(رمضان المبارک کے سالانہ ’’فہمِ قرآن و سنت کورس‘‘ سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ماشاء اللہ دروس کا سلسلہ اور بہاریں جاری ہیں، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی اس محنت کو قبول فرمائیں، دنیا اور آخرت کی برکات نصیب فرمائیں، اور ہمارے بابا جی حضرت مولانا حافظ گلزار احمد آزاد صاحب کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھیں، اللہ پاک قبولیت اور برکات سے مسلسل بہرہ ور فرمائیں، آمین۔
آج مجھے گفتگو کرنی ہے کہ نیکیاں کمانا بھی ضروری ہے اور ان کو بچانا بھی ضروری ہے۔ کمائی محفوظ کر لی جائے تو کمائی ہے، محفوظ نہ رہے تو مشقت ہے۔ ہم دنیا میں کمائی کرتے ہیں مثلاً کھیتی باڑی کی اور فصل کاٹی، تو اگر اسے محفوظ نہیں کیا تو کیا حاصل کیا؟ دکان پر بیٹھ کر چار پیسے کمائے مگر محفوظ نہیں کیے، جیب کٹ گئی یا چوری ہو گئے اور ضرورت کے وقت پاس نہیں ہیں تو یہ کمائی نہیں ہے صرف مشقت ہے۔ نیکیاں بھی ایسے ہی ہیں۔ نیکیاں کمائی بھی جاتی ہیں اور ضائع بھی ہو جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ میں یہی بات فرمائی ہے ”یایھا الذین اٰمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ولا تبطلو اعمالکم“ (محمد ۳۳) اے ایمان والو! اللہ کی اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ اعمال کماؤ بھی اور ضائع ہونے سے بچاؤ بھی۔
بطلانِ اعمال کیا ہے اور نیکیاں کیسے برباد ہو جاتی ہیں؟ یہ ذکر کرنے سے پہلے میں ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ نیکی ہوتی کیا ہے؟ یہ جو فضیلت بیان ہوتی ہے کہ دس نیکیاں مل گئیں، ستر نیکیاں مل گئیں، سات سو نیکیاں مل گئیں، تو عام سا سوال ہے کہ اصل میں ملتا کیا ہے؟ کیا صرف گنتی ملی؟ اور اب تو ویسے گنتی ہی رہ گئی ہے کہ آج کل ڈیجیٹل کرنسی چلتی ہے۔ ہمارے دوست جمعیت اہل سنت کے رہنما مفتی محمد نعمان صاحب بڑے متحرک اور بڑے فعال عالم دین ہیں، ان کا ایلیمونیم کا کاروبار ہے۔ کل اسی پر ہماری بات ہو رہی تھی وہ مجھے بتا رہے تھے کہ اس ہفتے کے دوران اتنی رقم گئی ہے اور اتنی رقم آئی ہے، میرا اتنا کاروبار ہوا ہے لیکن ہاتھ میں کوئی شے نہیں آئی، سب موبائل کے اندر سے ہی گیا ہے اور اندر ہی آیا ہے۔
آج کا تو دور ہی سوالوں کا ہے، کوئی بات بھی کریں تو Why آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کیوں جی؟ کیسے جی؟ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ مولوی صاحب! ستر یا سات سو نیکیاں مل گئیں تو ملتا کیا ہے؟ کھجوریں ملتی ہیں یا پیسے ملتے ہیں؟ نیکی کی عملی شکل کیا ہے؟ میں نے کہا بیٹا! یہ آخرت کی کرنسی ہے۔ جب دنیا کا بارڈر کراس کریں گے تو وہاں یہ کرنسی چلے گی۔ کسی بھی ملک کا بارڈر کراس کریں تو کرنسی بدل جاتی ہے۔ یہاں سے واہگہ بارڈر قریب ہی ہے، کراس کریں گے تو وہاں ہمارا روپیہ نہیں چلے گا، بھارت کا روپیہ چلے گا۔ پشاور کراس کریں گے تو وہاں افغانی سکہ چلے گا، پاکستانی نہیں چلے گا۔ اسی طرح نیکیاں آخرت کی کرنسی ہے۔ دنیا میں ہمارے معاملات اور لین دین ڈالر، یورو اور ریال وغیرہ سے چلتے ہیں، اللہ کرے کبھی وقت آئے کہ روپے پر بھی عالمی کاروبار چلے۔ آخرت میں لین دین نیکی اور بدی سے ہوگا۔ آخرت کی دو کرنسیاں ہیں ایک پازیٹو ہے اور ایک نیگیٹو ہے۔ اس کی وضاحت ایک حدیث سے کروں گا کہ یہ میں نہیں کہہ رہا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں صحابہ کرامؓ سے پوچھا ”من المفلس“ مفلس کسے کہتے ہو؟ فقہی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جسے ہم دیوالیہ کہتے ہیں۔ کسی کو عدالت دیوالیہ قرار دیتی ہے۔ مارکیٹ میں کسی دکاندار کا کاروبار بیٹھ گیا ہے تو مارکیٹ کی کمیٹی اسے دیوالیہ قرار دیتی ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے بینکرپٹ (Bankrupt) کہتے ہیں۔ جو آدمی قرضہ ادا نہیں کر سکتا اور کوئی مجاز ادارہ قرار دے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے اس سے مت مانگو۔ صحابہؓ سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ”من لا درھم لہ ولا دینار“ جس کی جیب میں درہم دینار نہیں ہے وہ مفلس ہے۔ ہمارے ہاں بھی جو اپنے واجبات ادا نہ کر سکے اور اپنی ضروریات پوری نہ کر سکے وہ مفلس ہوتا ہے۔ فرمایا، ٹھیک ہے تمہارے ہاں مفلس یہ ہے، مگر اللہ کے ہاں مفلس کون ہے؟
اللہ تعالیٰ کی عدالت جو کہ اصل عدالت ہے وہاں کون دیوالیہ ہوگا؟ قیامت کا دن ہوگا، حشر کا میدان ہوگا، عدالت لگے گی، مقدمات چلیں گے اور ”سرکار بنام فلاں“ آواز پڑے گی، ملزم پیش ہوگا۔ وہاں کا منظر قرآن پاک نے یہ بیان فرمایا ہے ”معھا سآئق و شھید“ (ق ۲۱) جب یہ آواز پڑے گی اور ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو سائق اور شہید دو فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے، ایک چلانے والا جس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہوگی، اور دوسرا گواہی دینے والا ہوگا جس کے ہاتھ میں فائل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے پیش ہوگا، اب اللہ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ کس کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے، لیکن عدالتی کارروائی پوری ہو گی کہ فردِ جرم کیا ہے؟ فرشتوں سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ اس کے کھاتے میں کیا ہے؟ فرشتے کہیں گے یا اللہ! اس کے پاس بہت کچھ ہے، نیکیوں کے انبار لے کر آیا ہے۔ بڑے عمرے، بڑی نمازیں، بڑے صدقے، بڑے خیرات، اس کے اکاؤنٹ میں بہت کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کوئی لین دین والا بھی ہے، کسی کا حساب کتاب ہے؟ فرشتے عرض کریں گے یا باری تعالیٰ! ایک لائن لگی ہوئی ہے۔ اب وہ لین دین والے آئیں گے۔ دنیا کا لین دین تھا جس کا آخرت میں حساب ہو رہا ہے۔
ایک کہے گا یا اللہ! یہ میرا پڑوسی تھا، تگڑا آدمی تھا، اس نے مکان بنایا تو میری دو فٹ جگہ قبضہ کر لی، میں کمزور تھا، کچھ نہیں کر سکا۔ فرشتے کہیں گے ٹھیک کہہ رہا ہے۔ وہاں تو زمین نہیں ہو گی کہ اس کو واپس دلائی جائے، وہاں اللہ پاک فرمائیں گے کہ اس کی اتنی نیکیاں نکالو اور اس کے کھاتے میں ڈال دو۔ دو فٹ زمین کی قیمت نیکیوں کی شکل میں اسے دے دی جائے گی۔
دوسرا آئے گا، کہے گا یا اللہ! فلاں موقع پر اس نے مجھے بہت گالیاں دی تھیں، مجھے خواہ مخواہ بے عزت کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اتنی نیکیاں اس کو دے دو۔ اب اپنے حقوق لینے والے آ رہے ہیں، کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا ناحق مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ چنانچہ وہ لوگ ان کے بدلے میں اس کی نیکیاں لے کر جا رہے ہیں۔ نمازیں، روزے، حج، زکوٰۃ، عمرے اس کے کھاتے سے منتقل کر دیے جائیں گے، جیسے ایک موبائل سے دوسرے موبائل میں رقم منتقل کرتے ہیں، اس کی نیکیاں ٹرانسفر کر دی جائیں گی۔
ایک مرحلہ آئے گا کہ اس کی نیکیاں ختم ہو چکی ہوں گی اور حق لینے والے ابھی باقی ہوں گے۔ کوئی کہے گا یا اللہ! میرا مکان کا مقدمہ تھا، اس کی جھوٹی گواہی پر میرا دو کروڑ کا مکان ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کو بھی نیکیاں دو۔ فرشتے کہیں گے یا اللہ !اس کی نیکیاں تو ختم ہو گئی ہیں، اس کا کھاتہ ختم ہو گیا ہے، اب کیا کریں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب اُس کے اتنے گناہ نکالو اور اِس کے کھاتے میں ڈال دو۔ گناہ جو اُس نے کیے تھے وہ اِس کے کھاتے میں واجب الادا حقوق کے عوض ڈالے جا رہے ہیں، اور پھر بالآخر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ فرمایا، یہ ہے میری امت کا مفلس۔
ایک بات درمیان میں عرض کرتا ہوں کہ یہ آپس کے معاملات اتنے آسان نہیں ہیں۔ اللہ پاک نے بتا دیا ہے کہ یہاں حساب کتاب ٹھیک کر لو ورنہ میں آخرت میں کروں گا اور اس کا طریقہ یہ ہو گا۔ سب سے زیادہ گڑبڑ ہم وراثت کے معاملے میں کرتے ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ“ جس نے کسی وارث کا حق دبایا تو اللہ پاک جنت میں اس کے حساب میں کٹوتی کر کے پہلے وراثت دلوائیں گے۔ جس نے کسی وارث بیٹی، بہن، ماں، بھائی کو اس کا حق نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں تم کون ہو دبانے والے؟ میں نے حصے مقرر کیے ہیں، جب جنت کا حساب کروں گا تو تمہارے حصے سے کٹوتی کر کے پہلے وہ ادا کروں گا پھر باقی حساب کتاب ہوگا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے حساب کی یہ تفصیل بیان فرما ئی ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ آخرت کی دو کرنسیاں ہیں، ایک پازیٹو اور ایک نیگیٹو۔ اگر یہیں معاملہ صاف نہیں کیا تو اس دنیا کی آپس کی زیادتیوں پر یا نیکیاں دینا پڑیں گی یا گناہ لینے پڑیں گے، یوں حساب کتاب ہوگا۔ میں نے بات سمجھائی ہے کہ آخرت میں سارے معاملات نیکیوں اور گناہوں کی کرنسی سے طے ہوں گے۔ اس لیے دو باتیں عرض کر رہا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے۔ ایک یہ کہ دنیا میں ہی معاملہ صاف کر کے جاؤ ورنہ وہاں حساب کتاب ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ اتنی نیکیاں کماؤ، اتنی کماؤ، اتنی کماؤ کہ حساب کتاب کے بعد کچھ اپنے کھاتے میں بھی رہ جائیں۔ یہ دو ہی باتیں ہیں، تیسرا آپشن کوئی نہیں ہے۔
ہم نیکیاں کماتے ہیں تو بعض کاموں پر کروڑوں نیکیاں ملتی ہیں۔ اللہ پاک زیادہ سے زیادہ کمانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ چھوٹا سا کام ہوتا ہے اور علماء کرام اس کا بہت بڑا اجر بیان کر دیتے ہیں۔ تبلیغی جماعت والے انچاس کروڑ بیان کرتے ہیں۔ مجھ سے کسی نے اس بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے ”لیلۃ القدر خیر من الف شھر“ (القدر ۳) کہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ آج کل کی گیارہ گھنٹے کی رات کا ثواب ہزار مہینے سے بہتر ہے تو انچاس کروڑ کو بھی ایسے ہی سمجھ لیں۔ یہ تو قرآن مجید خود کہہ رہا ہے، کوئی روایت نہیں ہے اور نہ ہی بزرگوں کا قول ہے کہ گیارہ گھنٹے کی عبادت ایک ہزار مہینے کی مسلسل عبادت سے بہتر ہے۔
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ مولوی صاحب! یہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا کہ اگر تو اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ یہ تم نے دینا ہے تو میں اپنا بجٹ دیکھوں گا کہ اس میں گنجائش ہے یا نہیں؟ لیکن اللہ نے یہ ثواب دینے کے لیے مجھے یا تمہیں نہیں کہا۔ بجٹ کے پرابلم ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ کو بجٹ کا کوئی پرابلم نہیں ہے، اس کے بارے میں یہ سوال نہیں بنتا کہ وہ کہاں سے دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے خود دینا ہے، امریکہ یا پاکستان سے نہیں کہنا کہ اپنے بجٹ میں سے اتنے دے دو۔ اس لیے جتنا بھی کسی روایت میں آیا ہے ٹھیک ہے۔ نیکیوں کا معاملہ یہ ہے کہ دینے والے نے اپنے حساب سے دینا ہے اور دینے والا جتنا زیادہ خوش ہوگا اتنی زیادہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے کام کرو گے تو پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہو گی کہ یا اللہ! مجھے یہ چاہیے اور اتنا چاہیے، کیونکہ اس کو سب پتہ ہے۔
ایک لطیفہ مشہور ہے وہ ذکر کر دیتا ہوں۔ ایک نواب صاحب تھے، جو آدمی ان سے کچھ مانگتا تھا تو وہ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے تھے، جتنے بال ہاتھ میں آ جاتے، اتنے پیسے دے دیتے۔ ایک بال ہاتھ میں آیا تو ایک دے دیا، دو بال ہاتھ میں آئے تو دو درہم دے دیے۔ ایک دفعہ کوئی مانگنے والا آیا اور نواب صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا تو ایک بال نکلا، انہوں نے ایک درہم یا دینار یا اشرفی دے دی۔ اس آدمی نے کہا بس ایک؟ نواب نے کہا تمہاری قسمت۔ وہ کہنے لگا نواب صاحب! قسمت میری اور ہاتھ آپ کا؟ ایک دفعہ مجھے موقع دیں کہ اپنی قسمت خود آزماؤں، پھر دیکھنا کتنے بال ہاتھ آتے ہیں۔
نیکیاں کمائی بھی جاتی ہیں اور ضائع بھی ہو جاتی ہیں۔ کمانے کا تو پتہ چلتا ہے مگر ضائع ہونے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ کمانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے، ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پڑتا ہے، مسجد میں آکر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا پڑتا ہے، لیکن ضائع ہوتے ہوئے پتہ نہیں چلتا۔ اس پر میں چھوٹی سی مثال دوں گا۔ ایک آدمی نے رات گھنٹہ دو گھنٹے کمپیوٹر پر کام کیا ، صبح کمپیوٹر کھولا تو سی ڈی صاف تھی، پتہ نہیں کس وقت ڈیلیٹ ہو گیا۔ ”ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون“ (الحجرات ۲) فرمایا نیکی کی حفاظت کرو، ایسا نہ ہو کہ نیکی اڑ جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ نیکیاں کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے، ضائع ہوتے ہوئے پتہ نہیں چلتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیکی کا کام کرو تو اسے محفوظ کرو اور وائرس سے بچاؤ، ورنہ تمہیں ضائع ہونے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ایک بات اور فرمائی ہے ”ھل انبئکم بالاخسرین اعمالا۔ الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا“ (الکہف ۱۰۳، ۱۰۴) فرمایا اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ عمل کے اعتبار سے زیادہ خسارے میں کون ہے؟ جس نے نیکی نہیں کی وہ بھی خسارے میں ہے، مگر جس نے نیکی کر کے ضائع کر دی وہ زیادہ خسارے میں ہے۔ ایک آدمی سارا دن چارپائی پر خراٹے لیتا رہا اور کوئی کمائی نہیں کی تو وہ خسارے میں ہے۔ لیکن ایک آدمی نے سارا دن محنت مزدوری کر کے شام کو ہزار روپیہ کمایا، مگر گھر جا کر دیکھا کہ جیب میں کچھ نہیں ہے، پتہ نہیں کہیں گر گئے یا جیب کٹ گئی۔ حفاظت نہیں کی تو زیادہ خسارے میں کون ہے، خراٹے لینے والا یا محنت کرنے والا؟ زیادہ خسارے میں وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اسی زندگی میں برباد ہو جاتی ہیں، جبکہ وہ اس تصور میں رہتے ہیں کہ ہم نے بڑے بڑے اچھے کام کر رکھے ہیں اور وہ اپنے ذہن میں اس پر خوش ہوتے رہتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں تو سی ڈی خالی ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ نیکیاں کن کن کاموں سے برباد ہو جاتی ہیں۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھیں، ذرا فہم کی دوستی لگانے کی ضرورت ہے، کوئی بات ابہام میں نہیں ہے، ہر بات کھول کر رکھ دی ہے۔ وہ وائرس کون کون سے ہیں جو نیکیوں کو اڑا دیتے ہیں؟
سب سے بڑا وائرس شرک ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ”لئن اشرکت لیحبطن عملک“ (الزمر ۶۵) سچی بات ہے بعض آیتیں ایسی ہیں کہ ترجمہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے واحد مخاطب کے صیغے سے خطاب کیا ہے، جمع بھی نہیں کہ تاویل کر لیں گے۔ فرمایا، اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ نے خدانخواستہ شرک کیا تو آپ کی نیکیاں بھی برباد ہو جائیں گی۔ حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے شرک کرنا تھا، یہ بات حضورؐ سے کہی جا رہی ہے اور ہمیں سمجھائی جا رہی ہے۔ جیسے محاورہ ہے ”کہنا بیٹی کو سنانا بہو کو“، ”گفتہ آید در حدیثِ دیگراں“۔ کہا کسی اور سے جاتا ہے، سنایا کسی اور کو جاتا ہے۔ ایسے ہی یہاں نبی کریمؐ کو خطاب کر کے ہمیں سمجھایا کہ شرک سے نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اور دوسری جگہ کئی انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ”ولو اشرکوا لحبط عنھم ما کانوا یعملون“ (الانعام ۸۸) اگر یہ پیغمبر بھی شرک کرتے تو ان کی نیکیاں برباد ہو جاتیں۔
دوسرا وائرس جو نیکیوں کو ضائع کرتا ہے وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے۔ توہین کا ایک پہلو قرآن پاک نے بیان کیا ہے ”یاایھا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون“ (الحجرات ۲) صحابہؓ سے کہا جا رہا ہے کہ میرے حبیب کی مجلس میں آتے ہو اور بیٹھتے ہو تو اپنی آواز پست رکھو، ایک دوسرے کی طرح اونچی اونچی باتیں مت کرو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے کہ نیکیاں کدھر گئی ہیں۔ اصولی بات یہ ہوئی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں بلا ارادہ بھی کوئی گستاخی ہو گئی تو کام خراب ہو جائے گا۔ یہ ایک ہے توہین کرنا، اور ایک ہے کسی کام سے توہین ہو جانا، دونوں میں فرق ہے۔ ارادے سے توہین کرنا کفر ہے، اور کسی عمل سے توہین ہو جانا کفر تو نہیں لیکن اس سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بلند آواز سے بولنے سے منع فرما دیا۔
بعض حضرات کی آواز قدرتی بلند ہوتی ہے، وہ آہستہ بات کریں تب بھی پورا محلہ سنتا ہے، اس پر ضمناً ایک لطیفہ ذکر کر دیتا ہوں۔ ۱۹۷۷ء میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک کے دوران مارشل لاء کی خلاف ورزی میں کچھ لوگ گرفتار ہوئے۔ میاں محمد علی قصوری، ملک اکبر ساقی اور دیگر حضرات تھے، میں بھی تھا۔ فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔ ہم کیمپ جیل لاہور میں تھے اور عدالت جیل میں ہی لگتی تھی۔ کرنل نصیر صاحب جج تھے۔ میاں محمد علی قصوری ملک کے بڑے وکیل تھے، وہ ہمارے ساتھ ملزم اور قیدی بھی تھے اور وہی ہمارے وکیل تھے۔ ان کی آواز بڑی گرجدار تھی، بولتے تھے تو ماحول لرزتا تھا۔ وہ بات کر رہے ہیں اور کرنل صاحب ہتھوڑی بجا رہے ہیں کہ آہستہ بولو۔ لیکن وہ آہستہ کیسے بولیں۔ بالآخر تنگ آ کر کرنل صاحب نے کہا کہ آہستہ بولو ورنہ ’’توہینِ عدالت‘‘ لگ جائے گی۔ ایم انور بار ایٹ لا معروف وکیل تھے، وہ ہماری مدد کو آئے اور انہوں نے کہا سر! ان کی آواز ایسی ہے، یہ آہستہ بول ہی نہیں سکتے۔
جب حکم نازل ہوا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنی آواز پست رکھو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں برباد ہو جائیں، تو دو بزرگ زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک حضرت عمرؓ، جو بڑے جہیر الصوت تھے، انہوں نے تو اس آیت کے نزول کے بعد آواز اتنی پست کی کہ روایات میں آتا ہے کہ اتنا آہستہ بولتے تھے کہ کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچھنا پڑتا تھا کہ عمر کیا کہہ رہے ہو؟ دوسرے صحابی حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے، خطیبِ اسلام اور خطیبِ انصار کہلاتے تھے، ان کی آواز بھی بلند تھی، تو اس آیت کے نزول کے بعد وہ گھر میں بیٹھ گئے۔ جب دو تین دن وہ مجلس میں نہیں آئے تو حضورؐ نے فرمایا کہ ثابتؓ کا پتہ کرو، خیر تو ہے، بیمار ہے یا سفر میں گیا ہے؟ ایک آدمی نے کہا میں پتہ کر کے آتا ہوں۔ ان کے گھر گئے تو اہل خانہ نے بتایا کہ وہ تو پرسوں سے بیٹھا رو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں اونچی آواز سے بولنے پر قرآن نیکیاں ضائع ہونے کا حکم لگا رہا ہے، جبکہ میں تو حضورؐ کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے تقریریں کرتا رہا ہوں، میری پچھلی نیکیاں تو ضائع ہو گئیں، آئندہ کیا بنے گا؟ حضورؐ کو رپورٹ ملی تو بلا کر فرمایا کہ ثابتؓ! یہ تیری بات نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ کا اس آیت کے نزول پر یہ طرز عمل تھا۔ بہرحال نیکیاں ضائع ہونے کا دوسرا سبب حضور نبی کریمؐ کی شان اقدس میں کسی قسم کی بھی گستاخی اور توہین کو بیان فرمایا ہے۔
قرآن مجید میں ہے ”ذلک بانھم کرھوا ما انزل اللہ فاحبط اعمالھم“ (محمد ۹) اللہ پاک کے کسی حکم پر، کسی قانون پر ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا تو نیکیاں برباد ہو گئیں۔ آج کل تو بڑا مشغلہ یہی ہے۔ موبائل پر قرآنی احکام اور حضور نبی کریمؐ کی سنتوں پر جو کمنٹس ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ کی بات ہے دو تین آدمی باتیں کر رہے تھے اور قرآن مجید کا کوئی حکم زیر بحث تھا۔ وہ ایسے ویسے کمنٹس دے رہے تھے کہ میں نے کہا خدا کا خوف کرو، یہ تبصرے اللہ کے حکم پر کر رہے ہو؟ کہنے لگے ہم تو ویسے ہی انجوائے کر رہے ہیں۔ میں نے کہا یہ انجوائے نہیں کفر ہے۔ آج کل یہ ہو رہا ہے کہ قرآن پاک کی کوئی آیت یا کوئی حدیث آگئی تو کمنٹس شروع ہو گئے۔ اس بات کو نیکیاں ضائع ہونے کا سبب بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام پر دل میں کراہت آگئی تو نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔
قرآن پاک نے دو لفظ ذکر کیے ہیں ”ان تحبط اعمالکم“ اور ”لا تبطلوا اعمالکم“۔ حبطِ اعمال اور بطلانِ اعمال۔ حبط کا معنی ڈیلیٹ ہو جانا ہے کہ ختم ہو گیا۔ اور بطلان کا معنی ڈیڈ ہو جانا ہےکہ عمل لکھا ہوگا لیکن بے اثر ہو گا۔ جیسے اسمبلی میں بات ہوتی ہے تو سپیکر صاحب کہتے ہیں غیر پارلیمانی لفظ ہیں۔ وہ لفظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن غیر پارلیمانی شمار ہوتے ہیں۔ اور اگر کہیں کہ کارروائی سے حذف کر دو تو پھر وہ الفاظ ریکارڈ میں نہیں آتے۔
ایک جگہ فرمایا ”یایھا الذین امنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی“ (البقرہ ۲۶۴) کہ ایمان والو! صدقہ خیرات کرتے ہو تو اس عمل کو من اور اذیٰ کے ساتھ باطل نہ کرو۔ مَن کا مطلب ہے جتلانا کہ کسی اللہ کے بندے پر خرچ کیا اور بعد میں اسے یاد دلایا کہ فلاں موقع پر میں نے تمہارے ساتھ یہ احسان کیا تھا، اس سے وہ صدقہ باطل ہو جاتا ہے۔ اور اذیٰ سے مراد پس پردہ کوئی احسان جتلانا ہے کہ فلاں آدمی کے ساتھ میں نے یہ نیکی کی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے صدقہ خیرات کے متعلق بہت دلچسپ بات کی ہے۔ پہلی بات یہ کہ صدقہ خیرات کیا ہے؟ فرمایا ” مما رزقناھم ینفقون“ (البقرہ ۳) ہمارے دیے ہوئے میں سے دیتے ہو، اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتے۔ دوسری بات فرمائی ”فی اموالھم حق للسائل والمحروم“ (الذاریات ۱۹) تم ان پر احسان نہیں کر رہے، ان کا حق دے رہے ہو۔ ”و اٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل“ (بنی اسرائیل ۲۶) یتیم کو، مسکین کو اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔ اور تیسری بات فرمائی ”من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضٰعفہ لہ اضعافا کثیرہ“ (البقرہ ۲۴۵) تم محتاج کو دے رہے ہو تو مجھے قرضہ دے رہے ہو، مجھ سے واپس لینا ہے۔ اور دس گنا سے شروع کروں گا۔ تم آپس میں لین دین کرتے وقت کمی بیشی کرو تو وہ سود ہوتا ہے۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ یہ واحد قرضہ ہے جس پر سود جائز ہے جو دس گنا سے شروع ہوتا ہے۔
ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ مجھے لاہور سے کسی دوست نے فون کیا کہ مولوی صاحب! فلاں آدمی آپ کے پاس آئے گا، اس کو آپ نے دس ہزار روپے دینے ہیں، واپس میں کروں گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ وہ آدمی آیا تو میں نے اسے پیسے دے دیے۔ اب وہ پیسے میں نے اس کو دیے ہیں یا کہنے والے کو دیے ہیں؟ درحقیقت کہنے والے کو دیے ہیں، کیونکہ واپس اسی نے کرنے ہیں۔ تو جس کو دیے ہیں اس پر میرا کیا احسان ہے کہ میں چڑھائی شروع کر دوں کہ میں نے تمہارے لیے یہ کیا تھا۔
فرمایا کہ اے ایمان والو! من اور اذی کے ساتھ اپنی خرچ کی ہوئی رقم کو برباد نہ کرو۔ بلکہ قرآن پاک نے اس سے زیادہ سخت بات کی ہے ”قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی“ (البقرہ ۲۶۳) اگر کسی پر خرچ کر کے بعد میں جتلانا ہے تو بہتر ہے کہ مت دو۔ اگر کسی ضرورت مند پر خرچ کر کے یا اجتماعی ضرورت کے کسی کام پر خرچ کر کے فوٹو سیشن کرنا ہے تو اس نے نہ دینا بہتر ہے۔
میں نے اصولی طور پر یہ بات کی ہے کہ نیکیاں کمانا بھی محنت کی بات ہے مگر بچانا زیادہ محنت کی بات ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”یایھا الذین اٰمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ولا تبطلو اعمالکم“ (محمد ۳۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے احکام کی پیروی کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کرو، اور کسی نیکی کا کوئی موقع مل جائے تو اس کی حفاظت کرو۔ اللہ رب العزت ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی اور زیادہ سے زیادہ حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں تاکہ کل جب حساب کتاب میں ضرورت پڑے گی تو کھاتے میں کچھ ہو، آمین یا رب العالمین۔