ڈاکٹر نوح فلڈمین (Noha Feldman) امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے استاد ہیں اور نیویارک ٹائمز کے میگزین سیکشن سے بھی تعلق رکھتے ہیں، شریعت اسلامیہ ان کی اسٹڈی کا خصوصی موضوع ہے اور وہ اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل نیویارک ٹائمز کے میگزین سیکشن میں ?Why Sharia (شریعہ کیوں؟) کے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھا جس کے کچھ اقتباسات ٹوکیو کے جناب حسن خان نے دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ کی ۴ دسمبر کی اشاعت میں اپنے ایک مضمون میں درج کیے ہیں۔ وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
پروفیسر فلڈمین کہتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے جس روز مدینہ ہجرت کی اس وقت سے ۱۹۲۴ء تک، جب ترکی کے سیکولر حکمران فوجی جنرل مصطفٰی کمال اتاترک نے خلافت کے اسلامی نظام حکومت کو ختم کر کے شریعت کو معطل کیا، اس وقت تک، یعنی ۱۳۰۰ سال کے عرصہ دراز تک دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی اس لیے قائم رہی کہ ہر مسلمان مملکت میں بالعموم شریعت نافذ رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدلیہ آزاد رہی تھی، جابر سے جابر مسلمان حکمران بھی شریعت کی بالادستی، یعنی قاضی کے فیصلوں اور مفتیوں کے فتوؤں کے آگے سر جھکا دیا کرتے تھے۔ بادشاہوں کی مجبوری یہ تھی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کی فوج کسی بھی دشمن کے مقابلے میں جہاد سمجھ کر دل و جان سے نہ لڑتی کیونکہ کرائے کے سپاہیوں سے دشمن کے حملوں کے خلاف کوئی بھی بادشاہ اپنی حکومت کا زیادہ عرصے تک دفاع نہیں کر سکتا۔
موجودہ دور میں اسلامی سیاست میں جہاں کہیں نفاذ شریعت کی بات کی جاتی ہے اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ عورتیں حجاب یا پردہ کریں، یا یہ کہ شرعی سزاؤں اور کوڑے مارنے کے عمل کو زندہ کیا جائے، بلکہ اس میں اسلامی ریاست کے بنیادی قانون اور دستوری نوعیت کا ایک انتہائی ضروری اور ناگزیر پہلو بھی شامل ہے، وہ یہ کہ عام قانون پر شریعت کو اسلامی ریاست کے ملکی دستور کے طور پر بالادست رکھا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا جواب روایتی اسلامی حکومت کے ایک ایسے پہلو میں مضمر ہے جس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک نفاذ شریعت کے تحت چلنے والی ساری حکومتیں گویا قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔
اسلامی قانون کے تحت چلنے والی روایتی اسلامی حکومتوں کو قانون کی عملداری سے بے نیاز گزشتہ ایک صدی سے وجود میں آنے والے مطلق العنان مسلمان حکمرانوں یا بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں کی حکومت کے مقابلے میں یہ ایک بڑا فائدہ حاصل تھا۔ اس طرح کہ اسلامی حکومت دو اعتبار سے ایک برحق حکومت سمجھی جاتی تھی۔ ایک اعتبار سے حکومت خود اپنی یہ ذمہ داری سمجھتی تھی کہ وہ اپنی رعیت کے انفرادی حقوق کا پورا پورا احترام کرے۔ دوسرے اس اعتبار سے کہ رعایا کو بھی اس پر پورا اعتماد تھا کہ حکومت ضرور بالضرور ہمارے حقوق کا احترام کرے گی۔ اس طرح کے حقوق العباد کی نوعیت حقوق اللہ سے مختلف ہوا کرتی تھی۔ اس طرح کی اسلامی حکومت اپنی رعایا کی جان و مال کی محافظ ہوا کرتی تھی۔ ساری دنیا میں صدیوں سے ہر ملک کے لوگ حکومتوں کی بے جا دخل اندازی اور من مانی کارروائیوں سے بچنے اور اپنے جان و مال کی حفاظت کے خواہشمند ہوا کرتے تھے، لیکن انہیں اس حفاظت کی گارنٹی دنیا کی کسی بھی حکومت سے نہیں مل سکتی تھی، سوائے اس حکومت کے کہ جہاں شریعت نافذ ہو۔
اس پس منظر کے تفصیلی تذکرے کے ساتھ موجودہ عالمی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر نوح فلڈمین لکھتے ہیں کہ درحقیقت عالمی تاریخ میں اسلامی قانون سے بہتر، اعتدال، کشادہ دلی اور انسان دوستی پر مبنی قانونی اصول کہیں نہیں پائے جاتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کے لوگوں کو اپنے نظام کی محرومیوں کو چھپانے کے لیے اس سازش کی ضرورت تھی کہ وہ اسلام اور اسلامی شریعت کو ایک دہشت ناک چیز بنا کر دنیا کو دکھائیں تاکہ لوگ اسلام کو برا اور مغربی دنیا کو اچھا سمجھنے لگیں۔
پروفیسر فلڈمین مبینہ طور پر یہودی دانشور ہیں اور ان کے اس اعتراف حقیقت کے تناظر میں یہ بات ہمارے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کو ایک دہشت ناک چیز بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ’’سازش‘‘ میں خود ہمارا کردار بھی ایک شریک کار سے کم نظر نہیں آتا۔ لیکن اس سے قطع نظر پروفیسر فلڈمین کے یہ خیالات پڑھ کر مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آگیا ہے جسے قارئین کے سامنے پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے، برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں ورلڈ اسلامک فورم کے وفد نے شہر کے ایک بڑے پادری صاحب سے ملاقات کا پروگرام بنایا، ان کا نام یاد نہیں رہا لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ سرکاری طور پر نوٹنگھم کے سب سے بڑے پادری تھے، جبکہ ورلڈ اسلامک فورم کے وفد میں مولانا محمد عیسٰی منصوری، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، اور ایک نومسلم آئرش بزرگ حاجی عبد الرحمان کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ملاقات کے دوران میں نے پادری صاحب سے سوال کیا کہ اس وقت مغربی معاشرے میں خاندانی نظام تتربتر ہو رہا ہے، رشتے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شراب، عریانی، بدکاری اور سودخوری کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، اس صورت حال میں وہ ایک مذہبی رہنما کے طور پر کیا محسوس کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس عمل کو کہیں بریک لگتی نظر آتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے گزارش کی کہ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے اور سوسائٹی کو حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی طرف واپس لے جانے کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں، یا آپ کے پاس کیا پروگرام ہے؟ فرمانے لگے کہ ہم تو کچھ نہیں کر سکتے بلکہ ہم تو آپ کے منہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس عمل کو بریک لگانے اور نافرمانی کا راستہ روکنے کے لیے جس روشنی کی ضرورت ہے اس کی چمک ہمیں صرف آپ لوگوں کی آنکھوں میں دکھائی دیتی ہے، اس لیے آپ لوگ ہی آگے بڑھیں گے تو کچھ ہو گا ورنہ ہم اس حوالے سے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ الفاظ یقیناً میرے ہیں لیکن میں نے پوری دیانت داری کے ساتھ کوشش کی ہے کہ پادری محترم کے جوابات کا جو ترجمہ مجھے آئرش نو مسلم حاجی عبد الرحمان نے بتایا اس کا مفہوم پوری طرح بیان کر دوں۔ کیا یہ ہماری بدنصیبی کی انتہا نہیں کہ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور ہم اپنے وقتی، محدود، گروہی یا فرقہ وارانہ مفادات کے تحفظ اور آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے کسی نے کہا تھا