سرحد اسمبلی کا شریعت بل، حکومتی کیمپ اور محترمہ بے نظیر بھٹو

   
۱۱ جون ۲۰۰۳ء

سرحد اسمبلی میں شریعت بل پیش کیے جانے کے ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے اس پر ردعمل کے اظہار کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس میں دن بدن شدت آرہی ہے۔ ایک طرف وہ عملی اقدامات ہیں جو سرحد حکومت کو ناکام بنانے اور اسے نت نئے مسائل میں الجھانے کے لیے کیے جا رہے ہیں جن میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے تبادلوں کا فیصلہ اور ضلعی ناظموں کی طرف سے استعفوں کا اعلان سرفہرست ہیں۔ اور دوسری طرف وفاقی حکومت کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس معاملہ میں حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری سمجھا ہے اور افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد یہ دوسرا مسئلہ ہے جس پر حکمران کیمپ اور محترمہ بے نظیر بھٹو یک آواز اور ہم آہنگ دکھائی دے رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے لیے مسلح امریکی مداخلت پر بھی اعتراض نہیں تھا بلکہ انہیں صرف یہ شکایت تھی کہ یہ کام ان کے ذریعے کیوں نہیں لیا جا رہا اور افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جہاد کے نتیجے میں ابھرنے والے اسلامی رجحانات کو ختم کرنے کے لیے امریکہ بہادر نے ان کی خدمات پر بھروسہ کرنے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کی منظوری جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ورنہ اگر وہ ان کی جگہ پاکستان میں برسراقتدار ہوتیں تو اس کی نوبت ہی نہ آتی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے سرحد اسمبلی کے منظور کردہ شریعت بل کو ’’طالبان بل‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ طالبان طرز کے اسلام کو نافذ کرنے کی طرف پیش رفت ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ طالبان کے طرز حکومت اور صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے طرز عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہے:

  • طالبان افغانستان میں جہادی کمانڈروں کی باہمی کشمکش اور خانہ جنگی کی وجہ سے بذریعہ قوت افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل نے انتخابی عمل کے ذریعے عوامی ووٹ حاصل کر کے صوبائی حکومت حاصل کی ہے۔
  • طالبان کا نظام امارت کا نظام تھا جس میں امیر کے شخصی احکامات ہی قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ جبکہ سرحد کی صوبائی حکومت نے منتخب اسمبلی میں بل پیش کر کے عوامی نمائندوں کے ذریعے اس کا نفاذ کیا ہے۔
  • طالبان نے افغانستان کے سابقہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکا تھا اور اس کی جگہ ایک نیا نظام نافذ کرنے کی طرف پیش رفت کی تھی۔ جبکہ سرحد حکومت نے ملک کے دستور اور مروجہ سسٹم کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی طرف سے ملنے والے اختیارات اور حدود میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے ہیں۔
  • طالبان نے اسلام کے نفاذ اور اس کی تعبیر و تشریح کے لیے اپنے امیر اور ان کی مجلس مشاورت کو فائنل اتھارٹی قرار دیا تھا۔ جبکہ صوبہ سرحد کی حکومت نے اس سلسلہ میں دستور پاکستان کے تحت پہلے سے قائم اداروں اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو بنیاد بنایا ہے اور انہیں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔
  • طالبان کا نظام ہمہ گیر اور قومی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ جبکہ سرحد اسمبلی کا منظور کردہ شریعت بل صاف طور پر اعلان کر رہا ہے کہ اس کا تعلق صرف ان معاملات سے ہے جن میں دستور کے تحت صوبائی حکومت کو قانون سازی اور نفاذ قانون کا حق حاصل ہے، اس کے علاوہ باقی معاملات سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔

اس پس منظر میں اس بات پر تو بحث کی گنجائش موجود ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے طالبان کا طرز عمل زیادہ مفید اور مؤثر تھا یا متحدہ مجلس عمل کا طریق کار زیادہ فائدہ مند ہے، مگر سرحد اسمبلی کے منظور کردہ شریعت بل کو ’’طالبان بل‘‘ قرار دینا اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے طالبان طرز کے اسلام کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگی، سراسر مغالطہ نوازی اور کج فہمی کی بات ہے جس کی محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی ذہین و فطین خاتون اور تجربہ کار سیاستدان سے قطعی طور پر توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور اس پر اس کے سوا اور کسی تبصرہ کی گنجائش نہیں ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ساری صورتحال کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر سرحد اسمبلی کے شریعت بل کو عالمی حالات کے تناظر میں انتہائی خوفناک شکل میں پیش کر کے اعلیٰ ترین قوتوں کو یقین دلانا چاہ رہی ہیں کہ اگر انہیں یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا تو حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہیں گے۔

دوسری طرف حکمران کیمپ کی صورتحال یہ ہے کہ سرحد اسمبلی میں ’’شریعت بل‘‘ کی منظوری پر اس کی بے چینی اور اضطراب قابل دید ہے:

  • صدر پرویز مشرف نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو ایک روشن خیال اسلامی ریاست بنانے کے تصور کو مجروح کرنے کی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دے۔
  • وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے جہلم میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کہ ’’مسجدوں کے پیسے کھانے والے ملک کا کیا حشر کریں گے؟
  • حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے فرمایا ہے کہ سرحد اسمبلی میں شریعت بل پیش کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جب اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہے اور وفاقی شرعی عدالت موجود ہے تو اس کے بعد نفاذ اسلام کے لیے اور کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

حالانکہ یہ بات چوہدری صاحب موصوف کے علم میں یقیناً ہوگی کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی نے اسی اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں اور سفارشات کو صوبائی اختیارات کی حدود میں نافذ کرنے کی بات کی ہے جس کا ذکر انہوں نے فرمایا ہے اور جسے وہ خود بھی نفاذ اسلام کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ قابل توجہ ارشادات وفاقی وزیر اطلاعات جناب شیخ رشید احمد کے ہیں جنہوں نے متحدہ مجلس عمل کے خلاف گولہ باری کے محاذ کی کمان سنبھال رکھی ہے اور وہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو ہی کے لہجے میں سرحد کی صوبائی حکومت کے لتے لیے جا رہے ہیں۔

شیخ رشید احمد نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اسلام کے نعرہ سے کیا تھا، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کی سرپرستی میں سیاسی پیش قدمی کی راہ ہموار کی تھی اور راجہ بازار راولپنڈی خصوصاً دارالعلوم تعلیم القرآن میں اسلام کے حق میں شیخ رشید احمد کے پرجوش خطابات کی گونج آج بھی پرانے سیاسی کارکنوں کے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ مگر اب وہ وزارت اطلاعات کے منصب پر فائز ہونے کے بعد فرما رہے ہیں کہ اسلام کو اسلام آباد سے دور رکھو۔ ان کا ارشاد ہے کہ وہ اسلام کے لیے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ہیں لیکن متحدہ مجلس عمل اسلام آباد کے لیے فٹ نہیں ہے اس لیے اسے اسلام آباد سے دور رہنا چاہیے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اسلام اور اسلام آباد کے درمیان فاصلہ قائم رکھنا چاہتے ہیں، وہی فاصلہ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے نزدیک اسلام اور اسلام آباد کے درمیان قائم رہنا ضروری ہے، اور وہی فاصلہ جسے آج کے عالمی حکمرانوں نے نہ صرف اسلام اور اسلام آباد کے درمیان بلکہ دنیا کے ہر مسلمان ملک کے دارالحکومت اور اسلام کے درمیان ضروری قرار دے رکھا ہے۔ انہی عالمی حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر عالم اسلام کے اکثر و بیشتر حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اسلام کے سیاسی اور حکومتی کردار کی نفی کو اپنا فریضہ قرار دیا ہے۔

شیخ رشید احمد نے فرمایا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کو عالمی حالات اور خطہ کی صورتحال کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔ ان کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر ملک کے مقتدر طبقات اسلام کا راستہ اسی طرح روکتے رہیں گے تو حالات کی سنگینی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگا۔ یہ ملک اسلام کی خاطر بنا ہے، ملک کے عوام ایک سے زیادہ بار اسلامی نظام کے حق میں واضح فیصلہ دے چکے ہیں، متحدہ مجلس عمل نے گزشتہ الیکشن میں نفاذ اسلام کے وعدہ پر ووٹ لیے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا احترام اس کی ذمہ داری ہے۔ دستور پاکستان نے ملک کے تمام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی گارنٹی دے رکھی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے دستور کے تفویض کردہ اختیارات کے تحت مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے سفارشات مرتب کی ہیں اور سرحد اسمبلی نے انہی سفارشات پر صوبائی اختیارات کے دائرہ میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگر شیخ رشید احمد اور ان کا کیمپ عالمی حالات اور خطہ کی صورتحال یا دوسرے الفاظ میں امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کی خاطر مذکورہ بالا تمام حقائق کو کراس کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو یہ فیصلہ انہیں مبارک ہو۔ لیکن ایک بات انہیں ہر وقت یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے عوام کو اسلام سے دستبردار کرانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور اگر جمہوری اور سیاسی عمل کے ذریعے نفاذ اسلام کا راستہ روکنے کی غیر جمہوری کوششیں اسی طرح جاری رہیں تو اس کے ردعمل میں خطہ کی صورتحال جو رخ اختیار کرے گی اس کا سامنا کرنا شیخ محترم اور ان کے کیمپ کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter