حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور جہادِ کشمیر

   
۱۶ جون ۲۰۰۱ء

قیامِ پاکستان کے بعد کشمیر کے علماء اور عوام نے ڈوگرہ سامراج کے ظالمانہ اور جابرانہ تسلط کے خلاف جہادِ آزادی کا پرچم بلند کیا تو پاکستان کے جن اکابر علماء نے اس کی حمایت میں سرگرم کردار ادا کیا ان میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی شخصیت اور ذات گرامی نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس جنگ کو جہاد قرار دیا اور اس کی معاونت کے لیے لوگوں کو تیار کیا، بلکہ خود مظفرآباد جا کر مجاہدین اور آزاد حکومت کے عہدیداروں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ حضرت لاہوریؒ کے حالات زندگی پر فیروز سنز نے جناب عبد الحمید خان کی تصنیف ’’مردِ مومن‘‘ کے نام سے اور انجمن خدام الدین شیرانوالہ گیٹ لاہور نے جناب لال دین اخگر کی تصنیف ’’انوار ولایت‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ دونوں سوانح نگاروں نے جہاد کشمیر کے لیے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی تگ و دو اور سرگرمیوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

حضرت لاہوریؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریکِ جہادِ آزادی کے اہم رکن تھے، جنہوں نے مفکرِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی سرپرستی اور رفاقت میں برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا، اور ان کی انہی سرگرمیوں کی بنا پر انہیں تحریکِ شیخ الہند کی ناکامی کے بعد برطانوی سرکار نے دہلی یا سندھ کی بجائے لاہور میں صرف اس وجہ سے نظر بند کر دیا تھا کہ یہاں ان کا کوئی واقف نہیں ہے، اور وہ یہاں نئے سرے سے کوئی تحریک منظم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، مگر قدرتِ خداوندی نے ان سے لاہور میں وہ علمی، فکری اور تحریکی کام لیا کہ اس کے فیوض و برکات سے عالمِ اسلام کا ایک حصہ آج تک فیضیاب ہو رہا ہے۔

مذکورہ بالا سوانح نگاروں کے مطابق حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ڈوگرہ سامراج کے خلاف کشمیری عوام کی اس جنگ کو جہاد قرار دیا اور خطباتِ جمعہ، پبلک بیانات اور ہفت روزہ خدام الدین کی تحریروں کے ذریعے اسلامیانِ پاکستان کو اس جہاد میں شریک ہونے کی ترغیب دلائی، مجاہدین کی حمایت کے لیے فنڈ جمع کیا، اور ایک موقع پر دس ہزار روپے کی خطیر رقم لے کر خود راولپنڈی گئے اور صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کو یہ رقم پہنچائی۔ ’’مردِ مومن‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ

’’کشمیر کی جنگ میں مجاہدین کی کمی نہ تھی، کمی تھی تو سامانِ حرب اور دیگر ضروریات کی جس کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ حضرتؒ اس جہاد میں حصہ لینے کی خاطر ہزاروں روپے کی وہ رقم جو شیرانوالہ مرکز میں جمع ہوتی خود لے کر روانہ ہوتے اور اس وقت کی ذمہ دار شخصیت کے سپرد کر دیتے، اس کا واپسی پر باقاعدہ اعلان کر دیتے۔ شب و روز جہاد کا ذکر ہوتا۔ فرماتے دل کی تمنا یہ ہے کہ ڈوگروں کے مقابلے میں فرنٹ پر پہنچ کر صفِ اول میں شریک ہو جاؤں، سینے میں گولی لگے اور شہادت نصیب ہو جائے۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو۔ مجاہدین کی ضروریات کا مہیا کرنا زیادہ ضروری تھا، اس کام میں حضرتؒ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘‘

جبکہ ماسٹر لال دین اخگر صاحب مرحوم ’’انوار ولایت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ

’’راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ کمترین نے جب اپنے آقائے روحانی کو لاہور میں مجاہدینِ کشمیر کی امداد کے لیے رات دن کام کرتے دیکھا تو اپنے گاؤں نتھو والا جا کر احباب سے مشورہ کیا تو انہوں نے نہایت سرگرمی سے ہنگامی چندے کی فراہمی شروع کر دی۔ پہلی دفعہ مبلغ گیارہ سو روپے جمع ہوئے جن کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر خدام الدین کے دفتر میں منشی سلطان احمد کے پاس جمع کرایا گیا اور ان کی رسیدات اب تک کمترین کے پاس موجود ہیں۔ دوسری دفعہ جب کمترین اپنے گاؤں میں واپس گیا تو انہی احباب کے مشورے سے کپڑوں کی فراہمی کا کام شروع کیا۔ تمام کپڑوں کا وزن ساڑھے پانچ من تھا، ان کو ننکانہ اسٹیشن کے راستے لاہور پہنچایا گیا اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد گرامی کے مطابق وہاں سے کشمیر بھیجے گئے۔‘‘

ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کو جہادِ کشمیر کے ساتھ کس قدر دلچسپی تھی اور انہوں نے کتنے ولولہ اور جوش و خروش کے ساتھ اس کی معاونت میں حصہ لیا۔ اس دور میں آزاد کشمیر کے صدر کرنل سید علی احمد شاہ تھے، اور میر واعظ مولانا محمد یوسفؒ علمائے کشمیر کی قیادت کر رہے تھے جو حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ ان دونوں حضرات کی دعوت پر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا اور مظفر آباد میں ریاستی حکومت کے مہمان رہے۔ اس موقع پر آزاد ریاست میں افتاء و قضا کے شرعی نظام کے قیام کے لیے حضرتؒ سے مشورہ کیا گیا اور رہنمائی کی درخواست کی گئی، چنانچہ حضرت لاہوریؒ ہی کی تجویز پر علماء کرام کی ایک جماعت کو ان کی خدمت میں شیرانوالہ لاہور بھیجا گیا۔ جہاد، قضا اور افتاء کے لیے ان کی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا گیا اور انہیں آزاد کشمیر میں مختلف مناصب پر فائز کیا گیا۔

ماسٹر لال دین اخگر مرحوم کی روایت کے مطابق صدر آزاد کشمیر کرنل سید علی احمد شاہ نے اس موقع پر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے استدعا کی کہ قرآن کریم کا اردو زبان میں ایسا ترجمہ تحریر کیا جائے جو ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے ہاں یکساں طور پر قابلِ قبول ہو۔ چنانچہ حضرت لاہوریؒ نے اس فرمائش پر قرآن کریم کا ترجمہ تحریر کیا جو شائع ہوا اور جس پر اس وقت کے دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ مکاتبِ فکر کے اکابر علماء کرام کے تصدیقی دستخط موجود تھے۔ یہ ترجمہ پہلی مرتبہ ان اکابر کی تصدیقات اور دستخطوں کے ساتھ شائع ہوا جس کے نسخے اب بھی بہت سے حضرات کے پاس موجود ہوں گے، مگر اس کے بعد دستخطوں اور تصدیقات کے بغیر یہ ترجمہ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ جبکہ اصل تصدیقات مجھے خود حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو میرے شیخ و مرشد تھے دفتر انجمن خدام الدین کے ریکارڈ میں دکھائی تھیں اور میں نے ان کا مطالعہ کیا تھا۔ خدا کرے کہ اب بھی یہ تصدیقات خدام الدین کے ریکارڈ میں موجود و محفوظ ہوں۔

’’مرد مومن‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ

’’حضرت لاہوریؒ جب جہادِ کشمیر کی حمایت اور نفاذِ شریعت کے سلسلہ میں معاونت و مشاورت کے لیے مظفر آباد تشریف لے گئے تو اس دوران وہ اپنے دیرینہ عقیدت مند غازی خدا بخش مرحوم کے ہیڈکوارٹر پر بھی گئے جو وہاں اس وقت آنریری کیپٹن بطور سول آفیسر کام کر رہے تھے۔ یہ غازی خدا بخش وہی بزرگ ہیں جن کا حضرت لاہوریؒ اور دیگر اکابر کے ساتھ گہرا تعلق تھا، ۱۹۵۷ء میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کی تشکیلِ نو میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ جمعیت کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمانِ اسلام‘‘ کا ابتدائی ڈیکلریشن انہی کے نام پر تھا اور وہ اس کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔‘‘

شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی طرف سے کشمیری عوام کی جنگِ آزادی کو شرعی جہاد قرار دینے اور اس کی بھرپور عملی حمایت و امداد کا تذکرہ ہم گزشتہ کالم میں کر چکے ہیں جو اس وقت کی معروف سیاسی تقسیم کے مطابق علماء دیوبند کے تھانوی مکتبِ فکر کے قائد تھے۔ جبکہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کو اس وقت علماء دیوبند کے مدنی مکتبِ فکر کی سیادت حاصل تھی اور وہ بھی جہادِ کشمیر کے سرگرم مؤید اور معاون تھے۔ اس لیے دیوبندی حلقوں میں آزادئ کشمیر کی مسلح جدوجہد کے شرعی جہاد ہونے کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تھوڑا بہت تردد صرف مولانا مودودیؒ کے حلقے میں تھا، وہ بھی اب باقی نہیں رہا اور خود جماعتِ اسلامی اس تردد کو جھٹک کر جہادِ کشمیر میں عملی طور پر شریک ہو چکی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter