امریکہ کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے دو بیانات اس وقت ہمارے ہاں زیادہ تر زیر بحث ہیں، ایک کشمیر کے بارے میں ہے اور دوسرا افغانستان کے حوالہ سے، ان دونوں خطوں کے ساتھ ہماری ثقافتی، دینی اور جذباتی وابستگی ہے اس لیے فطری طور پر بحث و مباحثہ میں تنوع اور جذباتیت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے موقع پر کشمیر کے مسئلہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے پاکستان نے تو قبول کر لیا مگر بھارت کی طرف سے مثبت جواب نہیں آیا بلکہ اس کی طرف سے عملی جواب یہ ہے کہ بھارتی دستور میں مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کی طرف پیشرفت ہو رہی ہے جس سے بھارتی دستور کی رو سے کشمیر متنازعہ خطہ نہیں رہے گا۔ جبکہ کشمیری عوام پر گزشتہ ستر سال سے بھارتی فوج کے مسلسل بڑھتے ہوئے مظالم پر عالم اسلام خصوصاً پاکستانی قوم مضطرب اور بے چین ہے، مختلف ادوار میں اس سلسلہ میں پیشرفت ہوئی مگر بھارتی ہٹ دھرمی اور اقوام عالم میں اس کے اثر و رسوخ کے باعث معاملہ ہر بار کھٹائی میں پڑتا رہا۔ اب ایک بار پھر اقوام متحدہ اور او آئی سی کو اس سلسلہ میں توجہ دلانے اور کشمیری عوام کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کے بھرپور اظہار کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونے والا ہے جو اس سلسلہ میں قومی طرز عمل اور عزم کا اعادہ کرے گا۔
کشمیری عوام ایک جائز مطالبہ پر گزشتہ ستر سال سے جدوجہد میں مصروف ہیں اور مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے واضح فیصلوں اور عالمی برادری کے وعدہ کے مطابق آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا جائے، مگر یہ وعدہ پورا ہونے کی بجائے کشمیری عوام کے خلاف عسکری جارحیت کا تسلسل قائم ہے جو بہرحال عالمی برادری کی انصاف پسندی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور اس کا جس قدر جلد نوٹس لیا جائے بہتر ہوگا کہ بھارت نے بالآخر کشمیری عوام کا یہ مسلمہ اور جائز حق دینا ہی ہے۔
دوسری طرف افغانستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو دو تین روز میں فتح کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے دس ملین لوگوں کا قتل عام ہو سکتا ہے جو وہ نہیں چاہتے، اس لیے ان کی کوشش ہے کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیاجائے جس پر امریکی حکومت کی گفتگو امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ جاری ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس بیان میں دونوں طرف پیغام دیتے ہوئے جہاں افغانستان سے یہ کہا ہے کہ وہ اگر امریکی حکومت کی شرائط کے مطابق معاہدے کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو کم از کم دس ملین افغان مارے جا سکتے ہیں، وہاں دوسری طرف وہ امریکی قوم کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک کروڑ کے لگ بھگ افغانیوں کو تہہ تیغ کیے بغیر افغانستان کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ ہم صدر ٹرمپ کے اس بیان کو اس مفہوم میں لیتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین تو فتح کی جا سکتی ہے لیکن افغان قوم کو فتح کرنا امریکہ کے بس میں نہیں ہے۔
اس پس منظر میں ان مذاکرات پر بھی ایک نظر ڈال لیں جو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان جاری ہیں اور جس کے بارے میں امارت اسلامی افغانستان کے نمائندوں کا یہ عندیہ بھی سامنے آچکا ہے کہ کم و بیش ۸۰ فیصد معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے اور باقی ۲۰ فیصد امور پر بھی جلد سمجھوتہ ہو جانے کی توقع ہے۔ جبکہ غالباً وہی بیس فیصد امور سب سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ ہمارے خیال میں امریکہ اس بات پر بضد ہے کہ افغان طالبان کابل کی موجودہ حکومت سے فوری بات چیت کریں جس کے لیے وہ تیار نظر نہیں آتے، جبکہ طالبان کی یہ شرط ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کا شیڈول دیا جائے اس کے بعد باقی امور پر گفتگو نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اصل بات وہی ہے کہ امریکہ اپنی فوجوں کے انخلا کا شیڈول دینے سے قبل افغان طالبان سے کابل حکومت کا وجود تسلیم کرانا چاہتا ہے جو اس ’’امریکی اسٹائل‘‘ کا حصہ ہے کہ دشمن کے ساتھ مذاکرات میں دشمن کی نمائندگی کے لیے بھی امریکہ کی مرضی کے لوگ بیٹھے ہوں اور اقتدار منتقل کرنے کی صورت میں اقتدار وصول کرنے والوں میں بھی امریکہ کی مؤثر نمائندگی موجود ہو۔ اس کی جو تاویل بھی کر لی جائے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ امریکی اسٹائل ہی نوآبادیاتی نظام کی جدید ترین شکل ہے جسے وہ افغانستان میں بہرصورت قائم رکھنا چاہتا ہے۔
جہاں تک دس ملین افراد قتل کر کے فتح حاصل کرنے کی دھمکی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں، امریکہ بہادر اس سے قبل دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کی شکست کے بعد اس کا حلیف جاپان ہتھیار نہیں ڈال رہا تھا تو اسے اس پر مجبور کرنے کے لیے امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر کم و بیش دو لاکھ افراد کو آناً فاناً موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لگتا ہے امریکہ کی حالیہ قیادت پر وہی نشہ طاری ہونے لگا ہے، اللہ تعالٰی اس دنیا کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔