصیت کی طرف سے اعتراف حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے اور موصوف ہدیۂ صد تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے موجودہ نظام کی برائیوں کا برملا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکام کو یہ توفیق بخشے کہ وہ ملک کو غیر اسلامی اور غیر منصفانہ نظام سے نجات دلا کر منصفانہ و عادلانہ اسلامی نظام کا نفاذ کر سکیں۔

پولیس تشدد کا ایک اور مظاہرہ

محکمہ پولیس کے افسروں اور کارندوں کی تربیت نہ جانے کس ڈھب پر ہوتی ہے کہ انہیں ابھی تک آزاد مملکت کے آزاد اور باعزت شہریوں کے ساتھ برتاؤ کا سلیقہ نہیں آیا۔ وقتاً فوقتاً ان کی بے راہ روی اور عوام پر ان کے بے جا تشدد کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ وہاڑی کیس، کھرڑیانوالہ کیس، گجرات کیس اور کھاریاں کیس اس حقیقت کی زندہ و تابندہ شہادتیں ہیں۔ اور ابھی ان کیسوں کی یاد ذہنوں سے محو نہیں ہوئی کہ ’’گکھڑ پولیس کیس‘‘ ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان لیے سامنے آگیا ہے۔

گکھڑ میں ٹال ٹیکس چونگی پر متعین ایک اے ایس آئی اور اس کے ساتھ کانسٹیبل نے غلہ منڈی کے ایک دوکاندار سے ناشتہ لیا لیکن پیسے ادا نہ کیے۔ دوکاندار کے اصرار پر اسے نہ صرف وہاں زدوکوب کیا بلکہ پولیس چوکی میں لے گئے اور وہاں بھی دل کی بھڑاس نکالی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس ظلم سے روکنے پر ایک بی ڈی ممبر کی بھی تواضع کر دی۔ غلہ منڈی کے دوکانداروں نے اس تشدد کے خلاف بروقت احتجاج کیا اور ہڑتال کر دی۔ اب یہ دونوں پولیس اہلکار گرفتار ہیں۔ لیکن عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کیس کو مارشل لاء کے سپرد کر دیا جائے تاکہ ملزم اپنے کیے کی سزا جلد پا سکیں، نیز محکمہ پولیس میں آئے دن اس قسم کے پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن مقرر کر کے ان کا سدباب کیا جائے۔

اساتذہ کی خالی اسامیاں

ایک اخباری اطلاع کے مطابق صرف راولپنڈی ریجن کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی اٹھارہ سو اسامیاں خالی پڑی ہیں اور اساتذہ کے فقدان کے باعث ۵۵ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اگر صرف ایک ریجن کی حالت یہ ہے تو دوسرے علاقوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار افراد کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔ ملک میں خواندگی کی شرح پہلے ہی خاصی محدود ہے اور اس پر مستزاد تعلیمی اداروں کی یہ حالت بلامبالغہ ’’مقام گریہ‘‘ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے تعلیمی حکام اس سلسلہ میں فوری اور مؤثر قدم اٹھائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter